انسان کی دو تین خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اُس کے کسی دوسرے انسان سے جڑے مفادات ختم ہو جائیں تو وہ دیر نہیں لگاتا کہ اس بندے سے دوری اختیار کر لے۔ اور کچھ عرصے بعد وہ اس بندے کی برائیاں بھی ڈھونڈنے لگ جاتا ہے تاکہ کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ کسی وقت یا دور میں وہ اس کی مدد یا توجہ کا محتاج تھا۔ کچھ لوگ اسے بہت بڑی خامی کہیں گے کہ انسان ایسی غلط حرکت کرتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم سب ایسا کرتے ہیں۔ کسی سے ہمارے مفادات جڑے ہوں تو ہم سب بڑے خوشامدی بن جاتے ہیں لیکن جب وہ مفادات پورے نہ ہوں یا پورے ہو جائیں تو ہم بڑے آرام سے انہیں خود سے پرے کر دیتے ہیں۔ اس بندے کی خوبیاں اچانک ہمیں خامیاں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔
یہ تجربے آپ نے بھی کیے ہوں گے اور میں نے بھی کیے ہیں بلکہ ہو سکتا ہے کچھ لوگ آپ کے اور میرے بارے میں بھی یہی کہتے ہوں کہ ہمارے مفادات پورے ہوتے ہی ہم یکدم بدل گئے۔ اپنے مرحوم دوست ارشد شریف کی باتیں یاد آتی ہیں جو پچھلا پورا سال مجھ سے آتے جاتے ایک ہی بات پر لڑتا تھا کہ تم نے اپنے علاقے سے تین سانپ پال کر اسلام آباد میں رکھے ہوئے ہیں۔ اُن میں سے ایک نے ارشد کو ڈسا بھی۔ میں اسے یہی کہتا تھا کہ سب مفادات کا کھیل ہے۔ جب یہی سانپ مجبور ہوتے ہیں تو ان کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے اور جب یہ دودھ پی کر کچھ دانت نکال لیتے ہیں تو پہلا ڈنک اُنہی ہاتھوں پر مارتے ہیں جو انہیں دودھ پلاتے ہیں۔ یہی انسانی نفسیات ہے اور ہم سب لوگ یہی کرتے ہیں۔
حالیہ کچھ عرصے میں ہونے والے تجربات نے مجھے یہی بات سمجھائی ہے کہ لوگ ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ اس وقت تک ان کے دوست ہیں جب تک آپ ان کے کسی بڑے مفاد میں حائل نہیں ہوتے۔ذاتی مفاد اور آپ میں سے جب انہیں کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو تو بہت کم دوست ہوتے ہیں جو ذاتی مفاد کو چھوڑ کر تعلق بچاتے ہیں۔ دراصل میں عمران خان کا ایک غیرملکی چینل کو دیا گیا انٹرویو سن رہا تھا جس میں وہ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے گفتگو کررہے تھے‘ جس میں انہوں نے پرویز مشرف کے وار آن ٹیرر میں شمولیت کے فیصلے پر تنقید کی۔ میں ان دنوں اسلام آباد میں ہی رپورٹنگ کررہا تھا جب یہ جنگ شروع ہوئی تھی۔ اس وقت بھارت امریکہ کو ہر طرح کی سپورٹ دینے کو تیار تھا‘ اس وقت کی قیادت بھی بخوبی جانتی تھی کہ اگر ہم نے امریکہ کا ساتھ نہ دیا تو بھارت اس گیپ کو پورا کردے گا اور ہمارے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ وہ غلط فیصلہ تھا یا درست‘ اسے ایک لمحے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ابھی یہ دیکھتے ہیں کہ جب یہ فیصلہ کیا جارہا تھا تو اس وقت عمران خان کس طرف کھڑے تھے۔ کیا انہوں نے اس وقت کھل کر پرویز مشرف کے اس فیصلے کی اس طرح مخالفت کی تھی جیسے کبھی 2003ء میں سینیٹر باراک اوباما نے عراق پر حملے کے خلاف کی تھی، اور شاید یہی مخالفت آنے والے برسوں میں اوباما کو امریکی عوام میں مقبولیت فراہم کر گئی۔
اوباما کے برعکس عمران خان اس وقت کی قیادت کے ساتھ کندھا سے کندھا ملا کر کھڑے تھے اور اس فیصلے کے موجد پرویز مشرف کو مسیحا بنا کر پیش کررہے تھے۔ پرویز مشرف کے اس فیصلے کے بعد ہی عمران خان نے اُن کے صدر بننے کے ریفرنڈم کو سپورٹ کیا تھا۔ اگر عمران خان امریکی جنگ کے شروع دن سے خلاف تھے تو پھر انہیں اس دن ہی پرویز مشرف سے دوری اختیار کر لینی چاہیے تھی جب پرویز مشرف نے امریکہ کو ہوائی اڈے فراہم کیے تھے لیکن عمران خان نے ان دنوں کھل کر پرویز مشرف کے اس فیصلے کی مذمت نہ کی۔ پرویز مشرف عمران خان کو اس وقت برے لگنا شروع ہوئے جب انہیں لگا کہ شاید وہ اِنہیں دھوکا دے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد ان کے وزیراعظم بننے کا راستہ کھل چکا ہے اور اب مشرف اُنہیں ہی وزیراعظم بنائیں گے۔ یوں تین سال تک عمران خان اُس پرویز مشرف کے گیت گاتے رہے جس کی امریکہ نواز پالیسیوں کی آج وہ مخالفت کرتے ہیں۔ جن دنوں پرویز مشرف کے خلاف انہیں سٹینڈ لینے کی ضرورت تھی وہ اس وقت قوم کو ان کی خوبیاں اس طرح جوش و خروش سے بتا رہے تھے جیسے آج وہ اُن کی خامیاں بتاتے ہیں۔
