اسلام آباد میں پچھلے ایک سال میں اتنے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ واقعی اتنا کچھ بدل گیا ہے۔ عمران خان کو سابق وزیراعظم ہوئے ایک برس گزر گیا۔ جنرل باجوہ ریٹائر ہو گئے۔ جنرل فیض آرمی چیف بنے بغیر ریٹائر ہو گئے۔ شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا ایک سال گزار لیا۔ سب کی زندگی نارمل چل رہی ہے۔ ہر کوئی اقتدار کی لڑائی میں مست ہے لیکن ہمیں جو سب سے بڑا نقصان ہوا ہے وہ ارشد شریف کی صورت میں ہوا ہے جس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ اس پاور پلے کے سب کھلاڑی اپنی اپنی جگہ موجود ہیں اور اپنی زندگیاں اپنے بچوں کے ساتھ گزار رہے ہیں لیکن جس عذاب سے ارشد شریف کے بچے اور فیملی گزر رہی ہے‘ وہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ہم دوستوں کو ایک طرف چھوڑیں لیکن جو درد ارشد کی فیملی بھگت رہی ہے اس کا سوچ کر ہی دل کانپ اٹھتا ہے۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ سب لوگ وہیں موجود ہیں اور اب بھی اقتدار کا یہ خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں لیکن ارشد شریف نہیں رہا۔
اگر مجھ سے پوچھیں کہ اس ایک برس میں ہم نے کیا کھویا ہے‘ تو ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے جس کا نعم البدل کبھی نہیں ملے گا۔ سب کی زندگی معمول کے مطابق گزر رہی ہے۔ اقتدار کا وہی بھیانک کھیل جاری ہے۔ کسی کا کیا بگڑا؟ میں نے برسوں پہلے کہیں پڑھا تھا کہ جو انسان دوسرے انسانوں پر حکمرانی کا جنون پال لیتا ہے‘ اس سے زیادہ بے رحم انسان اور کوئی نہیں ہوتا۔ پھر وہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ توڑنے پر یقین رکھتا ہے۔ دوسرے انسانوں پر حکمرانی کی خواہش نارمل انسان کی خواہش نہیں ہوتی۔ ایسے ابنارمل لوگوں کے لیے جو حکمرانی کرنا چاہتے ہیں‘ بے رحم ہونا ضروری ہے۔ ان کے نزدیک دنیا میں صرف ایک ہی انسان پیدا ہوا ہے جو محبت‘ چاہت اور پوجا کے لائق ہے اور وہ اور کوئی نہیں بلکہ موصوف خود ہیں۔ ہر حکمران میں چند صفات آپ کو مشترک ملیں گی جن میں مسلسل اداکاری‘ بے رحمی اور نرگسیت ٹاپ پر ہو گی۔ وہ خود کو ایسی اعلیٰ مخلوق سمجھیں گے جو دنیا میں دوسروں پر حکمرانی کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔
اگر آپ کو انسانوں پر حکمرانی یا راج کرنے کی خواہش رکھنے والوں کا مزاج سمجھنا ہو تو ترکوں اور مغلوں کی کہانیاں پڑھ لیں کہ کیسے ترک بادشاہ کے لیے ضروری تھا کہ وہ بادشاہ بنتے ہی سب سے پہلے اپنے سگے بھائیوں کو قتل کرائے۔ اب آپ اس انسان بارے سوچیں‘ وہ کیسا ہوگا جو اپنے اُنہی بھائیوں کو قتل کروانا چاہے جن کے ساتھ وہ بچپن سے سویا جاگا‘ کھیلا کودا‘ جن سے پیار محبت تھی لیکن اب تخت کی خاطر وہ بھائیوں کو مارنے پر تُل گیا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ بادشاہ بھائیوں کی محبت میں تخت سے دستبردار ہو جاتا کہ بھائیوں کو مار کر اگر تخت ملنا ہے تو مجھے نہیں چاہیے‘ لیکن وہاں یہ بھی تو خطرہ تھا کہ اگر اس بھائی نے تخت چھوڑ بھی دیا تو جو دوسرا بھائی اس کی جگہ بیٹھے گا‘ وہ بھی ترک روایت کے مطابق پہلے بھائیوں کو قتل کرائے گا اور پہلا سر اُس کا قلم ہوگا جس نے اس بھائی کی محبت میں تخت کو ٹھوکر ماری تھی‘ لہٰذا بہتر تھا کہ آپ ہی بھائیوں کو قتل کرا دیں۔ جو کام ان بھائیوں نے آپ کے ساتھ کرنا ہے‘ وہ آپ پہلے کر گزریں۔ اب اندازہ کریں ایک عام انسان اپنے بھائی کو قتل کرکے راتوں کو سو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں‘ لیکن یہاں روز ایک بھائی قتل ہوتا تھا اور بادشاہ سکون کی نیند سوتے تھے کہ چلیں ایک تھریٹ تو کم ہوا۔ایک ترک بادشاہ مگر ایسا بھی گزرا جس نے اس خونی روایت کو ختم کیا اور کہا کہ وہ اپنے بھائیوں کو قتل نہیں کرے گا۔ اس پر بڑا دبائو پڑا کہ اسے یہ کام سلطنت کی بہتری کیلئے کرنا ہوگا ورنہ ریاست کو خطرہ لاحق رہے گا‘ وہ بھائی کبھی بھی بغاوت کر سکتے تھے۔ ریاست کو ان زندہ بھائیوں کی موجودگی میں سیاسی ابتری کا سامنا رہے گا لیکن داد دیں اس بادشاہ کو جس نے کہا کہ وہ سب بغاوتوں کا سامنا کرنے کو تیار ہے لیکن اپنے بھائیوں کو قتل نہیں کرائے گا۔ اور یوں اس خونی روایت کا خاتمہ ہوا۔
