جب بارہ اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تو مجھے ملتان سے اسلام آباد آئے ابھی ایک سال سے کچھ اوپر ہی ہوا تھا۔ میں ابھی اسلام آباد ڈان کے بیورو آفس کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا جہاں اُس دور کے بڑے نام موجود تھے۔ ضیاالدین ہمارے بیوروچیف تھے۔ ناصر ملک، احتشام الحق، احمد حسن علوی، رفاقت علی، انصار عباسی، فراز ہاشمی، محمد یٰسین، محمد الیاس اور حسن اختر جیسے سینئر صحافی موجود تھے۔ شام کو بزرگ صحافی ایچ برکی صاحب آجاتے جو اپنے دور کے بڑے صحافی اور بھٹو صاحب کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ ہم سب لوگ ان سے ڈرتے اور عزت کرتے تھے کہ وہ کسی کو بھی جھاڑ دیتے۔ ان کا ایسا احترام تھا کہ ضیاالدین صاحب تک ان سے ڈانٹ کھانے کے بعد ہنستے ہوئے وہاں سے اُٹھ جاتے۔ ایک دفعہ مجھے بھی زور سے ڈانٹا جب میں نے اپنی میز پر رکھے کمپیوٹر پر خبر لکھتے ہوئے اچانک ساتھ والی میز پر بیٹھے علوی صاحب سے کوئی جملہ پوچھ لیا۔مجھے دھیان نہ رہا کہ وہ ان سے بات کررہے تھے۔ مجھے کہا یہ تم ملتانیوں کو تمیز نہیں ہے۔ میں شرمندہ سا ہو گیا۔
خیر جس شام مشرف کا مارشل لاء لگا اس رات میں بس میں وہاڑی کا سفر کررہا تھا۔ میرے بیٹے کی اگلے دن پیدائش ہونی تھی۔ اگرچہ شام کو ہی گڑبڑ شروع ہوگئی تھی جب مشرف کو برطرف کر کے جنرل ضیاالدین بٹ کو چیف لگایا گیا تو فوج نے نواز شریف کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ پنڈی سے وہاڑی جانے والی بس کا وقت دس بجے کے قریب تھا۔اس وقت موبائل فون میرے پاس نہیں تھا جبکہ سوشل میڈیا کا ابھی رواج نہیں تھا۔یوں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ ملک میں کیا چل رہا ہے۔ بس میں اکثر لوگوں کو مارشل لاء کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن یہ پتا نہیں تھا کہ جنرل مشرف کہاں ہیں اور نواز شریف کا کیا بنا ؟
راستے میں رات گئے بس ایک ڈھابے پر رُکی تاکہ مسافر کچھ کھا پی لیں۔ میں بس سے اُتر کر ٹی وی کی طرف گیا جو ہوٹل میں رکھا تھا۔ پی ٹی وی پر اس وقت جنرل مشرف کی پہلی تقریر سے پہلے قومی ترانہ نشر ہو رہا تھا۔ یوں وہیں کھڑے کھڑے جنرل مشرف کی تقریر سنی کہ انہوں نے مارشل لاء کیوں لگایا۔اُس وقت مجھے اندازہ نہ تھا کہ جنرل مشرف اگلے نو دس برس اس منظر نامے پر موجود رہیں گے اور جتنی آسانی سے وہ حکمران بن گئے‘ وہ اتنی آسانی سے اب تخت سے نہیں اتریں گے۔
نواز شریف اگرچہ خود کو کہتے تو جمہوری حکمران تھے لیکن ان دنوں وہ امیر المومنین بننے کے ایک بل پر کام کررہے تھے جن سے کوئی سوال نہیں پوچھا جاسکتا تھا۔ خورشید قصوری نے اپنے تئیں نواز شریف کے خلاف اس پروپیگنڈا کو دور کرنے کی کوشش کی اور نواز شریف سے ایک بھری محفل میں اس بل پر ایک سوال کر دیا تو انہیں وہیں ایسا سبق سکھایا گیا کہ وہ پھر کبھی نہ بولے اور جنرل مشرف کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کے وزیرخارجہ بن گئے۔ نواز شریف نے بھی اپنے دور میں سیاسی مخالفین کا جینا اس طرح حرام کیا ہوا تھا جیسے برسوں بعد عمران خان نے وزیراعظم بن کر نواز شریف اور ان کے پارٹی لیڈروں کا کیا۔ اب لوگ کہیں گے کہ وہی حشر شہباز شریف حکومت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا کررہی ہے۔
