ارشد شریف کا اس نئے انقلابی کی تعریفیں کرنا ہم سب دوستوں کے لیے حیران کن تھا کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ ایک سال سے اس کی وجہ سے مجھ سے روزانہ لڑتا تھا اور مجھے کئی القابات سے نوازتا تھا۔ ارشد شریف کے غصے سے ہم سب آگاہ تھے۔
اس دوران وہ انقلابی صحافی مجھے کئی میسجز بھیج چکا تھا کہ وہ ارشد شریف سے معافی مانگنے کو تیار ہے۔ مجھے ارشد کا علم تھا کہ اگر میں نے ذرا بھی بات چلائی تو وہ مجھ پر چڑھ دوڑے گا کہ وہ ابھی تک اپنے پالے سانپوں کی وکالت کرنے سے باز نہیں آیا تھا۔ اس دوران ارشاد بھٹی نے مجھے کہا کہ اس 'انقلابی‘ کو ارشد شریف سے معاف کرا دو۔ اس نے مجھ سے مایوس ہونے کے بعد ارشاد بھٹی کی سفارش ڈھونڈی تھی لیکن ارشاد بھٹی کا ارشد سے اتنا تعلق نہیں تھا کہ وہ خود کہہ سکتا۔ میں نے انکار کر دیاکیونکہ مجھے علم تھا کہ اس کا مقصد خود کو ارشد کے ہاتھوں دوبارہ ذلیل کرانا تھا۔ اب ارشد شریف اس صحافی کے گن گا رہا تھا۔
ارشد نے ایک دن شاہد بھائی کے گھر ڈنر ٹیبل پر سب دوستوں کی موجودگی میں مجھے کہا کہ وہ 'انقلابی‘ صحافی اسے ادھر ادھر سے سفارشیں کرا رہا تھا۔ کیا کہتے ہو۔ میں نے کہا‘ جو آپ کا دل کرے‘ آپ نے کب کسی کی ماننی ہوتی ہے‘ جب میں نے کہا تھا اس کو کچھ نہیں کہنا تو تم نے کون سی میری بات مان لی تھی۔ اب تم صلح کرنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی۔ ایک سال مجھے اس 'انقلابی‘ کی وجہ سے تم سب دوستوں نے ذلیل کرنا تھا وہ کر لیا‘ اس کی پٹائی کرنی تھی وہ بھی کر لی اب صلح کا دل کررہا ہے تو وہ بھی کر لو۔ تم من موجی ہو شہزادے۔
ارشد مسکرا کر چپ رہا۔ اب چند ماہ بعد وہ اس کے گن گا رہا تھا۔ ارشد شریف مشکلات میں گھر چکا تھا۔ وہ ایک پوزیشن لے چکا تھا۔ ارشد کی خوبی کہیں یا خامی‘ جب وہ کوئی فیصلہ کر لیتا تھا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے پیچھے نہیں ہٹا سکتی تھی۔ ہم سب دوست یہ بات جانتے تھے۔ میں سب سے زیادہ احتیاط کررہا تھا کیونکہ مجھے علم تھا کہ ارشد اور میری اپروچ میں اب فرق تھا۔ وہ ان بدلتے حالات میں سب کچھ دائو پر لگانے پر تل گیا تھا۔ وہ اسے جہاد کی شکل دے رہا تھا جبکہ میرے نزدیک ہمارا پروفیشن تھا جس میں رہتے ہوئے بھی ہم سب کچھ رپورٹ بھی کر سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے۔ ارشد شریف جب کسی پر رپورٹنگ کرتا تھا تو پھر اسے روکنا چینل مالک یا کسی کے لیے مشکل ہوتا تھا۔ شاید 2015ء کی بات ہے مجھے عمران خان کا میسج ملا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں۔ وہاں پہنچا تو ریحام خان موجود تھیں۔ اس وقت ارشد شریف ریحام خان اور عمران خان کے خلاف ٹویٹس کررہا تھا۔ عمران خان نے مجھے کہا کہ پورے شہر سے چیک کیا ہے کہ ارشد شریف اگر کسی کی بات مانتا ہے تو وہ تم ہو‘ اسے کہو وہ مجھ پر جو ٹویٹس کرتا ہے وہ بے شک کرے لیکن ریحام پر ٹویٹس نہ کیا کرے۔ میں نے کہا: یہ تو نہیں کہوں گا کہ وہ میری بات مانتا ہے‘ ہاں یہ ضرور ہے کہ میری بات سن لیتا ہے اور اگر اسے بات میں وزن محسوس ہو تو وہ مان بھی لیتا ہے۔ وہ ایک ذہین انسان ہے۔ وہ دوسروں کی جذباتی بلیک میلنگ کا شکار کم ہی ہوتا ہے۔ میں نے اپنی دوستی کی بلیک میلنگ کبھی نہیں کی۔ ہاں اسے دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ ارشد شریف کے معاملے میں دلیل ہی واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعے ارشد کو شکست دی جا سکتی ہے۔ محض باتوں سے ماننے والا وہ نہیں چاہے آپ اس کے کتنے ہی قریبی دوست کیوں نہ ہوں۔ اس کے سر میں کوئی بات سمائی ہوئی ہو تو پھر دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے وہ ٹلنے والا نہیں۔ خیر‘ میں عمران خان سے مل کر لوٹا تو ارشد شریف کو بتایا کہ یہ بات ہوئی ہے۔ کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟ ارشد مسکرایا اور بولا: میں تو کچھ بھی نہیں کررہا۔ میں نے کہا: چلیں ایک دلیل دیتا ہوں‘ شاید اثر کر جائے۔ بولا: میں نے تجھے پہلے کبھی انکار کیا ہے؟ میں نے ارشد کو مشکل سے بیس سکینڈ میں ایک بات کی۔ وہ ہنس پڑا اور بولا: چلو آج سے ٹویٹس بند۔ لیکن پھر اس کے ذہن میں کچھ دن بعد بات دوبارہ سمائی اور اس نے پھر ٹویٹس شروع کر دیے۔ میں نے پھر بات نہ کی۔ اُن دنوں پوری پی ٹی آئی ارشد شریف کے خلاف غلیظ ٹرینڈز اور گالی گلوچ کررہی تھی۔ خاندان تک پر حملے ہورہے تھے۔ ارشد پی ٹی آئی کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ صحافی تھا۔
