انسانی مزاج ہے کہ جب تک اسے یہ لگتا ہے کہ کھیل اس کے ہاتھ میں ہے‘ وہ ہر کسی سے اپنی شرائط پر معاملات طے کرنا چاہتا ہے۔ وہ کسی کی پروا نہیں کرتا۔ لوگ لاکھ سمجھائیں کہ کچھ لچک دکھا دیں‘ وہ نہیں مانے گا جب تک کہ وہ نقصان نہ اٹھا لے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان دوسروں کے تجربوں سے نہیں سیکھتا‘ جب تک وہ خود وہ تجربہ نہ کر لے۔ آپ لوگوں کو بھاشن دیتے رہیں‘ ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ وہ یہی سمجھتے رہیں گے کہ ایک ناکام انسان انہیں سمجھانے کی کوشش کررہا ہے‘ میں اس سے زیادہ سمجھدار ہوں۔ ضرورت پڑی تو میں صورتحال کو زیادہ بہتر طور پر ہینڈل کر لوں گا۔ اکثر انسان صورتحال کو بہتر طور پر ہینڈل نہیں کر پاتے اور پھر وہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور انہیں ریکور کرنے میں بڑا عرصہ لگتا ہے۔ شاید یہی انسانی زندگی ہے جس میں انسان کبھی کبھار خود کو بھگوان سمجھنے لگتا ہے۔ یہ سب باتیں مجھے دو انٹرویو سن کر یاد آرہی ہیں۔ اسلام آباد کے صحافی شاہد میتلا نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ایک طویل انٹرویو کیا ہے جس میں بڑے بڑے انکشافات کیے گئے ہیں‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلے چھ سالوں میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔
انٹر ویو میں باجوہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کچھ احباب کے ذریعے نواز شریف کو پیغام بھیجا تھا کہ اب جب عدالت میں ان کے خلاف پاناما کیس چل رہا ہے تو بہتر ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں‘ اگلے سال الیکشن میں وہ بڑے آرام سے جیت جائیں گے۔ اسی طرح چودھری نثار علی خان نے بھی نواز شریف کو مشورہ دیا کہ انہیں سپریم کورٹ کی بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہونا چاہیے‘ جہاں ان کے ماتحت سول اور ملٹری افسران ان سے پوچھ گچھ کریں گے۔ دونوں مشورے بڑے اہم تھے۔ ممکن ہے تاحیات نااہل ہونے کے بعد نواز شریف کو خیال آیا ہو کہ باجوہ صاحب اور چودھری نثار انہیں ٹھیک مشورے دے رہے تھے۔ اگر پاناما کے فوراً بعد نواز شریف ہائی مورال گراؤنڈ پر استعفیٰ دے دیتے کہ اگرچہ ان کا نام اس فہرست میں شامل نہیں‘ لیکن ان کے بچوں کے نام آئے ہیں لہٰذا وہ اس کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ وہ ملک کے سربراہ ہونے کے ناتے استعفیٰ دے کر دوبارہ الیکشن میں جاتے تو شاید 1997ء کی طرح وہ ایک دفعہ پھر دو تہائی اکثریت لے کر وزیراعظم بنتے۔ پھر یہ جے آئی ٹی، انکوائریاں یا سزائیں کہاں ہوتیں‘ الٹا وہ قوم پر احسان جتاتے کہ دیکھا! میں نے اقتدار چھوڑ دیا تھااور قوم خوشی سے رونے لگ جاتی کہ خدا نے کیسا عظیم لیڈر عطا فرمایا ہے۔ اس وقت تک ابھی عدالتوں میں سماعت شروع نہیں ہوئی تھی۔ کوئی بھی سمجھدار سیاستدان ہوتا تو وہ یہی کرتا کیونکہ سیاست میں ٹائمنگ ہی اہم ہوتی ہے۔ نواز شریف کو لیکن یقین ہوگا کہ وہ وزیراعظم ہیں‘ سب کچھ سنبھال لیں گے۔ انہیں کوئی نہیں ہلا سکے گا۔
پھر کیا ہوا؟ ویسے تو اچھا ہوا نواز شریف نے باجوہ صاحب اور چودھری نثار کا مشورہ نہیں مانا‘ ورنہ اس قوم کو کیسے پتا چلتا کہ اس خاندان کی دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں ہیں۔ یوں نواز شریف نہ صرف نااہل ہوئے بلکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد وہ بیٹی اور داماد سمیت جیل بھی جا پہنچے اور جس طرح انہوں نے لندن جانے کے لیے جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بل کے حق میں ووٹ ڈالا‘ وہ الگ سے ایک پورا باب ہے۔ بات صرف یہیں نہیں رکی بلکہ اب خود کو دوبارہ سیاست میں اِن کرنے کے لیے انہیں پارلیمنٹ سے نیا قانون بنوانا پڑا ہے‘ جس کے تحت وہ ایک ماہ کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل کر سکیں گے جس کے بعد ان کی نااہلی ختم ہو سکتی ہے۔ یوں ایک صحیح فیصلہ نہ کر سکنے یا مستقبل میں سیاسی خطرات کی ریڈنگ نہ کرسکنے کے سبب نواز شریف کو کتنا طویل سفر طے کرنا پڑا ہے۔ اب بھی کچھ نہیں پتا کہ کیا فیصلہ آتا ہے۔
