جب 13اپریل کو میں اور میرے دوست وسیم حقی‘ انور بیگ سے ملے تو ہمیں اندازہ تھا کہ ہماری اپنے دوست سے آخری ملاقات ہے۔ ان کے بچوں کو علم تھا کہ وہ زیادہ دیر نہیں جی پائیں گے۔ جس طرح اپنے باپ کی خدمت اور خیال ان کے بچوں نے رکھا‘ یقین کریں انور بیگ پر رشک آیا کہ بچے ہوں تو ایسے مؤدب اور باپ سے بے پناہ محبت کرنے والے۔
پہلے میرے دوست ڈاکٹر شیر افگن نیازی اور بعد میں ڈاکٹر ظفر الطاف چل دیے تو کئی دنوں تک اداسی اور ڈپریشن رہا‘ میری بیگم نے کہا: کیا کریں‘ آپ کی سب دوستیاں اپنی عمر سے بڑے لوگوں سے ہیں۔ ظفر الطاف‘ انور بیگ یا نواب یوسف تالپور‘ اسحاق خاکوانی یا میجر عامر‘ لیکن کیا کریں دوستیاں باقاعدہ منصوبہ بندی سے تھوڑی کی جاتی ہے۔ اب انور بیگ بھی چل دیے۔یاد آیا 2003ء کا سال تھا۔ میں اور ارشد شریف سینیٹ کی پریس گیلری میں بیٹھے تھے۔ نئے نئے سینیٹرز منتخب ہو کر آئے تھے۔ اچانک خوبصورت لباس میں ملبوس ایک سینیٹر کھڑا ہوا اور دھواں دھار تقریر شروع کی۔ تقریر میں کچھ ایسا خاص تھا کہ ارشد شریف اور میں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ کسی سے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ جواب ملا: پیپلز پارٹی کے سندھ سے منتخب ہونے والے نئے سینیٹر انور بیگ ہیں۔ارشد شریف اور میں نے زندگی میں پہلی بار خواہش کی کہ یار ایسے بندے سے تو دوستی ہونی چاہیے۔ ہم دونوں پریس گیلری سے نیچے اترے اور بیگ صاحب سے ملے۔ ہم تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے‘ کہنے لگے: چلیں کیفے میں بیٹھ کر چائے کافی پیتے ہیں اور یوں ان سے طویل دوستی کا آغاز ہوا۔
انور بیگ جیسا سوشل اور تعلقات رکھنے والا بندہ میں نے شاید ہی دیکھا ہو۔ کراچی سے اسلام آباد اور لندن سے امریکہ تک ان کی بے شمار دوستیاں اور تعلقات تھے۔ ان کے گھر جس طرح مہمانوں کا خیال رکھا جاتا تھا‘ وہ بھی شاید ہی کوئی اور سیاستدان رکھ سکتا ہو۔ اسلام آباد کے ہر صحافی سے تعلق تھا۔ ریٹائرڈ ہوں یا سروِنگ‘ ٹاپ سول ملٹری افسران انکے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ امریکن سفیر یا وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ حکام جب بھی پاکستان آتے تو انور بیگ کے گھر کا وزٹ کرتے جہاں شہر بھر کے ملکی و غیرملکی سفیر‘ سول ملٹری بیوروکریٹس‘ سیاستدان اور صحافی شریک ہوتے۔ میں انہیں کہتا کہ جتنے تعلقات آپکے ہیں‘ آپ کو تو اس ملک کا وزیراعظم ہونا چاہیے لیکن آپ کو تو دوسری دفعہ سینیٹ کا ٹکٹ نہ ملا۔ ہنس کر کہتے: اسی وجہ سے نہیں ملا کہ میرے تعلقات ہیں اور یہ بات میرے باسز کو پسند نہیں آتی۔
میں تین لوگوں بارے کہتا تھا کہ جو کچھ کماتے ہیں سب مہمان نوازی پر خرچ کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف‘ انور بیگ اور میجر عامر۔ ساری عمر انہوں نے دوستوں پر خرچ کیا۔ دوسروں کو کھلا پلا کر خود خوش ہوئے۔ انور بیگ کو جتنی سیاست اور اندرونی خبروں کی جانکاری رکھنے کا شوق تھا‘ وہ شاید ہی کسی اور میں ہو گا۔ ان کے ذرائع ہر شعبۂ فکر میں تھے۔ جتنی خبریں ان کے پاس ہوتیں‘ شاید ہی کوئی سیاستدان اتنا انفارمڈ ہوگا۔ بینظیر بھٹو انہیں بہت پسند کرتی تھیں۔ انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا۔ انور بیگ کی یہی قربت آصف زرداری کے نزدیک ان کا جرم بن گئی۔ جب بینظیر بھٹو کے بعد پارٹی زرداری کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے بینظیر بھٹو کے جن ساتھیوں کو پارٹی سے نکال دیا‘ ان میں انور بیگ سرفہرست تھے۔
