میری سابق ڈی جی آئی بی اور سابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ہاں‘ جب وہ نواز شریف دور میں ڈی جی آئی بی تھے تو ان سے فون پر رابطہ ہوا تھا۔ میرے ٹی وی شو کی ٹیم کے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے کارڈز بننے تھے۔ ایک خاتون ٹیم ممبر پر اعتراض لگ گیا کہ ان کا کارڈ نہیں بن سکتا۔ پتا چلا کہ اس کے آبائی علاقے کے حوالدار نے سکیورٹی کلیئرنس نہیں دی۔ حوالدار کے بقول‘ وہ ریاست کیلئے خطرہ بن سکتی تھی۔ مجھے حوالدار کی رپورٹ پڑھ کر ڈاکٹر ظفر الطاف یاد آ گئے جو اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم ڈی ایم جی افسران جتنے بھی طاقتور ہو جائیں‘ ہماری اگلے گریڈ میں ترقی کا فیصلہ اعلیٰ سطحی بورڈ نہیں بلکہ ایک حوالدار کرتا ہے جس کی رپورٹ میں لکھا ایک بھی غیرمناسب لفظ ہماری ترقی رکوا سکتا ہے۔
خیر‘ میں نے آفتاب سلطان کا موبائل نمبر تلاش کیا‘ انہیں میسج کرکے احتجاج کیا کہ کیا ان کی ٹیم کے لوگ اس طرح رپورٹس بنا کر لوگوں کے کیریئر خراب کرتے ہیں۔ وہ چاہتے تو میرا میسج آیا گیا کر سکتے تھے کہ میں کیا کر سکتا ہوں‘ جو رپورٹ آئی وہ بھجوا دی گئی لیکن انہوں نے میسج پڑھ کر مجھے فون کیا اور شائستہ انداز میں معذرت کی کہ یہ غلط رپورٹ تھی۔ اگلے دن انہوں نے کلیئرنس بھجوا دی۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ معمولی بات لگتی ہو لیکن اس سے آپ کو کسی افسر کی طبیعت اور مزاج کا پتا چلتا ہے۔ میرا ان سے دوسرا ٹکراؤ تب ہوا جب آئی بی نے ارشد شریف کے خلاف ایف آئی اے میں ایف آئی آر کٹوا دی اور اس کی منظوری اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دی تھی۔ ارشد شریف نے ایک سٹوری بریک کی تھی جو آئی بی کی ایک رپورٹ پر مبنی تھی۔ اس رپورٹ پر پوری اسمبلی میں شور مچ گیا تھا کیونکہ اس میں بہت سارے پارلیمنٹرینز کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھ گئے۔ آئی بی پر دباؤ پڑا تو انہوں نے ارشد شریف کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنے ٹی وی پروگرامز میں مسلسل ارشد شریف کے خلاف درج کیے گئے مقدمے کی مذمت کی کہ آپ رپورٹر پر چڑھ دوڑے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ارشد شریف کے دفتر اور گھر پر چھاپے مار کر اسے گرفتار کرنے کے منصوبے تک بنے۔ خیر ارشد شریف نے بعد میں ضمانت کروا لی۔
کئی دنوں تک یہی ایشو چلتا رہا۔ میرا کہنا تھا کہ آفتاب سلطان جیسے پروفیشنل افسر کے ہوتے ہوئے ایک صحافی کے خلاف اس لیول کی کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ میرا اپنے ٹی وی شوز میں موقف تھا کہ آفتاب سلطان کے ساتھ جس افسر نے بھی کام کیا‘ اس نے ان کی ایمانداری اور پروفیشنل ازم کی ہمیشہ تعریف کی لیکن اس طرح ایک صحافی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانا‘ اس کے گھر اور دفتر پر چھاپے مارنا‘ ان کے اچھے نام اور کام کو زک پہنچائے گا۔ میں نے ارشد شریف کی حمایت میں خاصے سخت پروگرام کیے لیکن کبھی بھی مجھے آئی بی کی طرف سے ہراسگی کا سامنا نہ کرنا پڑا‘ نہ کوئی دھمکی ملی‘ نہ کوئی اور حربہ استعمال کیا گیا۔ جیسا کہ میں نے کہا‘ میرا ان سے اس ایک فون کال کے علاوہ کبھی رابطہ نہ ہوا لیکن میری رائے ان کے بارے میں اچھی ہونے کی وجہ اور تھی۔ جب کسی بھی بڑے افسر کے کولیگز یا ماتحت ریٹائرمنٹ کے بعد یا سروس کے دوران‘ پیٹھ پیچھے بیٹھ کر اس کی تعریف کرتے ہوں تو پھر آپ کو ایسے افسر کو سیریس لینا پڑتا ہے۔
