جو خوفناک انکشافات اس وقت سامنے آرہے ہیں اس سے ایک ہی سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ملک ایسے چلتے ہیں جیسے ہمارے حکمران چلا رہے تھے؟ انکشافات کا سلسلہ مشہور کالم نگار جاوید چودھری کے کالم سے شروع ہوا جو اب ٹی وی ٹاک شو سے ہوتا ہوا سوشل میڈیا کی زینت بن چکا۔ لوگ اپنی انگلیاں حیرت سے منہ میں دبائے بیٹھے ہیں۔ جاوید چودھری کے کالموں کے بعد رہی سہی کسر نواز لیگ کے ملک احمد خان نے پوری کی تو عون چودھری بھی پیچھے نہ رہے اور سب راز اُگل دیے۔ دوسری طرف عمران خان بھی قمر جاوید باجوہ بارے روز بروز نئے انکشافات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اتنا کچھ ان چند دنوں میں ہم جان چکے ہیں کہ لگتا ہے اب ہم پر کسی خبر کا اثر نہیں ہوگا۔ اتنی بڑی بڑی باتیں اب معمولی سی لگنے لگ گئی ہیں۔ اب پاکستان میں کوئی خبر خبر نہیں رہ گئی۔ خبر یا سکینڈل بھی شاید اپنی اہمیت کھو چکا۔
یہی پی ٹی آئی جو روز باجوہ صاحب پر تیر برسا رہی ہے‘ اس جماعت کے اسد عمر اور پرویز خٹک باجوہ صاحب کے پاس عمران خان کی یہ پیشکش لے کر گئے تھے کہ آپ مدتِ ملازمت میں دوسری توسیع لے لیں۔ عمران خان کہتے ہیں انہیں جنرل باجوہ نے کہا کہ انہیں مدتِ ملازمت میں توسیع دی جائے جبکہ جنرل باجوہ جاوید چودھری کو بتا رہے تھے کہ میرے تو فرشتوں کو بھی علم نہ تھا‘ خان نے زبردستی دی۔ اب آپ بتائیں کس کی بات ماننی ہے؟ ایک طرف ہاتھ میں ہر وقت تسبیح گھماتے ریاستِ مدینہ کے خود ساختہ خلیفہ ہیں تو دوسری طرف سپہ سالار ہیں جو ریاستِ مدینہ بنانے میں مدد فراہم کر رہے تھے‘ دونوں میں سے ایک تو یقینا سچ نہیں بول رہا۔ عمران خان ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہ کسی فوجی فیکٹری سے تیار شدہ سیاستدان نہیں ہیں جیسے نواز شریف ہیں لیکن اب پتا چل رہا ہے کہ عمران خان کی خفیہ ملاقاتیں تو 2017ء سے جنرل باجوہ سے شروع ہوگئی تھیں جب نواز شریف وزیراعظم تھے اور انہیں جنرل باجوہ کے گھر جہانگیر ترین لے کر گئے تھے۔
ترین کی بات چلی ہے تو سنتے جائیں کہ پہلے عمران خان نے جنرل باجوہ کو کہا کہ جہانگیر ترین کے بغیر وہ حکومت نہیں چلا پائیں گے لہٰذا ان کو بھی سپریم کورٹ سے مقدمے میں کلیئر کرایا جائے‘ مگر اُس وقت کی خاتون اول کو اطلاع ملی کہ ان کے سابق دیوروں نے ترین کو ان کے بارے میں کچھ کہا ہے تو ان کا پتا بھی کاٹنے کا فیصلہ ہوا۔ یوں چیف جسٹس ثاقب نثار سے کہہ کر ترین کو ڈِس کوالیفائی کرایا گیا۔ یاد آیا‘ عون چودھری بتا رہے تھے کہ انہیں وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں جانے سے اس لیے خان صاحب نے میسج کرکے روک دیا تھا کہ بیگم صاحبہ نے رات کو خواب دیکھا تھا کہ عون چودھری کا اس تقریب میں موجود ہونا برا شگون ہوگا اور خان صاحب اپنے پانچ سال پورے نہیں کر سکیں گے۔ یوں اچھے برے وقت کے ساتھی عون چودھری کو خان صاحب کو پانچ سال پورے کرانے کے نام پر روک دیا گیا‘ پانچ سال پھر بھی پورے نہ ہوئے۔
بات خوابوں سے ہوتی ہوئی جادو تک پہنچ گئی جب خاور مانیکا کے بھائیوں نے جہانگیر ترین کو بتایا کہ ان کی بھابھی جادوگرنی تھی اور یہ بات کھانے کی میز پر عمران خان کی موجودگی میں بیگم صاحبہ نے ترین سے کہی کہ ترین صاحب میں جادوگرنی نہیں ہوں۔ ترین نے رحم بھری نظروں سے اوپر دیکھا لیکن پتا کٹ چکا تھا۔ جادو سے یاد آیا‘ جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ انہیں عمران خان نے بتایا تھا کہ انہیں بیگم نے بتایا ہے کہ ان پر کسی نے جادو کر رکھا ہے۔ جنرل باجوہ بولے: ہاں میری بیوی نے مجھ پر جادو کر رکھا ہے۔ اب پتا نہیں وہ طنز کررہے تھے یا عمران خان کو کچھ سنا اور سمجھا رہے تھے۔ اب عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے دور میں جنرل باجوہ نے چپکے سے امریکہ میں حسین حقانی کو ہائر کر لیا تھا اور انہیں ادائیگی بھی کی گئی تھی۔ حسین حقانی کا کام وہاں امریکہ میں جنرل باجوہ کو اچھا اور عمران خان کو برا بنا کر پیش کرنا تھا اور حسین حقانی نے آخر امریکیوں کو قائل کر ہی لیا اور یوں حکومت کی چھٹی ہوگئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان جو امریکیوں کے خلاف مسلسل تقریریں کررہے تھے‘ وہ دراصل حسین حقانی کا کام آسان کررہے تھے۔ 17اگست 2021ء کے بعد کی گئی تقریروں میں‘ جب طالبان افغانستان میں قابض ہوئے‘ عمران خان امریکہ کو کیا پیغام دے رہے تھے؟ ویسے حیران ہوں کہ حسین حقانی کو امریکہ میں ہائر کرنے کی کیا ضرورت تھی‘ عمران خان تو اپنے دشمن خود ہیں۔ انہیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ امریکہ ہو یا برطانیہ یا یورپی یونین‘ انہوں نے اپنی تقریروں سے سب کو اپنا مخالف بنا رکھا ہے۔ وہ تو وزیراعظم ہو کر بھی ان ملکوں کی ایسی تیسی کررہے تھے اور پوری دنیا لائیو سُن رہی تھی۔ داد ہے ان لوگوں کو جنہوں نے پھر بھی عمران خان کے خلاف کوئی لابنگ فرم ہائر کی اور پاکستانی جیب سے مبینہ طور پر تیس ہزار ڈالر ادائیگی کی۔ مزے کی بات ہے کہ جب جنرل باجوہ نے فرم کو لابنگ کے لیے ہائر کیا تو اس وقت عمران خان کی حکومت تھی۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ایک سمری کابینہ میں بھیجی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ اب لابنگ فرم کو ہائر کرنے کے لیے کابینہ میں لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ رولز خود عمران خان نے بدلے۔ ماضی میں باقاعدہ پیپرا رولز کے تحت لابنگ فرمز ہائر ہوتی تھیں اور جو کم پیسے مانگتی تھیں انہیں ہائر کر لیا جاتا تھا لیکن اب کی دفعہ رول بدل دیا گیا اور معاملہ کابینہ تک نہیں پہنچا۔ اب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھی کہتے ہیں کہ انہیں نہیں پتا کہ کب لابنگ فرم ہائر ہوئی اور کب ادائیگی کی گئی۔ انہیں سائفر کا بھی پتا نہیں چلا تھا اور نہ ہی لابنگ فرم ہائر کرنے کا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی کابینہ نے جب یہ اختیارات فارن آفس کو دیے تھے تو انہوں نے اپنے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تک کو نہیں بتایا۔
عمران خان کے پاس آج کل اپنی ہر ناکامی کا ایک ہی جواب ہے کہ انہیں نہیں پتا تھا‘ انہیں نہیں بتایا گیا‘ ان کے ساتھ دھوکا ہوا‘ وہ بہت بھولے تھے‘ ان کے اختیارات کوئی اور استعمال کررہا تھا۔ یہ بھی طریقہ ہوتا ہے کہ اپنی ناکامی کو اپنے بھولے پن کا نام دے کر مظلوم بن کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹی جائیں۔ عمران خان اس وقت تقریباً ہر مسئلے پر کہہ چکے ہیں کہ انہیں علم نہ تھا یا انہیں حکومت مرضی سے نہیں کرنے دی جارہی تھی‘ جنرل باجوہ ہی سارے کام کررہے تھے۔ پھر جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع دینے کیلئے قانون میں اتنی تبدیلیاں کیوں کرائی گئیں؟ اب عمران خان کہتے ہیں کہ انہیں جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ وہ تو پلے بوائے تھے۔ ان کی وڈیوز بھی ان کے پاس موجود ہیں تو عمران خان کہتے ہیں ہاں میں تو پلے بوائے تھا۔
اب اندازہ کریں کہ یہ گفتگو ہورہی ہے ملک کے وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان کہ کس کے پاس کس کی آڈیو‘ وڈیو ہے‘ کون پلے بوائے ہے اور دونوں ایک دوسرے سے بارگین کررہے تھے کہ کون اچھا اور کون برا ہے۔ دوسری طرف باجوہ صاحب کے قریبی ملک احمد خان بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ سپہ سالار نے دو مواقع پر این آر آو دیا‘ ایک دفعہ عمران خان کو لے کر دیا جب وہ بنی گالا پر سپریم کورٹ میں پھنس گئے تھے اور دوسری دفعہ نواز شریف کو باہر بھجوانے پر دیا۔ اب ذرا اندازہ کریں ایک ملک کا وہ وزیراعظم تھا نواز شریف جس نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف لگایا تھا اور دوسرا وزیراعظم تھا عمران خان جس نے جنرل باجوہ کو پارلیمنٹ سے مدتِ ملازمت میں تین سال توسیع کے لیے قانون تک بنوا دیا۔ اب دونوں وزیراعظم اس جنرل سے منت ترلا کرکے این آر او لے رہے تھے جسے انہوں نے خود لگایا تھا۔ یہ تھا ہمارا پیارا پاکستان اور یہ ایسے چل رہا تھا اورایسے ہی چلتا رہے گا۔