دراصل الیکشن کے بعد 2002ء میں جب بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف میں حکومت بنانے پر مذاکرات ہو رہے تھے تو زرداری مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم بنوانا چاہ رہے تھے۔ اس کے بدلے مولانا نے زرداری کی رہائی اور بینظیر بھٹو پر قائم مقدمات ختم کرکے واپسی کا راستہ ہموار کرنا تھا۔ بینظیر بھٹو نے فیصلہ بدل دیا۔ زرداری کو کسی نے بتایا کہ انور بیگ نے بی بی کو کہا تھا کہ امریکن اس سے خوش نہیں ہیں۔ مولانا کو یورپ میں طالبان کا گاڈ فادر سمجھا جاتا ہے۔ ان کو وزیراعظم بنوانا ان کے اپنے سیاسی مستقبل کیلئے اچھا نہ ہوگا۔ اس پر زرداری صاحب ان سے ناراض ہوئے۔ انور بیگ نے بڑی کوشش کی کہ وہ اس غلط فہمی کو دور کریں کہ بینظیر بھٹو کیوں ان پر اعتبار کریں گی جب وہ خود امریکہ سے براہِ راست رابطے میں تھیں۔ امریکن براہِ راست انہیں کہہ سکتے تھے۔ بس کسی نے زرداری کے کان بھرے اس لیے جب 2008ء میں پارٹی ان کے ہاتھ میں آئی تو انہیں چھ سال بعد انور بیگ سے بدلہ لینے کا خیال آیا۔ ان دنوں میں بھی ایسی خبریں فائل کررہا تھا جس سے زرداری ناراض تھے۔ امین فہیم کو وہ وزیراعظم بنانے کا کہہ تو بیٹھے تھے لیکن نیت کبھی نہ تھی۔ انور بیگ کی برسوں سے امین فہیم سے دوستی تھی۔ زرداری کو یہ دوستی بھی پسند نہ تھی۔ زرداری کو پتا چلا کہ امین فہیم کی ملاقات انور بیگ نے امریکیوں سے کرائی ہے۔ یوں ''جرائم‘‘ کی فہرست طویل ہو گئی۔ میرا بھی انور بیگ سے روز کا ملنا تھا۔ اس پر زرداری نے اپنا اسلام آباد میں ایک بدنامِ زمانہ فرنٹ مین بھیجا جس نے انور بیگ کو کہا کہ زرداری ایک شرط پر آپ کو پارٹی میں قبول کریں گے‘ اگر آپ امین فہیم اور رئوف کلاسرا سے دور رہو۔ انور بیگ اپنا سیاسی مستقبل خراب کر سکتے تھے لیکن وہ کسی کے کہنے پر دوستیاں نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ انہوں نے انکار کیا جس پر ان پر پارٹی کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ایک دن کسی مشترکہ دوست نے زرداری سے انور بیگ کی بات چلائی تو زرداری نے جواب دیا اسے کہو شکر کرے کہ وہ ابھی زندہ ہے۔ ایک دن زرداری ہاؤس گئے تو ایک خاتون سیکرٹری نے انور بیگ کو عجیب و غریب بات کی‘ آپ یہ رنگ برنگی ٹائیاں پہن کر نہ آیا کریں‘ زرداری صاحب کو آپ کی یہ ٹائیاں اچھی نہیں لگتی۔ وہ ان ٹائیوں سے irritate ہوتے ہیں۔
اب انور بیگ نے فیصلہ کرنا تھا کہ انہوں نے ان لوگوں سے دوستیاں رکھنی تھیں جن سے زرداری چڑتے تھے اور وہ کلر فل ٹائیاں بھی نہیں پہننی تھیں جن کے رنگوں سے زرداری کو الجھن ہوتی تھی۔ انور بیگ نے دوستیوں اور اپنی خوبصورت ٹائیوں کو زرداری سے ذاتی وفاداری اور پیپلز پارٹی میں اپنے سیاسی مستقبل پر ترجیح دی اور پارٹی چھوڑ دی۔ سب پارٹی لیڈرز جو انور بیگ کی بینظیر بھٹو اور امین فہیم سے قربت کی وجہ سے اردگرد منڈلاتے تھے اور انور بیگ کے ایف سیون میں واقع گھر کے ڈرائنگ روم کے کونے کھدروں میں پائے جاتے تھے‘ وہ اب بدلتے حالات میں ان کا فون سننے تک سے انکاری ہوگئے۔ انور بیگ کو زرداری سے زیادہ ان سیاسی دوستوں کے رویے سے دکھ ہوا۔ ایک دن اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے رویے سے دکھی ہوئے اور بعد میں راجہ پرویز اشرف سے بھی۔ کہنے لگے: دیکھو یار لوگ کیسے بدل جاتے ہیں۔ میں نے کہا: بیگ صاحب آپ کا گلہ نہیں بنتا۔ آپ کو بھی موقع ملا۔ زرداری نے اپنے فرنٹ مین کے ذریعے میسج بھیجا تھا۔ آپ نالائق نکلے۔ آپ دوستیاں نبھانے کے چکر میں پڑ گئے۔ سیاستدان تو بے رحم ہوتے ہیں۔ دوسروں کی لاش پر کھڑے ہوکر اپنا قد اونچا کرنے کا نام ہی سیاست ہے۔ آپ امین فہیم سے دوستی نبھانے کے چکر میں پڑ گئے۔ مجھ سے ملنا نہ چھوڑا۔ بولے: RK پھر عمر بھر میں اپنے آپ سے ناخوش رہتا۔ امین فہیم سے برسوں کی دوستی کیسے چھوڑ دیتا یا تم سے ملنا۔ یا میں زرداری کو خوش کرتا یا اپنے من کو۔ انور بیگ نے عزت دار انسان کی طرح اپنے من کو مطمئن کرنا زیادہ بہتر سمجھا۔
ایک دن انور بیگ نے مجھے اور ارشد شریف کو اپنے بلیو ایریا دفتر میں لنچ پر بلایا۔ کہنے لگے: ایک مشورہ دو۔ بات مکمل کی۔ ارشد شریف حسبِ عادت مسکرا کر چپ رہا۔ میں نے کہا: آپ یہ کام مت کریں‘ آپ پچھتائیں گے۔ وہ بولے: لیکن RK۔ میں نے کہا: آپ کی مرضی لیکن آپ غلط کررہے ہیں۔ ارشد شریف مسکرا کر ہماری بحث سن رہا تھا۔