ہم سب بس اپنی مرضی کی باتیں سننا چاہتے ہیں۔ کئی دفعہ کوشش کی کہ وہی کہا جائے جو اگلا سننا چاہتا ہے۔ چند منٹ میں بات ختم ہو جائے گی۔ کوئی لمبی تقریر یا دانشوری کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہر دفعہ یہی قسم کھائی اور ہر دفعہ قسم توڑنا پڑی۔ پتا ہی نہیں چلا کہ کب پٹڑی سے اتر گئے اور وہی بھاشن شروع کر دیا جس سے خود کو بڑی تاکید سے منع کیا تھا۔ اب دل یہ چاہتا ہے کہ خاموش رہ کر دوسروں کو سنا جائے لیکن کیا کریں کہ جب آپ کسی محفل میں بیٹھے ہوں اور آپ سے پوچھا جائے کہ جناب! کیا ہورہا ہے‘ ملک کا کیا بنے گا اور آپ ہوں‘ ہاں کرکے بات ٹالنے کی کوشش کریں یا مسکرا کر چپ رہیں تو بات نہیں بنتی۔ اگلے سمجھتے ہیں آپ مغرور ہیں‘ آپ بات نہیں کرنا چاہتے اور آپ ان لوگوں کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان پر چند منٹس یا جملے ضائع کیے جائیں۔
اس لیے تہذیب کا تقاضا سمجھ کر جب آپ گفتگو شروع کرتے ہیں تو پھر بات لمبی ہو جاتی ہے۔ آپ اپنے سامنے بیٹھے چہروں پر تیزی سے پھیلتی بیزاری نوٹ کرتے ہیں کہ انہیں آپ کی باتیں اچھی نہیں لگ رہیں۔ وہ وہی سننا چاہتے ہیں جو انہیں اچھا لگتا ہے جبکہ آپ وہ گفتگو کرتے ہیں جو آپ کو اچھی لگتی ہے۔ اب آپ اپنی اور ان کی پسند کے درمیان کیسے توازن برقرار رکھ سکتے ہیں؟ یا تو آپ اپنے سامعین کو اپنی باتوں سے خوش کر سکتے ہیں یا اپنے ضمیر کو۔ کسی ایک کو تو تکلیف دینا پڑے گی۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ آپ خود کو دکھ نہیں دیتے۔ آپ اپنا رانجھا راضی رکھتے ہیں اور اتنی دیر میں اگلے آپ سے ناراض ہو چکے ہوتے ہیں۔
عام لوگوں کو ایک فائدہ ہے کہ وہ جب چاہیں اپنی پوزیشن اور رائے بدل سکتے ہیں کہ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ لیکن اگر کوئی صحافی یا اینکر یا سیاستدان کوئی رائے دے گا تو وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی اور اسے اپنی رائے تبدیل کرنے پر بہت باتیں بھی سننا پڑیں گی۔ میں کبھی اس طرح سوچتا تھا کہ جیسے میں سوچتا ہوں‘ دوسرے ویسا کیوں نہیں سوچتے۔ مجھے اپنی کہی ہوئی بات ہی آخری سچ محسوس ہوتی تھی (شاید اب بھی)۔ اگرچہ اس عرصے میں اپنی کونسلنگ کرنے کی بہت کوشش کی ہے کہ یہ سوچ کچھ کم ہو سکے لیکن تمام تر کوششوں کے بعد اب بھی لگتا ہے کہ جو میں سوچتا یا لکھتا ہوں‘ وہی آخری سچ ہے۔
اب جب مڑکر پیچھے دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ ان برسوں میں کیا کچھ بدل گیا ہے۔ میری اپنی صورت‘ عقل اور شکل تک بدل گئی ہے۔ ہر دور میں اپنی سوچ اور رائے کا دفاع کرنے کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوتا تھا اور پھر وہ وقت آیا کہ وہ سوچ ہی بدل گئی جس کے لیے کئی دوستوں سے تعلقات خراب ہوئے تھے۔ کبھی پڑھا تھا کہ وقت ہی سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔ مجھے بڑے عرصے تک اس فقرے کی سمجھ نہ آئی کہ بھلا سکول کے استاد کی طرح وقت کیسے ہمارا استاد ہو سکتا ہے؟ بڑے عرصے بعد جب وقت اور حالات نے سبق سکھایا تو سمجھ آئی کہ انسان جب تک اونٹ کی طرح پہاڑ کے نیچے نہیں آتا اسے بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اس سے بھی زیادہ بڑی بلائیں دنیا میں موجود ہیں۔ مجھے اکثر جب اس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جناب! کیا ہورہا ہے اور اس ملک کا کیا بنے گا تو میں سوال کرنے والوں کو غور سے دیکھتا ہوں۔ ان میں مجھے وہ چہرے بھی نظر آتے ہیں جنہیں میں برسوں سے جانتا ہوں اور مجھے علم ہے وہ بھی اس ملک کو اس نہج تک لانے میں کچھ نہ کچھ ذمہ دار ہیں۔
کوئی دور تھا جب مجھے ہر بے روزگار سے ہمدردی تھی اور پھر جب میں نے بے روزگاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے نوکری ملنے کے بعد بدلتے دیکھا تو یقین کریں دل اچاٹ ہوگیا۔ ایک لمحہ پہلے تک یہ بیروزگار اُس مظلوم کلاس کا حصہ تھے جس پر اَپر کلاس ظلم کر رہی تھی۔ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی تھی۔ ان سے ہر کام کیلئے رشوت طلب کی جارہی تھی۔ ان کی جیبوں سے پیسے نکلوائے جارہے تھے۔ معاشرے میں کرپٹ ہونے کا طعنہ بھی سننے کو مل رہا تھا اور جونہی اس بیروزگار کو نوکری ملی‘ اگلے روز سے وہ خود وہی کام کررہا تھا جس کے خلاف وہ روز تقریریں کرتا تھا یا خود کو مظلوم سمجھتا تھا۔ وہ جن سرکاری اہلکاروں کو ہڈ حرام اور رشوت خور سمجھتا تھا‘ نوکری ملنے پر وہ خود بھی وہی سب کام کررہا تھا۔
مجھے ان برسوں میں احساس ہوا ہے کہ مظلوم اور ظالم کے درمیان صرف ایک سرکاری نوکری کا فاصلہ ہے۔ جونہی آپ یہ لکیر عبور کرتے ہیں‘ آپ مظلوم نہیں رہتے۔ آپ کے پاس وہ طاقت آجاتی ہے جس کی آپ کو برسوں سے تلاش تھی۔ شاید پہلے بھی واقعہ سنا چکا ہوں کہ بیس سال پہلے میں اور ڈاکٹر ظفر الطاف مرحوم اپنے ایک دوست کے بے قصور بھتیجے کی دوماہ کی کوشش کے بعد ضمانت کرانے میں کامیاب ہوئے تھے تو ریڈر‘ سپاہی‘ ٹائپنگ کلرک ‘ ریکارڈ روم کے اہلکار سے لے کر بخشی خانے تک‘ ہر جگہ اور ہر کسی نے ہم سے پیسے مانگے۔ رجسٹر یا ریکارڈ روم کے نوجوان لڑکے نے ہمارے چہروں پر پھیلی مایوسی دیکھ کر ہمیں تسلی دی تھی کہ لگتا ہے تم لوگ پہلی دفعہ یہاں آئے ہو۔ ہم سے پانچ سو روپے لے کر جیب میں ڈالتے ہوئے بولا: سر جی! دل چھوٹا نہ کریں‘ میرا چھوٹا بھائی ساہیوال میں پکڑا گیا تھا۔ میں اس کی ضمانت کرانے گیا تو وہاں میں نے خود بھی ریڈر‘ سپاہی‘ کلرک‘ ریکارڈ روم سے بخشی خانے تک سب کو اسی طرح پیسے دیے تھے جیسے آپ نے ہم سب کو دیے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر الطاف اور میں حیرانی سے اس نوجوان لڑکے کی باتیں سن رہے تھے کہ اس نے کتنی آسانی سے ہمیں زندگی کا راز سمجھا دیا تھا کہ اس ملک میں رہنا ہے تو پھر ہم سب کو ایک دوسرے کی جیب میں ہاتھ ڈال کر زندہ رہنا ہو گا۔ اس کے چہرے پر پھیلی طمانیت دیکھ کر ہم دونوں نے رشک کیا کہ کیسی مطمئن زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے ہم سے پانچ سو روپے نکلوا لیے تھے اور ساہیوال میں کسی اس جیسے نے اس سے پیسے نکلوا لیے تھے۔ کسی نے اسے مجبور کر کے پیسے نکلوا لیے تو اس نے ہم سے نکلوا لیے۔ اس کا میسج بڑا سادہ تھا۔ اب ہمارے سامنے بھی آپشن موجود ہے کہ ہم کسی دوسرے کی جیب سے اپنا نقصان پورا کر کے مطمئن ہو جائیں جیسے وہ ریکارڈ روم کا لڑکا مطمئن لگ رہا تھا۔ لیکن اگر ہم کسی کی جیب سے نہیں نکلوا سکتے‘ مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تو پھر اپنے زخم چاٹتے رہیں اور زمانے کو برا بھلا کہتے رہیں۔
ایک دفعہ جنید مہار نے فخر سے بتایا تھا کہ جب وہ مظفرگڑھ میں اسسٹنٹ کمشنر تھے تو وہاں پٹواری بھرتی ہونے تھے۔ کل 23سیٹیں تھیں۔ ڈی سی اچھا بندہ تھا‘ لہٰذا فیصلہ ہوا کہ سب کچھ میرٹ پرہوگا‘ چاہے آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے۔ جنید مہار کے والد نے کسی کی سفارش کی تو بیٹا نہ مانا کہ ابا حضور! سب کچھ میرٹ پر ہوگا۔ ڈی سی ایم پی ایز اور ایم این ایز کے سامنے ڈٹ گیا۔ سب نوجوانوں کو میرٹ پر رکھا گیا۔ کسی سے ایک روپیہ تک نہ لیا گیا۔ میں نے پوچھا: مہار صاحب اب ایمانداری سے بتائیں‘ آپ کو ان میرٹ پر بھرتی ہونے والے پٹواریوں میں سے کتنوں کے خلاف شکایات آئیں کہ یہ بھی رشوت لیتے ہیں؟ مہار صاحب شرما کر بولے: اٹھارہ کے خلاف شکایات آئی تھیں کہ پچھلے پٹواری دو سو روپے اوریہ نوجوان پانچ سو روپے لیتے ہیں۔
میں ہنس پڑا تھا۔ میں نے کہا: جنید مہار صاحب‘ دکھ اس بات کا نہیں کہ ان بیروزگاروں نے میرٹ پر لگ کر رشوت کا ریٹ بڑھا دیا۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب یہی لوگ بڑا سنجیدہ سا منہ بنا کر آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ اس ملک کا کیا بنے گا؟