شاید رات کے تین بجے تھے۔ میں ویک اینڈ پر اسلام آباد سے باہر تھا اور حسبِ عادت جاگ رہا تھا کہ موبائل فون کی سکرین پر اینکر دوست‘ محمد مالک کا نمبر نمودار ہوا۔ میں بہت حیران ہوا کیونکہ اتنے برسوں کے تعلقات میں مجھے یاد نہ تھا کہ مالک نے کبھی اتنی رات گئے فون کیا ہو۔ میری چھٹی حس نے خبردار کیا کہ کوئی گڑ بڑ ہوسکتی ہے۔ فوراً فون اٹینڈ کیا تو مالک کی آواز میں عجیب سی بات تھی جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہ کی تھی۔ مالک نے چھوٹتے ہی مجھ سے پوچھا: رؤف یہ کیا ہوا ہے؟ میں نے بے ساختہ پوچھا: کیا ہوا ہے؟ مالک حیرانی سے بولا: تمہیں نہیں پتا‘ میں سمجھا تمہیں پتا ہوگا۔ ارشد شریف کو قتل کر دیا گیا ہے۔ مجھے لگا کسی نے میرے سر پر بم دے مارا ہے۔ مالک بولا: راجہ عدیل نے ابھی ٹویٹ کیا ہے ارشد کے بارے میں۔ مجھے اس وقت اپنے کمرے کے چھت گھومتی نظر آئی۔ پھر میں نے تسلی دینے کی خاطر خود سے کہا کہ یہ سب جھوٹ ہوگا‘ کوئی پرینک ہوگا یا پھر راجہ عدیل کا اکاؤنٹ کسی نے ہیک کر کے ارشد شریف بارے یہ بری خبر ٹویٹ کی ہو گی تاکہ اس کے دوستوں کو پیغام دیا جائے کہ ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں‘ اپنے دوست کو سمجھا لو۔
مجھے پتا نہیں چلا کب مالک نے اپنا فون بند کیا۔ پھر مجھے اچانک خیال آیا‘ میں فوراً راجہ عدیل کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر گیا تو وہ ٹویٹ موجود تھا کہ ظالموں نے میرے بھائی ارشد شریف کو شہید کر دیا۔ میں نے فوراً اس کا سکرین شاٹ لیا اور راجہ عدیل کو میسج کیا کہ راجہ تُو پاگل ہوگیا ہے یا تمہارا اکاؤنٹ ہیک ہوگیا ہے؟ میں بے چینی سے انتظار کرنے لگا کہ ابھی اس کا جواب آئے گا کہ کسی نے اکاؤنٹ ہیک کرکے ارشد شریف بارے یہ خبر چلا دی ہے‘ ایسا کچھ نہیں ہوا‘ ارشد شریف جہاں ہے‘ محفوظ ہے۔ راجہ کا مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اس پر میں نے اسے فون کیا۔ راجہ عدیل نے پہلی بیل پر ہی فون اٹھا لیا۔ وہ زور سے چیخیں مار رہا تھا۔ اس سے صرف اتنا بولا گیا: سر جی! ظالموں نے ارشد کو مار ڈالا۔ میرے ہاتھ سے فون نیچے بستر پر گرا۔ میں ایک سکتے کے عالم میں بیٹھا تھا۔ مجھے یوں لگا یہ کسی فلم کا سین ہے جو چل رہا ہے اور ابھی منظر بدلے گا اور کسی فلمی ہیرو کی طرح ارشد کو کچھ نہیں ہوا ہوگا اور وہ پھر سے دشمنوں سے نمٹ رہا ہوگا۔
ہم چار‘ پانچ دوست جب لانگ ڈرائیو پر شہر سے دور جانے لگتے تو ارشد شریف اکثر تیار ہو کر‘ سن گلاسز لگا کر جب اپنی گاڑی نکالتا تو میں کہتا: تم ٹام کروز کی طرح دِکھتے ہو۔ وہ مسکرا دیتا۔ اگر ہم دوست دو گاڑیوں میں جارہے ہوتے تو اس کی کوشش ہوتی کہ میں اس کی گاڑی میں‘ اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھوں۔ راجہ عدیل اور علی عثمان بھی ساتھ ہوتے۔ارشد اکثر خاموش گپ شپ یا دوستوں کی بکواس انجوائے کرتا یا پھر سڑک پر توجہ رکھتا اور کبھی کبھار کوئی لقمہ دے دیتا‘ ورنہ راجہ عدیل کی گفتگو ہم انجوائے کرتے کہ اس کے پاس روزانہ بہت کچھ بتانے کو ہوتا تھا۔ مجھے اب بھی اپنے کمرے کی چھت گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی کہ اسی دوران میرے بڑے بیٹے نے فیملی گروپ میں واٹس ایپ کال کی۔ میں سمجھ گیا اسے بھی ارشد کا پتا چل گیا تھا۔ مجھے حوصلہ نہ پڑا کہ میں وہ کال جوائن کروں۔