آفتاب سلطان کی پہلی دفعہ تعریف میں نے سابق آئی جی بلوچستان میر زبیر محمود سے سنی تھی۔ پھر ڈی جی آیف آئی اے بشیر میمن نے بہت تعریف کی۔ سابق سی سی پی او لاہور عمر شیخ بھی آفتاب سلطان کے معترف تھے۔ سابق ڈی جی آئی بی شجاعت قریشی بھی ریٹائرمنٹ کے بعد ملے تو انہوں نے بھی ان کی کھل کر تعریف کی کہ ان جیسا افسر آئی بی کو پھر نہ ملا۔ خیر شجاعت قریشی تعریف تو مرحوم ڈی جی آئی بی جاوید نور کی بھی کرتے ہیں۔ آفتاب سلطان نے بیشتر ایسے ایماندار افسران کو ضائع ہونے سے بچایا جو حکومتوں یا سیاسی لیڈروں کے زیرِ عتاب تھے۔ انہیں دوسرے صوبوں سے بلا کر اچھی پوسٹیں لے کر دیں کہ وہ ضائع نہ ہوں۔ وہ اچھے افسران‘ جن کی گریڈ بائیس میں پروموشن میں رکاوٹ ان کی ایمانداری تھی‘ ان سب کا راستہ کلیئر کرا کے پروموشن میں اہم کردار ادا کیا۔ جب نواز لیگ حکومت نے انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد مدتِ ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی تو سیدھا انکار کر دیا بلکہ اپنی ہی ٹیم کے دو قابل بندوں کے نام پیش کیے کہ انہیں ڈی جی بنا دیں۔ ان کا حق بنتا ہے۔ زیادہ قابل ہیں۔ خود ادارے کے افسران نے بھی ان کا منت ترلا کیا کہ آپ مان جائیں۔ وجوہات کچھ اور بھی ہوں گی۔
آفتاب سلطان کو جب چیئرمین نیب لگایا گیا تو بہت سارے لوگ حیران ہوئے تھے کہ اس ایماندار افسر کو شہباز شریف اور ان کے ساتھی کیسے اور کتنے دن برداشت کر سکیں گے۔ یہ طے تھا کہ نیب قوانین میں تبدیلی کے بعد جو مقدمات سیٹل ہورہے تھے‘ وہ سب آفتاب سلطان کے کھاتے پڑ رہے تھے اور ان کا نام خراب ہورہا تھا۔ آفتاب سلطان بارے بتایا گیا ہے کہ وہ فیصل آباد کی کھاتی پیتی آرائیں فیملی سے ہیں۔ ان کے والد سلطان صاحب کسی دور میں سیاست میں رہے۔ پیسہ ان کی کبھی ضرورت یا کمزوری نہیں رہا لہٰذا ساری عمر ایمانداری سے کام کیا اور عزت کمائی۔ انہیں پرانی گاڑیوں کا بہت شوق ہے بلکہ فوبیا ہے۔ اب جب انہوں نے استعفیٰ دیا ہے تو وہ لوگ جو انہیں جانتے ہیں‘ حیران نہیں ہوئے۔ انہیں علم تھا کہ آفتاب سلطان نے کوئی غلط کام نہیں کرنا تھا۔ حالانکہ جب انہیں لایا گیا تھا تو انہوں نے صاف کہا تھا کہ ان کے کام میں مداخلت نہ ہوگی لیکن یہ وعدہ پورا نہ کیا گیا اور وہ کرسی چھوڑ گئے۔ مجھے آفتاب سلطان کے اس استعفے سے یاد آیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر ظفر الطاف نے واقعہ سنایا تھاکہ کسی اہم اجلاس میں کوئی بڑا غلط فیصلہ ہورہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب حسبِ معمول ڈٹ گئے اور اس کے خلاف سٹینڈ لے لیا لیکن صدارت کی کرسی پر موجود حکمران نے پھر بھی فیصلہ دے دیا۔ میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو پھر احتجاجاً استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔
وہ حیران ہوئے اور مجھے کہا: بھائی جان وہ کیوں؟ بھائی جان ان کا تکیہ کلام تھا۔ وہ بولے: تم پاکستانی عجیب ہو جو غلط کے سامنے ڈٹ جائے‘ حکمران یا بیوروکریٹس کو چیلنج کرے‘ آپ اسے کہتے ہو تم نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا۔ تم غلط کام کرنے والوں سے استعفیٰ نہیں مانگتے لیکن جو غلط کے سامنے ڈٹ جائے‘ اسے کہتے ہو تم استعفیٰ دے دیتے۔ ڈاکٹر صاحب بولے: میں نے برسوں پڑھا‘ والدین نے مجھ پر خرچ کیا۔ دن رات محنت کرکے مقابلے کا امتحان پاس کیا۔ اب ریاست مجھے میری سروس کی تنخواہ دیتی ہے۔ تم لوگ چاہتے ہو ایک اکیلا بندہ جو ایسے اجلاسوں میں ان بڑے لوگوں کے سامنے ڈٹ جاتا ہے‘ وہ سسٹم سے نکل کر سسٹم کو کوسے نہ کہ اندر رہ کر اس سسٹم اور اس پر قابض حکمرانواں کے خلاف مزاحمت کرتا رہے۔ یہ نوکری مجھے ان کے باپ نے دی تھی کہ میں چھوڑ دیتا؟ بولے: میں ساری عمر مزاحمت کرتا رہا اور کسی بڑے حکمران یا وزیر سامنے چپ نہیں رہا۔ جو ٹھیک سمجھا وہی کہا۔ میں کیوں چھوڑتا۔ وہ چھوڑ جاتے۔
آفتاب سلطان کی فلاسفی لیکن شاید اس سے مختلف تھی کہ چھوڑو‘ اس گند میں کون کب تک لڑے‘ کیوں نہ آرام سے فیصل آباد والے آبائی گھر میں پرانی گاڑیوں کے شوق کو دوبارہ اجاگر کیا جائے۔ انہیں کھول کر دوبارہ بنایا جائے کیونکہ یہ ملک اور ادارے ڈاکٹر ظفرالطاف یا آفتاب سلطان جیسے لوگوں کو نہیں چلنے دیتے کیونکہ وہ ان کی کٹھ پتلیاں نہیں بنتے۔ بہتر ہوتا کہ آفتاب سلطان بھی ڈاکٹر ظفرالطاف جیسی مزاحمت جاری رکھتے‘ واپس فیصل آباد نہ لوٹتے۔ سب ہی ہتھیار ڈال جائیں گے تو اس ملک کے لیے کون کھڑا ہوگا؟