دراصل عمران خان کو اُس وقت احساس ہوا کہ انہیں پرویز مشرف نے استعمال کیا تھا جب اکتوبر 2002ء کے الیکشن سے پہلے انہیں کہا گیا کہ وہ چودھری شجاعت حسین سے مل کر کچھ سیٹوں پر اپنی پارٹی کی ایڈجسٹمنٹ کر لیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب عمران خان کو احساس ہوا کہ اگرچہ سیاست وہ کررہے تھے لیکن پرویز مشرف ان سے بھی بڑے سیاستدان نکلے کیونکہ انہوں نے اپنے پہلے تین برسوں میں اس وقت عمران خان کی ساکھ کو اپنے لیے استعمال کر لیا تھا جب انہیں نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ پاکستان سے باہر بھی شدید ضرورت تھی کہ انہیں کرپٹ زرداری اور شریفوں کے مقابلے میں ایک آمر نہیں بلکہ مسیحا سمجھا جائے۔یوں ہم نے دیکھا کہ جب 2002ء کے الیکشن کے بعد عمران خان پارلیمنٹ پہنچے تو انہوں نے پرویز مشرف اور چودھریوں کو اپنا نمبر ون دشمن بنایا اور پرویز مشرف کے دشمنوں کے ساتھ ہاتھ ملایا بلکہ اُس الائنس میں شامل ہوئے جس کی سربراہی نواز شریف کررہے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ لندن جا کر نواز شریف سے ملاقات کی اور مل کر پرویز مشرف کے خلاف تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا۔ میں لندن کی اس پریس کانفرنس میں موجود تھا جو عمران خان نے نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر اُن کے آکسفورڈ سٹریٹ میں واقع دفتر میں کی تھی اور اسی نواز شریف کو پاکستان واپس لوٹنے کی دعوت دی جس نے کبھی جمائما خان اور مسز گولڈ سمتھ پر نایاب ٹائلز کی سمگلنگ کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ وہ مقدمہ بعد میں مشرف دور میں اس وقت ختم ہوا جب عمران خان نے مشرف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اُن بدلتے حالات میں پرویز مشرف عمران خان کے لیے برے ہوگئے تھے اور نواز شریف اچھے۔ بات وہی تھی کہ جس وقت پرویز مشرف کے ساتھ عمران خان کا مفاد بندھا تھا تو مشرف اچھا اور نواز شریف کرپٹ تھا‘ پھر اچانک لندن میں نواز شریف خان کیلئے ایک بہترین جمہوری لیڈر بن گیا تھا اور مشرف ایک بدترین ڈکٹیٹر۔
اُنہی دنوں عمران خان نے چودھریوں کی چوریاں اور ڈاکے ایکسپوز کرنا شروع کیے۔ ان کے بینک لوٹنے کی دستاویزات وہ پارلیمنٹ ہائوس کے کیفے ٹیریا میں صحافیوں میں بانٹا کرتے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے چھوٹے چودھری کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہنا شروع کر دیا کیونکہ اس وقت چودھری برادرز عمران خان کے مفادات کے دشمن تھے۔ ابھی اسی چودھری کو خان نے اپنے ہاتھوں سے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا ہے جسے وہ کبھی ڈاکو کہتے تھے۔ وہ اب ان کا اپنا ساتھی ہے کیونکہ اب عمران خان کا مفاد اسی میں ہے۔ وہی بات کہ ہم سب انسانوں کو اُن سے جڑے اپنے ذاتی مفادات کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ پرویز مشرف آج بھی اس لیے عمران خان کی آنکھ میں اچھے نہیں کیونکہ ان سے جڑا مفاد پورا نہیں ہوا تھا لیکن چودھری آج خان کے لیے اچھے ہیں کیونکہ اب عمران خان کا ان سے مفاد جڑ گیا ہے۔
یہ سب انسانوں کی کہانی ہے۔ جب ہمارے مفادات کسی سے جڑ جائیں تو وہ بندہ فرشتہ لیکن جس دن مفاد ختم ہو جائے تو وہی بندہ ہمارے لیے شیطان بن جاتا ہے۔ عمران خان نے بھی پہلے دن مشرف کی کھل کر مخالفت کی ہوتی‘جیسے باراک اوباما نے صدر بش کی عراق جنگ کی کی تھی تو میں آج عمران خان کی اس گفتگو کو سیریس لیتا جو وہ غیرملکی چینل کی خاتون صحافی کے ساتھ کررہے تھے۔