اتنی دیر میں چھوٹے بیٹے نے مجھے وڈیو کال کر دی۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ اُس وقت کس کرب سے گزر رہا تھا کیونکہ وہ ارشد سے بہت قریب تھا لہٰذا اس کی فون کال میں نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔میں نے بڑے بیٹے کی کال نظر انداز کر کے چھوٹے بیٹے کی کال اٹینڈ کر لی۔ وہی ہوا۔ مہد مجھے وڈیو کال پر زارو و قطار روتا نظر آیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بارش کی طرح برس رہے تھے۔ کہنے لگا: بابا یہ کیا ہوگیا‘ ارشد انکل کو کس نے مار ڈالا۔ مجھے اچانک احساس ہوا کہ یہ صرف میرا نقصان نہیں ہوا تھا بلکہ بڑا نقصان تو یہ ہوا تھا کہ میرے بچے بھی اپنے ارشد انکل کو کھو بیٹھے تھے‘ جن سے اس کی دوستی اور پیار تھا۔ مہد تو ارشد شریف کے بہت قریب تھا۔ ارشد اور اس کی پلاننگ تھی کہ جب مہد فلم ڈائریکشن اور مووی پروڈکشن میں ماسٹرز ڈگری مکمل کر لے گا تو دونوں انکل بھتیجا مل کر ڈاکیو منٹریز اور فلمیں بنائیں گے۔ارشد شریف بڑے عرصے سے فلم میکنگ اور ڈاکیومنٹریز کی طرف آنے کا سوچ رہا تھا اور اس نے چند وڈیوز اور سانگز بھی بنائے تھے جو پاکستان کی محبت سے سرشار تھے۔ مہد وڈیو کال پر بیٹھا رو رہا تھا اور میں ارشد شریف سے اپنی آخری ملاقات یاد کررہا تھا جو اسلام آباد کلب میں سینیٹر انور بیگ کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس سے پہلے جب ارشد شریف پر مقدمے درج ہونا شروع ہوئے تو اس کا کسی سے رابطہ نہیں ہورہا تھا۔ میں نے ارشد شریف کو ایک نمبر پر میسج کیا تھا کہ مجھے کال کرو۔ شام کا وقت تھا جب ارشد شریف نے مجھے کسی نمبر سے کال کی۔ اس وقت میرا ایک اور دوست جنید مہار بھی میرے ساتھ موجود تھا۔ میری ارشد شریف سے آدھا گھنٹہ بات ہوتی رہی۔ جنید مہار چپ چاپ سنتا رہا۔ جب گفتگو ختم ہوئی تو جنید مہار کچھ جذباتی ہو چکا تھا اور بولا: اس سے زیادہ کوئی بھی دوست کیا کر سکتا تھا جو آپ فون پر کررہے تھے۔ جنید بولا: اس وقت ارشد شریف آپ کے سامنے ہوتا تو آپ نے اس کے پائوں پکڑ لینے تھے۔ آپ نے جس طرح اسے محفوظ راستہ دینے کی کوشش کی‘ اس کے بعد کیا رہ جاتا ہے۔ جنید بولتا رہا۔ میں نے کہا: بعض دفعہ کچھ دوست اَنا اور ضد میں قید ہو جاتے ہیں۔ میں ارشد شریف کو 24 برس سے جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ وہ اس وقت کس کیفیت سے گزر رہا ہوگا۔ وہ ایک بہادر‘ عزت دار لیکن ضدی انسان ہے۔ وہ مر جائے گا لیکن جھکے گا نہیں۔ اس لیے میرے جیسے دوست کے لیے ضروری ہے کہ میں اپنی اَنا کی قربانی دوں تاکہ اسے یہ محسوس نہ ہو کہ وہ کوئی ایسا کام کر رہا ہے جس میں اس کی اَنا کمپرومائز ہو گی۔
میرا داؤ چل گیا تھا اور ارشد شریف میری آدھے گھنٹے کی گفتگو کے بعد اس حد تک راضی ہوگیا کہ اسے کچھ دن ٹویٹر سے دور رہنا چاہیے۔ میں خود بھی حیران تھا کہ میں کیسی گفتگو کررہا تھا جو میرے اپنے مزاج کے خلاف تھی۔ لیکن مجھے علم تھا کہ اس وقت میرے مزاج سے زیادہ اہم ارشد شریف تھا۔ اس طرح جب آخری ملاقات اسلام آباد کلب میں ہوئی تو بھی میں بولتا رہا اور وہ مسکرا کر سنتا رہا جیسے کہہ رہا ہو بولتے رہو‘ کرنا میں نے وہی ہے جو میں نے سوچ رکھا ہے۔ وہ اکثر میری تصویریں اتارتا رہتا تھا۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا ارشد بہت اچھا فوٹوگرافر بھی تھا۔ اُس وقت بھی کلب میں پابندی کے باوجود وہ میری چپکے سے پکچرز لیتا رہا جو بعد میں وہ مجھے واٹس ایپ پر بھیجتا رہتا تھا۔
ارشد شریف کے اندر یہ احساس بہت شدت سے موجود تھا کہ سب صحافیوں کے ساتھ دھوکا ہوا ہے کیونکہ ایک کرپٹ حکومت کو زبردستی مسلط کردیا گیا ہے۔ وہ اس احساس کو ختم نہیں کرپارہا تھا کہ شاید اسے استعمال کیا گیا تھا۔ وہ اکثر اداروں میں لیکچرز دینے جاتا تھا۔ وہ کتابوں کا رسیا تھا اور ہر نئی کتاب خریدتا تھااور اسے اچھی لگتی تو میرے لیے بھی خرید لیتا۔ مجھے اسلام آباد کلب کی ارشد شریف سے آخری ملاقات کی باتیں یاد آئیں۔ میں نے کہا تھا :ارشد شریف جن باتوں سے تم مجھے ہمیشہ روکتے تھے اور میں نے تمہارا ایک مشورہ نہ مان کر اپنا بڑا نقصان کیا تھا‘ اب وہ تم خود کررہے ہو۔ ارشد شریف نے لاپروائی سے موبائل فون سے میری پکچرز لینا جاری رکھا اور مسکرا کر پوچھا: میں تمہیں کن باتوں سے روکتا تھا جو اب میں خود کررہا ہوں؟ (جاری)