اسی طرح کی حالت عمران خان کی اِس وقت ہے۔ صحافی حیدر شیرازی کے ساتھ اسد عمر کی گفتگو سن رہا تھا‘ جو انہوں نے عدالت میں ایک پیشی کے موقع پر کی۔ اس گفتگو میں وہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان سپریم کورٹ میں انڈر ٹیکنگ دینے کو تیار تھے جس کے تحت وہ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مثبت بات چیت کے لیے تیار تھے تاکہ مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔ خان صاحب کو اس نتیجے پر پہنچنے میں پورا سال لگ گیا۔ پی ٹی آئی لیڈروں اور ورکرز نے ماریں کھائیں۔ تشدد برداشت کیا۔ مقدمات بھگتے۔ پورا ملک ہنگاموں کا شکار رہا۔ ملک کی معاشی حالت مزید کمزور ہوئی۔ جب عمران خان کو کہا جارہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ سے باہر نہ جائیں‘ اسمبلیاں نہ توڑیں‘ وہ نہیں مانے۔ انہوں نے کہا: وہ اُس پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھیں گے جہاں وہ خود وزیراعظم نہیں ہیں‘ وہ چوروں‘ ڈاکوئوں سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ یوں انہوں نے کچھ 'سیانوں‘ کے کہنے پر پہلے اپنی حکومت توڑی‘ پھر اسمبلی توڑ دی۔ اسمبلی بحال ہوئی تو وہاں سے استعفیٰ دے کر نکل گئے۔ پنجاب پہنچے‘ وہاں اسمبلی تڑوائی‘ پھرخیبر پختونخوا اسمبلی تڑوائی۔ اب اچانک خیال آیا‘ نہیں یار! قومی اسمبلی کا فورم چھوڑ کر غلطی کی تھی۔ لہٰذا سب سپیکر کے پاس جا پہنچے کہ جناب ہمیں دوبارہ اسمبلی میں بیٹھنے کی اجازت دیں۔ جس اسمبلی کو توڑا‘ استعفیٰ دے کر باہر نکل گئے‘ وہیں دوبارہ پہنچ گئے لیکن داخلے کی اجازت نہ ملی۔ اب نواز شریف اور عمران خان کے مائنڈ سیٹ کو ذرا ریڈ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ دونوں ایک جیسا سوچتے اور ایک جیسا کرتے ہیں۔ ان دونوں کو مشورے ذرا دیر سے سمجھ آتے ہیں بلکہ برسوں لگ جاتے ہیں۔
شہباز شریف نے کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں باجوہ صاحب 2018ء کے الیکشن سے پہلے وزیراعظم بنانے کے پیشکش کر چکے تھے لیکن نواز شریف نہیں مانے۔تین سال بعد انہی نواز شریف صاحب نے انہی باجوہ صاحب کے ذریعے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوایا۔ اگر 2018ء میں بننے دیتے تو نہ خود مستقل نااہل ہوتے‘ نہ پورا خاندان جیل جاتا اور نہ ہی آج لندن سے بیٹھ کر پارلیمنٹ میں قوانین بنوانا پڑتے۔ اس طرح عمران خان کو دیکھ لیں کہ پارلیمنٹ کے فورم کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی ماری۔ فائدہ عمران خان کے مخالفین نے اٹھایا۔ انہوں نے بغیر کسی شور شرابے کے پارلیمنٹ سے قانون سازی کرا لی۔ سارے قوانین ختم کرا لیے۔ نیب کو فارغ کر دیا اور خان صاحب نے جو لڑائی پارلیمنٹ میں لڑنا تھی‘ وہ سڑکوں پر لڑتے رہے۔ اب ایک سال لڑنے کے بعد جب وہ زمان پارک تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں‘ اب فرماتے ہیں کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ نواز شریف کو جو بات سمجھنے میں تین سال لگے تھے‘ عمران خان ذرا جلدی سمجھ گئے اور ایک سال میں اب وہ ان تمام سیاستدانوں سے بات چیت کے لیے تیار ہیں جنہیں وہ چور ڈاکو کہہ کر پارلیمنٹ چھوڑ گئے تھے۔
وہی بات کہ انسان اپنے اپنے اچھے‘ برے تجربات سے سیکھتے ہیں‘ چاہے اس دوران وہ خود کو نااہل کرا بیٹھیں‘ جیل کا منہ دیکھ آئیں یا پھر عمران خان کی طرح سال بھر خود پر قاتلانہ حملے‘ سینکڑوں مقدمات درج کرانے اور عدالتوں میں ہنگامہ خیز پیشیاں بھگتنے کے بعد سمجھیں کہ نہیں یار! بہتر تھا پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہی انہی چوروں‘ ڈاکوئوں سے بات چیت کرتے۔ مزے کی بات ہے کہ اب وہ چور ڈاکو عمران خان کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں، حالانکہ ایک وقت تھا کہ وہ چور‘ ڈاکو خان سے بات چیت کو بے چین تھے۔ آج خان ان چوروں‘ ڈاکوئوں سے'' مثبت‘‘ بات چیت کیلئے سپریم کورٹ میں بیانِ حلفی تک دینے کو تیار ہے۔