یہ تو داد دیں پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں کو کہ انہوں نے اپنی قوم کو بڑی سمجھداری سے چھوٹے چور بڑے چور میں تقسیم کر دیا ہے اور عوام اس تقسیم پر راضی اور خوش ہے۔
مطلب مقابلہ اب چوروں اور ایمانداروں میں نہیں رہا بلکہ چھوٹے یا بڑے چور میں ہے۔ تحریک انصاف والے جب زرداری اور شریفوں کی بیرون ملک جائیدادوں اور منی لانڈرنگ کے طعنے دے کر انہیں بڑا چور کہتے ہیں تو نواز شریف اور زرداری کے حامی تحریک انصاف کو گھڑی چور کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ جب بات زیادہ بڑھنے لگتی ہے تو پھر تحریک انصاف کے حامی کہتے ہیں ہمارے والے کی چوریاں معمولی ہیں تمہارے والوں نے تو بڑے بڑے ڈاکے مارے ہیں۔اب تحریک انصاف کے دوست وہ جواب نہیں دے سکتے جو وہ چار سال پہلے تک بڑے فخر سے دیتے تھے کہ جناب ہمارا خان تو ایماندار ہے چور تو تمہارے لیڈر ہیں۔ یوں ان چار سالوں میں خان خود کو بڑی محنت سے اس فہرست میں شامل کراچکے ہیں کہ اب ان کی ایمانداری کی قسم کھانا ان کے حامیوں کے لیے مشکل ہوچکا۔
لندن سے آئے دوست ناصر کاظمی مجھے بتانے لگے کہ اوورسیز پاکستانی مجھ سے خوش نہیں ہیں۔ بتانے لگے کہ برطانیہ کے ایک شہر سے کسی مہربان نے انہیں باقاعدہ فون کر کے میری شکایت لگائی کہ میں نے فیس بک پر آپ کی رئوف کے ساتھ تصویر دیکھی تھی۔ وہ نوجوان مجھ سے شدید ناخوش تھا کہ خان صاحب کی معمولی ''چوریوں‘‘کا مقابلہ شریف خاندان یا زرداری سے کیا جاتا ہے۔میں نے کہا: کاظمی بھائی یہ داد تو دیں ان لیڈروں کو کہ انہوں نے لندن اور امریکہ کے جدید جمہوری معاشروں میں رہنے والوں کو قائل کر لیا ہے کہ کسی بھی سرونگ یا سابق وزیراعظم کے ''چھوٹی موٹی چوریاں‘‘ کرنے سے فرق نہیں پڑتا۔میں نے کہا :اس سال میں جولائی‘اگست میں امریکہ گیا تو اوورسیز دوستوں کے پاس عمران خان دور میں ہونے والی کرپشن کی بات ہوتی تھی تو وہ فوراً کہتے: چھوڑیں جی یہ چھوٹی موٹی چوری ہے۔مطلب ہمارا لیڈر چھوٹا چور ہے اسے چھوڑیں بڑے چوروں کی بات کریں۔میں نے کہا: کاظمی صاحب دراصل عمران خان کو بڑا ایڈوانٹیج ہے کہ وہ ابھی ایک دفعہ وزیراعظم بنے ہیں‘ تین ساڑھے تین سال کے لیے۔ان کے مخالفین تین تین دفعہ وزیراعظم بن چکے اور تین تین حکومتوں میں جو کارنامے تھے وہ سب سامنے آچکے‘لیکن عمران خان ابھی ایک دفعہ وزیراعظم بنے ہیں اور وہ شریفوں اور زرداری کے مقابلے پر بہت شریف لگتے ہیں ورنہ کسر خان صاحب کے دور میں بھی کوئی نہیں تھی‘ چاہے وہ پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تھے۔
اگر کسی کو یاد ہو تو جب 1991ء میں نوازشریف وزیراعظم بنے تو انہیں اس وقتLesserEvilیا کم برائی کا درجہ دیا گیا تھا جبکہ بھٹوز اور زرداری کو بڑی سیاسی برائی سمجھا گیا۔ بتایا جاتا تھا کہ اس ملک کو اصل تو زرداری اور بینظیر بھٹو نے لوٹا ہے‘ نواز شریف جو ایک کاروباری فیملی سے ہے‘ ملک کو ترقی دلائے گا۔ عالمی سطح پر پاکستان کو عزت دلائے گا۔ اُس وقت شریف خاندان پر کرپشن کے بڑے سکینڈلز نہ تھے نہ نواز شریف کی پہلی حکومت کرپشن پر توڑی گئی تھی۔ اس وقت بڑا ولن زرداری تھا جس کا توڑ کرنے کے لیے نواز شریف کو لانچ کیا گیا۔ اس دور میں شریف خاندان کو مظلوم بنا کر پیش کیاگیا‘ جسے بھٹو دور میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑگیا تھا اور ان کی فیکٹریاں کارخانے بھٹو نے ضبط کر لیے تھے۔
