کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم کسی اور ہی گولے پر رہتے ہیں‘ جہاں کسی چیز کی پروا نہیں۔ سٹاک ہوم سینڈورم کی طرح ہمیں ان لوگوں سے پیار ہوجاتا ہے جو ہمیں مارتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ ہم نے سیکھنا نہیں ہے۔ پشاور پولیس لائنز میں جو نااہلی اور روایتی سستی ایک سو خاندانوں کو اجاڑ گئی‘ اس سے ہم نے کیا سیکھا؟وہی کچھ اب کراچی میں پولیس دفتر میں ہوا ہے۔ وہی روایتی سستی کہ اپنا کام یا ڈیوٹی نہیں کرنی۔ پشاور مسجد پر حملے سے پہلے اے پی ایس سکول پر حملے میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی ٹریجڈی سے ہم نے کیا سیکھا؟ یا اس سے پہلے پنڈی میں پریڈ لین مسجد پر حملے سے ‘ جس میں چالیس نمازی شہید ہوئے تھے؟ یا اس سے پہلے پنڈی ہیڈکوارٹر پر دہشت گردوں کے حملے سے کیا نتائج یا سبق حاصل ہوئے؟ دو ماہ تک دہشت گرد پنڈی میں بیٹھ کر پلان کرتے رہے اور ایک دن وردیوں میں ملبوس ہو کر حملہ کر دیا۔ ہمارے ہاں پیٹی بھائی کا بڑا تگڑا تصور ہے۔ دہشت گرد ہم پاکستانیوں کے اس مائنڈ سیٹ سے خوب آگاہ ہیں کہ آپ نے ان کی وردی پہن رکھی ہے تو چیک کرنا دور کی بات اُلٹا یہ مسکرا کر آپ کو اشارہ کریں گے کہ سر جی تشریف لے جائیں۔ اگر کوئی چیک کرنے کی کوشش کرے تو افسر ناراض ہو جاتے ہیں کہ سپاہی کی جرأت کیسے ہوئی۔ یوں سپاہیوں نے بھی روک کر پوچھنا چھوڑ دیا کہ کون افسروں سے روز بے عزتی کرائے۔
اگر آپ غور کریں تو یہ ٹرینڈ بہت پرانا ہے‘ اتنا ہی پرانا جتنی پاکستان میں دہشت گرد ی ہے۔پولیس یا عسکری اداروں جیسا ڈالے کا رنگ کرا لیں‘ پولیس جیسی یا خاکی وردی پہن لیں اور پھر اس میں بیٹھ کر جہاں چاہیں گھس جائیں‘ کارروائی کریں‘ بندے مار دیں‘ کوئی پروا نہیں۔ہر دفعہ چند لوگوں کی اپنی ڈیوٹی پوری نہ دینے کی وجہ سے درجنوں لوگ مارے جاتے ہیں۔ نعرے سنتے ہیں‘دہشت گردوں کو سبق سکھانے کے دعوے کیے جاتے ہیں‘ چند دن بعد سب بزنس نارمل اور پھر کچھ عرصہ بعد وہی واقعہ دہرایا جاتا ہے اور پھر لوگ مارے جاتے ہیں۔جس ملک کی آبادی تئیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہو وہاں اس طرح کی اموات سے کیا فرق پڑنا ہے؟ اب تو عادت سی ہو گئی ہے۔ اگرچہ درمیان میں کچھ وقفہ آگیا تھا اس لیے پشاور مسجد حملہ ہمیں زیادہ شدت سے محسوس ہوا ورنہ اس سے پہلے برسوں تک ہم اس روٹین کے عادی ہوچکے تھے بلکہ عادی چھوڑیں ہم تو ان قاتلوں کے فین بھی تھے‘ انہیں اپنا بھائی کہتے تھے‘ ان کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کو خوش قسمت قرار دیتے تھے کہ انہیں شہادت نصیب ہوئی۔ ہم شہادت اور قتل میں کوئی فرق نہ کر سکے‘ یوں جب ہم نے ان سب مقتولوں کو شہید کہنا شروع کیا تو ان حادثوں کی سنگینی کم ہوتی چلی گئی اور عوام میں ان حملوں کا اثر کم ہونا شروع ہوگیا کہ مرنے والا سیدھا جنت گیا ہوگا‘ حالانکہ یہ قتلِ عام تھا اور قاتلوں تک پہنچنا ریاست کا کام تھا۔
اب آپ بتائیں کہ اَسی ہزار بندے مروانے کے بعد بھی ہم خود کو ملزم سمجھتے ہیں کہ مشرف امریکہ کی جنگ لڑ رہے تھے‘ لہٰذا طالبان نے ہمارے بندے مارے ۔مزے کی بات یہ کہ اُنہیں پورے پروٹوکول کے ساتھ دفن کیا گیا جنہوں نے برطانوی اخبار گارڈین میں انٹرویو دیتے ہوئے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ہم نے افغانستان پر امریکی حملوں کے بعد وہاں موجود طالبان کو پاکستان میں پناہ دے کر بچا لیا کیونکہ ہمیں علم تھا کہ ایک دن یہی طالبان ہمارے کام آئیں گے۔ ہم امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہے تھے‘ ایک طرف ہم امریکہ سے طالبان سے لڑنے کے لیے ہر سال ڈیڑھ‘ دو ارب ڈالرز کی امداد لے رہے تھے اور دوسری طرف طالبان کو ہم نے محفوظ مقامات پر پناہ دے رکھی تھی کہ یہ بچے ہمارے اثاثے ہیں ‘ایک دن کام آئیں گے۔