ارشد شریف کے ساتھ نواز شریف حکومت میں کچھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا تھا۔ جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو ارشد نے ایک خبر بریک کی جس پر ایف آئی اے نے اس پر مقدمہ درج کر لیا۔ یہ مقدمہ ایک سویلین ایجنسی کے کہنے پر درج ہوا تھا لہٰذا ڈر تھا کہ ارشد پر ٹارچر ہوگا۔ ارشد کے دفتر اور گھر پر چھاپے مارنے کا پلان بنا تو ارشد چپکے سے کراچی چلا گیا۔ ہم سب دوستوں نے ارشد کے حق میں پروگرام کیے‘ ٹویٹس کیے۔ ارشد شریف خود ایک فوجی خاندان سے تھا لہٰذا اس کا فوج کے ساتھ تعلق گہرا تھا جس پر سوشل میڈیا میں اس پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ اگر ہم دوست بھی مقتدرہ کے کردار پر بات کرتے تو ارشد دفاع کرتا۔ اس سے سپر محب الوطن شاید ہی کوئی ہوگا۔ اب جب عمران خان حکومت جانے کے بعد ارشد شریف طاقتوروں کی منشا یا مرضی کے برعکس رپورٹنگ کرنے لگا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ ارشد شریف شاید وہ پہلا صحافی تھا جس نے قبائلی علاقوں یا سوات ایریاز میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر براہ راست رپورٹنگ کی تھی۔ ایک موقع پر جب وہ لائیو کور کررہا تھا تو کیمرے کی آنکھ نے وہ منظر ریکارڈ کیا جب طالبان کی ایک گولی اس کے کان کے قریب سے گزر گئی۔ارشد شریف نے ان برسوں میں فیلڈ میں جنگ لڑنے والے فوجی افسران کو جانیں دیتے دیکھا تھا لہٰذا اس کے دل میں ان شہیدوں کے لیے بڑی عزت تھی۔اب اچانک بدلتے حالات میں ارشد ایک ایسی پوزیشن لے چکا تھا جس سے پیچھے ہٹنا اس کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ یہ بات ہم سب دوست جانتے تھے۔ ارشد اور میری پوزیشن کا فرق یہاں سے دیکھیں کہ ارشد شریف عمران خان کے سیمینار میں تقریر کرنے گیا‘ مجھے بھی بلایا گیا تو میں نے انکار کر دیا کہ ہم جیسے بقول نصرت جاوید کے ''دو ٹکے کے رپورٹرز‘‘ کا کام سیاسی جلسوں اور سیمینارز میں خطاب کرنا نہیں۔ ہم نے جو کہنا ہے اپنے ٹی وی شوز میں کہتے ہیں۔ کسی ایک سیاسی پارٹی کے ایجنڈے یا نعرے کے ساتھ خود کو اٹیچ نہیں کرتے۔ میں بڑے عرصے سے دیکھتا آیا تھا کہ یہ سب سیاستدان جب اپوزیشن میں آتے ہیں تو انہیں ہارڈ ہٹنگ صحافی اچھے لگتے ہیں لیکن اقتدار ملتے ہی ان کی فرعونیت کے مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرا سیاستدانوں سے اگر کوئی رومانس تھا تو وہ 2008ء میں پی پی پی اور نواز لیگ کی مشترکہ حکومت کی حرکتوں اور کارناموں بعد ختم ہوچکا تھا۔
ارشد شریف کی اس بڑھتی ہوئی پاپولرٹی نے اس کُٹ کھانے والے انقلابی صحافی کو بھی موقع دیا کہ وہ اس کے ساتھ جا کر چپک جائے اور اس کے ٹویٹس ری ٹویٹس کرے،اس کے حق میں وی لاگ کرے۔مجھے اچانک خطرے کا احساس ہوا کہ ارشد شریف کو گھیرا جارہا تھا۔جب اس کے دشمن بھی اس کے گرد اکٹھے ہو کر اسے داد دے رہے تھے اور مزید بڑھکا رہے تھے تودال میں کچھ کالا تھا۔میں نے ارشد کو میسج کیا کہ اگر کل کلاں کو تمہیں اور عدیل راجہ کو نقصان ہوا تو اس 'انقلابی صحافی‘ کو غم ہوگا یا خوشی ہوگی جس نے تمہارے خاندان پر غلیظ حملے کیے تھے اور تم دونوں نے گوادر میں اسے مارا تھا؟ارشد شریف کے پاس میری اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔اس نے دلیل کے بجائے ایک بڑا جذباتی میسج مجھے بھیجا۔(جاری)