اگر آپ کو یاد ہو تو نواز شریف جب 1997ء میں دوسری دفعہ ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ وزیراعظم بنے‘ تب بھی شریف خاندان پر کرپشن کا ٹھپہ لگنا شروع نہیں ہوا تھا۔ ہاں اتنا تھا کہ وہ اپنے اثرورسوخ سے خاندانی کاروبار کے لیے بینکوں سے قرضے اور سرکاری فوائد لے رہے تھے۔ تب تک بینظیر اور زرداری بڑے ولن تھے اور نواز شریف کو چھوٹی برائی سمجھا جاتا تھا۔ نواز شریف نے اپنے خاندان پر بینک قرضے معاف کرانے کے الزامات سے بچنے کے لیے وزیراعظم بننے کے فوراً بعد 'قرض اتارو ملک سنوارو‘ کے نام سے تحریک شروع کر دی اور اپنی اتفاق فاؤنڈری‘ جو بینکوں سے چار ارب روپے قرض لینے کے کام آئی تھی‘ کو بھی بینکوں کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا تاکہ لون سیٹل ہو۔ یوں ان اعلانات سے نواز شریف پوری قوم کے ہیرو بن گئے۔ یہ الگ واردات تھی کہ اتفاق فاؤنڈری کی زمین بینکوں کو قرض سیٹل کرنے کے لیے دے کراپنے ایک عزیز کو اس کی فروخت کے خلاف سٹے آرڈر دلادیا اور برسوں بعد وطن واپس پہنچ کر وہ زمین واپس لے کر بینکوں کو چار ارب واپس کر کے اس پراپرٹی کو صنعتی سے رہائشی کا درجہ دے کر ہاؤسنگ سوسائٹی میں تبدیل کرا دیا۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
میں نے کہا: شریف خاندان پر اصل کرپشن کا دھبہ اس وقت لگا جب نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے اور پاناما سکینڈل سامنے آیا تو لوگوں کو پتا چلا کہ کیا کیا واردارتیں ڈالی گئی تھیں۔پہلی دفعہ لوگوں کو احساس ہوا کہ کس پیمانے پر کام ہوا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سارا کام نواز شریف کی پہلی حکومت سے ہورہا تھا‘ اُس وقت ہی لندن کے فلیٹس آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدے گئے جن کا انکشاف اب 2016 میں ہورہا تھا۔ 24 برس لگے شریف خاندان کی دنیا بھر میں جائیدادوں کی تفصیلات سامنے آنے میں۔ یہ اس دور میں خریدے گئے جب شریف خاندان کو زرداری اور بینظیر کے مقابلے میں کم برائی کا درجہ دیتے کیونکہ اس وقت زرداری پر 80ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ چل رہا تھا۔
یوں 2016 ء میں پہلی دفعہ لوگوں کو احساس ہوا کہ شریف خاندان کی حکومتیں زیادہ بڑی برائی تھیں اور ان کے مقابلے میں عمران خان ابھرے تو ان کا تاثر ایسا بنا کہ وہ تو بالکل برائی نہیں ہیں بلکہ ان کے کریڈٹ پر تو کینسر ہسپتال‘ نمل یونیورسٹی اور ورلڈ کپ ہے۔ یوں عمران خان کو اس طرح سامنے لایا گیا کہ وہ شریف خاندان کی کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور انہیں سزائیں دلائیں گے‘جیسے 1990 ء کی دہائی میں نواز شریف کو زرداری اور بینظیر بھٹو کے مقابلے میں وضعدار لیڈر کے طور پر لانچ کیا گیا تھا۔
لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان تو اتنا ایماندار ہے کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں پانی بھی سرکاری خرچ سے نہیں پیتا۔ جب خان صاحب کی حکومت شروع ہوئی تو میڈیا کو کہا گیا کہ پہلے سو دن ہمیں کچھ نہیں کہنا‘پھر کہا گیا چھ ماہ‘ پھر ایک سال اور پھر کہا‘ ہمیں پانچ سال بعد چیک کرنا۔ اس دوران اسد عمر نے وزیرخزانہ ہو کر لوگوں سے GIDC نام پر اکٹھے کیے گئے تین سو ارب روپے اپنے اور عمران خان کے کاروباری دوستوں کو معاف کیے‘ شوگر والوں کو چار ارب دے کر چینی باہر بھجوائی اور اس کی قیمت 52 روپے سے 100 روپے کی عبور کر گئی‘ ایل این جی جو تین ڈالر پر مل رہی تھی وہ اسد عمر نے نہیں خریدنے دی جو بعدمیں 41 ڈالرز پر خریدی گئی‘ آئی پی پیز سکینڈل میں دو ہزار ارب سے زائد ادائیگیاں ہوئیں‘ یاروں دوستوں اے ٹی ایمز کو وزیر مشیر بنایا گیا اور سب سے بڑھ کر پنجاب میں بزدار‘ مانیکا اور گجروں نے کام دکھائے اور رہی سہی کسر توشہ خانے کی لوٹ سیل میں پوری ہوگئی۔وہ خان جو چار سال پہلے اس نعرے کے ساتھ آیا تھا کہ اس جیسا کوئی ایماندار نہیں اب اس کے حامی مجبورا ًماننے پر تیار ہیں کہ وہ شریفوں کے مقابلے میں چھوٹی برائی ہے۔وہ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ کبھی ایسے ہی نواز شریف پہلی دفعہ وزیراعظم بننے پر زرداری‘ بینظیر سے کم برائی تھا۔خان صاحب کو تین دفعہ وزیراعظم بننے دیں وہ دن بھی آئے گا جب لوگ کہیں گے‘ خان بڑی برائی ہے‘ لیکن دیکھو اس کا نیا سیاسی مخالف کم برائی ہے۔