اب بتائیں‘ ہمارے وہ بچے جنہیں مشرف نے امریکیوں سے بچایا وہ کس کے کام آرہے ہیں؟خیر پرویز مشرف سے زیادہ ''سمجھدار‘‘جنرل باجوہ اور جنرل فیض نکلے جنہوں نے افغان طالبان سے کہا کہ ہماری پاکستانی طالبان سے صلح کرا دیں۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی حمایت سے پانچ ہزار جنگجوئوں اور اُن کے تیس ہزار اہلِ خانہ کو خاموشی سے پاکستان واپس لانے کی اجازت دے دی کہ وہ دوبارہ یہاں سیٹل ہو جائیں۔ اپنی گڈ وِل دکھانے کے لیے پاکستان حکومت نے وہ دہشت گرد بھی رہا کر دیے جنہیں عدالتیں پھانسی کا حکم دے چکی تھیں۔جب ہمارے ہاں پرویز مشرف سے لے کر قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید صاحب تک سمجھدار اور سیانے موجود تھے‘ جو طالبان کو اپنے بچے اور اثاثے سمجھتے تھے تو اب اگر وہ خیبرپختونخوا کے علاقوں میں افغان طالبان کی طرز پر اپنی الگ ریاست مانگتے ہیں تو پھر ہم روتے کیوں ہیں؟جب ہم جنرل فیض کو کابل سرینا ہوٹل میں خوشی سے سرشار چائے پیتے دیکھ کر نعرے مار رہے تھے تو اب ہم دکھی کیوں ہیں؟ جب وزیراعظم عمران خان ان طالبان کو کابل فتح کرتے دیکھ کر خوشی سے غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے کا حوالہ دے رہے تھے اور پوری قوم جشن منا رہی تھی تو اب اپنے بچے‘ سپاہی اور فوجی مروانے پر غم کیسا؟
کیادفاعی حلقوں اور وزیراعظم کو احساس نہ تھا کہ اگر چند ہزار طالبان افغانستان میں اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں تو پاکستانی طالبان کے اندر یہ سوچ کیوں نہیں ابھر سکتی کہ ہم بھی یہ کام کرسکتے ہیں۔جب کابل طالبان کے ہاتھ لگا ‘اُسی وقت ہمارے سیاسی اور دفاعی حلقوں کو خبردار ہو جانا چاہیے تھا کہ اگلا ٹارگٹ ہم ہوں گے۔ طالبان کو حوصلہ ملے گا کہ اگر وہ امریکہ اور نیٹو سے اقتدار چھین سکتے ہیں تو یہ کام کرنا پاکستان میں کون سا مشکل ہے جہاں ان کے لاکھوں فین اور ہمدرد موجود ہیں جو اِن کا راستہ ہموار کرتے رہتے ہیں۔مجھے بتائیں ‘ہماری ان چالاکیوں سے امریکہ کو کیا نقصان ہوا؟ بیس سال میں شاید مشکل سے دو ہزار امریکن فوجی مارے گئے ہوں گے‘ مگر ہزاروں افغان کابل کی مارکیٹوں میں مارے گئے کیونکہ طالبان ایک امریکن یا نیٹو فوجی کو مارنے کے لیے پچاس افغانوں کو بھی بموں سے اڑا دیتے تھے ۔ کسی کو عقل نہ تھی کہ ہم کیا بیج بونے جارہے ہیں۔ اس وقت پورا ملک افغانستان بنا ہوا ہے۔ ہمیں افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کا جنون بہت مہنگا پڑا ہے۔ چالیس سال سے ہم بھگت رہے ہیں اور خود بے چارے افغانوں نے بھی بھگتا ہے۔
جو کام جنرل ضیانے شروع کیا وہ پوری ایمانداری سے پرویز مشرف ‘ جنرل باجوہ اور جنرل فیض تک سب نے جاری رکھا۔ بلوم برگ کی رپورٹ بھی ہمیں نہیں ڈرا سکی کہ روازنہ پچاس لاکھ ڈالرز افغانستان سمگل ہو کر جارہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی دس روپے ڈالر کا ریٹ زیادہ لینے کے چکر میں جو پیسہ بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے بھیج رہے ہیں وہ سارا افغان سمگلرز خرید کر اپنے ملک بھیج رہے ہیں اور پاکستان دنیا بھر سے ڈالروں کی بھیک مانگ کر بھی اپنے ڈالرز پورے نہیں کرپارہا۔ یہ ہے اوورسیز کی اپنے وطن سے محبت جس پر فی ڈالر دس روپے حاوی ہوگئے ہیں۔اس وجہ سے افغانستان میں پٹرول اور ڈالر سستا ہے جبکہ ہماری چیخیں نکل رہی ہیں۔
اب جب وہ ہزاروں طالبان جنگجو افغانستان سے لا کر یہاں سیٹل کر دیے گئے ہیں اور افغانوں کے پہلے سے کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں موجود لوگ ان سب کے لیے مددگار ہیں تو پھر بھگتیں اب۔ویسے پوچھنا بنتا ہے کہ ضیا الحق‘پرویز مشرف‘ قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید پہلے طالبان کو پیدا کر کے پھرانہیں بچا کر اور اب افغانستان سے پاکستان میں سیٹل کر کے کس کو بیوقوف بنا رہے تھے...امریکہ کو ؟