میں کتنے عرصے تک مغل بادشاہ شاہجہاں کو مظلوم سمجھتا رہا کہ کتنا بڑا ظلم ہوا کہ اسے اس کے بیٹے نے قید کر لیا اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کرا دیا تھا۔ آج تک ہندوستان کی تاریخ میں جو بدنصیب باپ یا بادشاہ سمجھے جاتے ہیں‘ ان میں دو تین حکمرانوں کے نام اہم ہیں جن کے ساتھ ہمدردی کی جا سکتی ہے کہ ان کا انجام اچھا نہیں ہوا تھا۔ ایک جلال الدین خلجی تھا جسے اس کے داماد اور بھتیجے علائوالدین خلجی نے قتل کرکے دلّی کی سلطنت سنبھال لی تھی۔ لوگ اگرچہ کبھی سیزر اور بروٹس کے دھوکے سے باہر نہ نکل پائے‘ ورنہ ہندوستان کی تاریخ میں اس سے بڑا دھوکا شاید ہی کسی نے دیا ہو۔ سلطان جلال الدین سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جس بھتیجے کو اس نے اپنے بچوں کی طرح پالا ‘ اسے اپنی بیٹی دی‘ وہ اسے یوں قتل کرا دے گا۔ سیزر خوش قسمت تھا کہ اسے شیکسپیئر جیسا ڈرامہ نگار مل گیا جس نے سیزر اور بروٹس کے دھوکے سے بھرپور ان آخری لمحات کو امر کر دیا۔
آپ کا کیا خیال ہے‘ جیسے سیزر اپنے دوست بروٹس کے ہاتھ میں خنجر دیکھ کر چیخ پڑا تھا ‘بروٹس تم بھی؟ تو کیا جلال الدین خلجی نے اپنے سگے بھتیجے کو خود پر تلوار کا وار کرتے دیکھ کر کچھ نہیں کہا ہو گا؟ وہ سیزر کی طرح نہیں چلایا ہوگا کہ علائوالدین تم بھی؟ لیکن کیا کریں جلال الدین خلجی کو شیکسپیئر نہ ملا۔ شاہ جہاں دوسرا مظلوم بادشاہ کہلا سکتا ہے۔ اس کی بدنصیبی آپ کو یونانی ٹریجک ہیروز کی یاد دلاتی ہے کہ کیسے اپنا بیٹا باپ کو قید کرکے‘ بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کر دیتا ہے۔ دورانِ قید شاہ جہاں کو اپنا وہ سوتیلا بھائی ضروریاد آتا ہوگا جس کو قتل کرکے وہ برسوں پہلے بادشاہ بنا تھا۔ جب شاہ جہاں نے اپنے تخت کی بنیاد ہی اپنے بھائی کے خون سے رکھی تھی تو پھر بھلا اورنگزیب کیوں اپنے خاندانی جینز اور ڈی این اے کے دبائو میں باپ کی طرح اپنے بھائیوں کو قتل نہ کراتا؟ اُس باپ کی اذیت اور تکلیف کا تصور کریں جسے بیٹے نے قید کررکھا ہے اور وہ بیٹا اپنے بھائیوں کو قتل کر رہا ہے۔
اگر اس سے زیادہ اذیت کا تصور کرنا ہے توہندوستان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا تصور کریں‘ جو ایک شاعر بھی تھا۔ ایک حساس انسان‘ جسے حالات اور وارثت نے بادشاہ بنا دیا تھا۔ جو ادب‘ ادیبوں اور شاعروں میں اتنا مگن رہتا تھا کہ اسے یاد نہ رہا کہ مغلوں کا ہندوستان اس کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔اور پھر جو کچھ اس لٹریری اور حساس بادشاہ کے ساتھ ہوا‘ وہ پڑھ کر جہاں آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ وہیں آپ کی آنکھوں سے آنسو بھی نکل آتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی ہندوستان پر تقریباً ایک ہزار سالہ حکمرانی کے دوران کسی بادشاہ کے سا تھ مجھے ہمدردی ہوئی اور جس کا دکھ مجھے سب سے زیادہ محسوس ہوا‘ وہ بہادر شاہ ظفر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے اسے ناشتے میں بیٹے کا سر پیش کیا تھا۔ ہندوستان کے اس آخری بادشاہ کو دفن ہونے کے لیے کوئے یار میں دو گز زمین بھی نہ ملی۔
کیا تاریخ کے یہ عبرتناک واقعات پڑھ کر آج کے حکمرانوں یا حکمرانی کے لیے جنونی سیاستدانوں کو کوئی فرق پڑا؟ کیا کسی ایک کے دل سے بھی حکومت اور حکمرانی کی خواہش ختم ہوئی؟ کسی ایک نے بھی سوچا یہ بے رحم کھیل وہ نہیں کھیلیں گے؟ آخر اس حکمرانی کے نشے میں ایسا کیا رکھا ہے کہ اس خطرناک کھیل سے کوئی آؤٹ نہیں ہونا چاہتا جس کا صدیوں پرانا ایک ہی اصول ہے کہ حکمرانی کے لیے جان دی بھی جا سکتی ہے اور جان لی بھی جا سکتی ہے۔