یاد آیا‘ ایک دفعہ انگریزی کالم نگار اردشیر کائوس جی نے لکھا کہ لوگ کہتے ہیں نواز شریف وزیراعظم بن کر صرف زرداری اور بینظیر بھٹو کا احتساب کررہے ہیں، اپنی پارٹی کے کرپٹ وزیروں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ انہیں سب کا احتساب کرنا چاہیے تاکہ لوگ انگلیاں نہ اٹھائیں۔ اس مطالبے پر اردشیر نے کیا کمال بات لکھی کہ بینظیر بھٹو اور زرداری کا احتساب نواز شریف کو کرنے دیں چاہے یہ یک طرفہ ہی کیوں نہیں۔ کوئی اور حکمران آئے گا وہ نواز شریف کا یک طرفہ احتساب کر ے گا‘ یوں دونوں برابر ہو جائیں گے۔ وہی ہوا۔ جنرل مشرف نے مارشل لاء لگا کر نواز شریف فیملی کے ساتھ وہی کیا۔ یوں کاؤس جی کی بات پوری ہوگئی کہ اس ملک میں برابر کا احتساب کبھی نہیں ہوگا لیکن بچے گا بھی کوئی نہیں کہ سب کی باری اپنے اپنے مخالفوں کے ہاتھوں لگے گی۔ سب پھڑے جان گے۔
اور پھر وہ دور بھی لوٹ کر آیا کہ اسی نواز شریف نے جنرل مشرف پر ایسا مقدمہ بنایا جو پاکستانی تاریخ میں کسی پر نہیں بنا تھا۔ ان پر آئین توڑنے کے الزام میں بغاوت کا مقدمہ درج ہوا جس کا الزام ثابت ہونے پر موت کی سزا تھی۔ وقت بدل رہا تھا‘ کب کسی نے سوچا تھا کہ ایک دن کسی سابق فوجی حکمران پر کوئی سیاسی وزیراعظم خصوصی عدالت قائم کر کے نئی تاریخ رقم کرے گا۔ نواز شریف کو اس کے لیے بڑا خطرہ مول لینا پڑا اور ان کی براہ راست لڑائی اُس دور کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ہوئی جو بعد میں خطرناک ٹکرائو کی شکل اختیار کر گئی۔ چوہدری نثار علی خان یہی خطرہ دیکھ کر نواز شریف کو مشورہ دیتے تھے کہ فوج اور عدلیہ سے نہ لڑیں بلکہ سنا ہے نواز شریف کی چوہدری نثار سے پہلی بڑی ناراضی بھی جنرل مشرف سے شروع ہوئی تھی کہ ان کی سفارش پر ہی مشرف کو آرمی چیف لگایا گیا تھا جس نے بارہ اکتوبر کے روز نواز شریف کو ہتھکڑیاں لگا کر وزیراعظم ہاؤس سے گرفتار کیا اور پورا خاندان مشکلات میں رہا‘جبکہ چوہدری نثار علی خان کو جیل کے بجائے ان کے گھر پر نظر بند کیا گیاتھا۔ اس پر بھی نواز شریف ناراض تھے کہ شاید اندر کھاتے چوہدری نثار مشرف کے ساتھ مل گئے تھے جنہیں ایک سال قبل سفارش کر کے لگوایا گیا تھا۔ یوں نواز شریف عمر بھر چوہدری نثار کو بھی ترچھی آنکھ سے دیکھتے رہے کہ انہوں نے وہ چیف لگایا جس نے ان سب کو پھائے ( پھانسی ) لگا دیا۔ وہ سارا الزام چوہدری نثار کے سر پر تھوپتے تھے۔ یہ الگ بات کہ جب جنرل باجوہ کو آرمی چیف لگایا تو اُس وقت چوہدری نثار سے مشورہ نہیں کیا گیا تھا‘ پچھلا تلخ تجربہ ابھی تازہ تھا‘ لیکن پھر بھی ملتا جلتا انجام نواز شریف کا جنرل باجوہ کے ہاتھوں ہوا کہ نہ صرف عدالت کے ذریعے حکومت کھو بیٹھے بلکہ بیٹی سمیت جیل جا بیٹھے اور پورا خاندان یا تو مفرور قرار پایا یا جیل گیا۔ یوں ثابت ہوا کہ چوہدری نثار کا مشورہ ہو یا نہ ہو‘ نواز شریف جب بھی کوئی آرمی چیف لگائیں گے اس سے ضرور پھڈا ہوگا اور نقصان نواز شریف کا ہی ہوگا۔ اب ہر دفعہ تو قسمت کی دیوی آپ کا ساتھ نہیں دیتی اور آپ کو جنرل جہانگیر کرامت جیسا آرمی چیف نہیں ملتا جو آپ کو مانگے بغیر استعفیٰ پیش کر کے پوری حکومت اور آرمی کمانڈ کو حیران کر دیتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل کرامت کو آرمی چیف نواز شریف نے نہیں بلکہ صدر فاروق لغاری نے وزیراعظم بینظیر بھٹو کی سفارش پر لگایا تھا‘ جس نے اُن کی حکومت گھر بھیجنے کے بجائے خود گھر جانا پسند کیا۔
سوال یہ ہے کہ جنرل مشرف آخر چوہدری نثار کے ذریعے نواز شریف تک کیسے پہنچ گئے اور اس دوڑ میں سب سے آگے جنرل علی قلی خان کو ہرا کر آرمی چیف بن گئے ؟
یہ پُراسرار کہانی مجھے کسی اور نے نہیں بلکہ لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان نے ہی راولپنڈی کی ڈھلتی اداس شام میں سنائی تھی جسے سن کر میں جہاں ششدر رہ گیا‘وہیں پہلی دفعہ پتا چلا کہ ٹاپ پر پہنچنے کے لیے کس لیول پر اندر خانے کیا کیا کھیل کھیلے جاتے ہیں۔