"RKC" (space) message & send to 7575

شکریہ یاسمین راشد صاحبہ

ایک بات طے ہے کہ مختلف قوموں اور نسلوں کی مخالفتیں اور دشمنیاں اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ شاید یہ نفرتیں بھی انسانی ڈی این اے میں شامل ہو جاتی ہیں لہٰذا اگلی نسل کو خودبخود منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ تاریخ اسی خونخوار انسانی جبلت کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے‘ ورنہ ذرا سوچیں کہ کوئی بھی جاندار کیونکر اپنے جیسی مخلوق کو ختم یا اس سے نفرت کرے گا؟ لاہور میں جو پُرتشدد مناظر سامنے آئے ہیں‘ انہوں نے سب کو ڈرا دیا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ ایک دوسرے صوبے کی پولیس پنجاب میں جا کر لاہور کی مقامی پولیس پر بندوقیں تان رہی ہے۔ دوسرے صوبے کے لوگ پنجاب میں داخل ہو کر پنجاب کی پولیس سے باقاعدہ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ٹویٹر اور فیس بک پر دونوں صوبوں کے مختلف پارٹیوں کے حامی زبان‘ قومیت اور نسل کی بنیاد پر جو گالی گلوچ کررہے ہیں‘ وہ اپنی جگہ خطرناک بات ہے۔
سوشل میڈیا نے اس خطے کے لوگوں کی پرانی دشمنیاں دوبارہ زندہ کر دی ہیں بلکہ انیسویں صدی میں انگریزوں کی آمد سے پہلے پنجاب اور آج کے خیبرپختونخوا کی قوموں کے درمیان لڑی گئی پرانی جنگوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ان علاقوں کی قوموں کے درمیان لڑی گئی تقریباً دو سو سال پرانی جنگوں کے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ پولیس فورس جس طرح مظاہرین کے خلاف استعمال ہوئی یا جس طرح مظاہرین نے پولیس والوں پر جوابی حملے کیے‘ اس کے بعد یہ سوال ضرور ذہن میں ابھرتا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم جو دوبارہ وزیراعظم بننے کا امیداوار ہے‘ اس کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا ملک میں سول وار کی صورتحال پیدا کرکے کوئی مرضی کا نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے؟
کسی دوست کا میسج تھا کہ جب ٹویٹر سمیت سوشل میڈیا پر دھواں دھار لڑائیاں لڑی جا رہی ہیں‘ آپ اس وقت زیادہ ایکٹو کیوں نہیں ہیں۔ آپ صرف اپنے وی لاگ‘ کالم اور ٹی وی پروگرام کررہے ہیں۔ فیس بک پر بھی کوئی جنگجوانہ قسم کی پوسٹیں نہیں لکھ رہے‘ کیا وجہ ہے‘ آپ اتنے cool کیسے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ تیس برس ہوگئے ہیں‘ میں نے ان سب سیاسی لیڈروں کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ ان سیاستدانوں میں ایک ہی چیز مشترک ہے کہ یہ سب روزی روٹی کمانے کیلئے کام نہیں کرتے‘ انہوں نے صبح نو سے شام پانچ بجے تک کوئی نوکری کرکے تنخواہ نہیں لینی‘ عام لوگوں کی طرح دیہاڑی نہیں ڈھونڈنی‘ محنت مزدوری نہیں کرنی بلکہ سارا دن دوسروں کی کمائی اور چندے پر زندگی گزارنی ہے۔ الیکشن کے موقع پر انہوں نے ٹکٹیں بیچ کر اگلے پانچ سال کا خرچہ پورا کرنا ہے۔ اسمبلیوں میں چند دن جا کر پورے مہینے کی تنخواہ لینی ہے۔ انہیں مفت گاڑیاں‘ مفت پٹرول‘ مفت ہوائی جہاز کی بزنس کلاس کی ٹکٹیں ملتی ہیں‘ انہیں گھر سے وزیراعظم ہاؤس تک سرکاری ہیلی کاپٹر یا لگژری گاڑیاں‘ سکیورٹی سب کچھ میسر ہے۔ عالمی ٹور کریں تو خصوصی چارٹرڈ طیارے ان کے لیے حاضر ہیں۔ بیرونِ ملک جائیں تو انہیں ڈالروں میں روزانہ الاؤنس ملتا ہے۔ واپسی پر کروڑں روپوں کے تحائف ملتے ہیں جو یہ دس بیس فیصد ادا کرکے گھر لے جاتے ہیں اور پھر کروڑں روپوں میں بیچ دیتے ہیں۔ ہر مہینے سعودی عرب عمرے کے نام پر پہنچ جاتے ہیں اور نیا جیولری باکس لے آتے ہیں۔ ہر دفعہ نیا دورہ اور نئے ہیرے جواہرات کے گفٹس۔ پھر بھی خرچے پورے کرنے کیلئے وہ ترقیاتی فنڈز کے نام پر ہر سال کروڑوں روپے لے جاتے ہیں۔ پھر ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر ان کا اپنا ہوتا ہے۔ اپنے کنٹر یکٹرز کو ٹھیکے دلوا کر عموماً بیس‘ تیس فیصد کمیشن لیا جاتا ہے یا پھر کنٹریکٹر آپ کو لینڈ کروزر تحفے میں دے دیتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ لیاقت بلوچ صاحب نے ایک دوست کی موجودگی میں کہا تھا کہ جو لوگ 2002ء کی قومی اسمبلی میں سائیکل پر اسمبلی آئے تھے‘ وہ پانچ سال بعد لینڈ کروزر پر گھروں کو واپس گئے۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ غریب یا مڈل کلاسیے کو پارلیمنٹ بھیجو۔ جن کی بات لیاقت بلوچ نے کی تھی‘ یہ بھی لوئر مڈل کلاس والے لوگ تھے۔ پانچ سالوں میں کروڑ پتی بن گئے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ لوگ سیاست میں عوام کی خدمت کرنے آتے ہیں؟ اگر خدمت کرنے آتے تو بھارتی وزیراعظم مودی کی طرح اپنے سارے تحائف توشہ خانے میں جمع کرا کے آکشن کراتے اور پیسے گرلز ایجوکیشن فنڈ میں جمع کرا دیتے۔ سیاست تو ایک کاروبار ہے۔ اس میں شروع میں گڑ زیادہ ڈالنا پڑتا ہے پھر منافع ہی منافع۔ پھر آپ عوام کے پیسے پر عیاشی کرتے ہیں۔ اگر آپ حکومت چلانے میں ناکام ہو جائیں اور عوام آپ کے پیچھے پڑ جائیں تو انہیں کوئی ایسا نعرہ دے دو کہ وہ مرنے مارنے پر تل جائیں اور آپ کی ناکامیوں اور کرپشن کو بھول جائیں۔ جو لوگ ملک کے وزیراعظم رہے ہوں‘ انہیں اس ضمن میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ ملک کہیں نہیں دوڑا جارہا۔ سیاست اور سیاستدان لمبی ریس کے گھوڑے ہوتے ہیں۔ نواز شریف دس برس بعد تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئے۔ زرداری گیارہ سال جیل میں رہنے کے بعد صدر بن گئے۔ گیلانی پانچ سال جیل میں رہنے کے بعد وزیراعظم بن گئے۔ عمران خان تو خوش قسمت رہے کہ وہ بغیر جیل گئے وزیراعظم بن گئے تھے۔ اب بھی ان کے وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہیں‘ اگر الیکشن ہوں لیکن جس طرح کا رویہ روا رکھا جارہا ہے‘ وہ انہیں نقصان دے گا۔
ویسے حیران ہوتا ہوں کہ کیا پی ٹی آئی میں صرف دو تین لوگ ہی بچ گئے ہیں جو کچھ سیاسی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں کیونکہ باقی تو مار دھاڑ اور بربادی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہر پارٹی میں شدید قسم کی ڈکٹیٹر شپ ہے۔ مصطفی نواز کھوکھر نے اپنی رائے کا اظہار کیا تو پی پی پی نے ان سے سینیٹ کا استعفیٰ مانگ لیا۔ مطلب ایک فرد کی گفتگو نے پوری پیپلز پارٹی کی کا نقطۂ نظر واضح کردیا کہ ایک ایسی آواز بھی برداشت نہیں جو ان کی آواز سے مختلف ہو۔ نواز شریف وزیراعظم تھے تو ایک دفعہ خورشید قصوری نے کوئی سوال کر دیا تھا تو وہیں کہہ دیا کہ میری پارٹی چھوڑ دیں۔ یہی کلچر اب پی ٹی آئی میں اُبھر رہا ہے۔ اگر یاسمین راشد کی بات عمران خان سننے کو تیار نہیں اور اسد عمر انہیں کہتے ہیں کہ وہ چپ کریں‘ کسی سے بات نہ کریں‘ اس کا مطلب ہے کہ اگر زمان پارک میں پولیس پی ٹی آئی کے ورکرز پر شیلنگ کرے یا پھر پی ٹی آئی ورکرز پولیس والوں پر پٹرول بم ماریں تو آپ خاموش رہیں۔ آپ کسی سے بات نہ کریں۔ یہ سبق تھا جو اسد عمر نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو دیا۔ پھر بھی یاسمین راشد نے صدر علوی کو فون کیا کہ خان صاحب کو سمجھائیں‘ ورنہ لوگ مارے جائیں گے۔ یہ لڑائی پھر کسی دن لڑ لیں گے۔
اس سے پہلے آپ کو یاد ہوگا کہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری کو فون کرکے کہا تھا کہ آئی ایم ایف ڈیل رکوانی ہے تو آگے سے محسن لغاری بولے کہ اس سے ریاست کو نقصان تو نہیں ہوگا؟ جو سوال شوکت ترین کو عمران خان سے کرنا چاہیے تھا‘ وہ محسن لغاری کر رہے تھے۔ ترین صاحب اس ملک کو دلوالیہ کرانے پر تلے ہوئے تھے کیونکہ ان کی وزارت چلی گئی تھی۔مطلب اگر آپ وزیر یا وزیراعظم نہیں رہے تو پھر آپ کی بلا سے ملک رہے یا نہ رہے‘ لوگ مریں‘ پولیس اہلکار مریں‘ آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس وقت جب اسلام آباد سے لاہور تک سب کے سر پر خون سوار ہے‘ انتقامی جذبے حاوی ہو چکے ہیں‘ چلیں شکر ہے کہ پی ٹی آئی میں ڈاکٹر یاسمین راشد اب بھی دماغ سے سوچ رہی ہیں۔ انہیں دوسروں کے بچوں کا خیال ہے جو اِن بے رحم سیاستدانوں کی کرسی کی جنگ میں مارے جاتے۔ شکریہ یاسمین راشد صاحبہ کہ ان برے حالات میں بھی‘ جب سب پر پاگل پن سوار ہے‘ آپ اکیلی سہی لیکن موجود ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں