میں کچھ دیر خاموش رہا تو بولے: پھر آپ کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا: بیگ صاحب انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ ''میں فیصلہ کر چکا ہوں‘ اب آپ مجھے حقائق بتا کر کنفیوز مت کریں۔ آپ بھی فیصلہ کر چکے ہیں‘ اب بس دوستوں سے اس فیصلے کی تصدیق چاہتے ہیں‘‘۔ میں نے مزید کہا: جب نعیم بھائی بہاولپور سے گاؤں آتے تو اکثر لوگ کسی نہ کسی ایشو پر ان سے مشورہ مانگتے لیکن مجھ سے نہ مانگتے۔ ایک دن نعیم بھائی سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے؟ ہنس کر بولے: مشورے دیتے وقت تمہیں دانشور بننے کا شوق ہے۔ لوگ پہلے سے فیصلہ کرکے آپ سے مشورہ مانگتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ آپ وہی مشورہ دیں گے جو ان کے ذہن میں ہے۔ میں ان سے پہلے پوچھ لیتا ہوں کہ آپ بتاؤ اس مسئلے کا حل کیا ہے‘ وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے خیال میں ایسا ہو سکتا ہے۔ تو میں کہتا ہوں کہ بالکل ٹھیک ہے‘ یہی کر لو۔ وہ بندہ اپنے حالات بہتر جانتا ہے لہٰذا اس کے مسئلے کا حل اس کے پاس ہے‘ میرے پاس نہیں۔ میں جب کہتا ہوں کہ تم ٹھیک سوچ رہے ہو تو وہ خوش ہو کر اس مسئلے پر کام کرتا ہے اور اکثر وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ تم انہیں دانشور بن کر سمجھاتے ہو‘ جو ان کے پلے نہیں پڑتا۔ میں نے انہیں بتایا کہ نعیم بھائی کی اس بات کے بعد میں نے لوگوں کو مشورہ دینا چھوڑ دیا۔ آپ بھی فیصلہ کرکے مشورہ مانگ رہے ہیں۔ کوئی ذاتی ایشو ہو تو آپ کو مشورہ دے سکتا ہوں لیکن سیاسی ایشو پر کسی سیاستدان کو‘ چاہے دوست ہی کیوں نہ ہو‘ مشورہ نہیں دیتا کہ یہ میرا کام نہیں ہے۔
بیگ صاحب بولے کہ میں سیاستدان ہوتا تو پیپلز پارٹی میں آصف زرداری کا درباری بن کر ان کی حکومت میں اعلیٰ عہدے پر ہوتا۔ میں کون سا وزیر ہوں جو مشورہ مانگ رہا ہوں‘ دوست سمجھ کر بتا دو۔ میں نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میرا خیال ہے آپ کو پیپلز پارٹی چھوڑ کر نواز لیگ کو جوائن نہیں کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی میں آپ نے برسوں گزارے۔ آپ کی سیاسی پہچان یہی پارٹی ہے۔ پارٹی کا ایک مزاج ہے جس سے آپ آگاہ ہیں۔ آپ اب نواز لیگ میں جائیں گے تو وہاں نئے لوگ اور نیا ماحول ہو گا۔ ویسے بھی انسانی مزاج ہے کہ باہر سے آنے والوں کو پہلے سے موجود لوگ‘ بس اور ٹرین کی طرح‘ اندر نہیں گھسنے دیتے اور اندر سے کنڈی لگا لیتے ہیں۔ آپ ایک بالکل نئی پارٹی میں جا رہے ہیں جہاں پہلے سے موجود لوگوں میں گھمسان کا رَن پڑا ہوا ہے۔ وہاں بڑے بڑے گرو گھنٹال بیٹھے ہیں۔ آپ کو کون قریب بیٹھنے دے گا؟ سب آپ کو تیسرے درجے کا شہری سمجھ کر ٹریٹ کریں گے۔ پارٹیوں میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے۔ جب بینظیر بھٹو کا دور تھا تو آپ کا ستارہ عروج پر تھا۔ آپ کو وہ بہت عزت دیتی تھیں۔ بہت سارے لوگ‘ جو بینظیر بھٹو کی سیاسی قربت چاہتے تھے‘ آپ سے حسد کرتے ہوں گے۔ اس وقت بینظیر بھٹو نے کئی لوگوں کو دور رکھا ہوا تھا جیسے آج کل آصف زرداری نے آپ کو رکھا ہوا ہے اور وہ لوگ اب آصف زرداری کے دربار کا حصہ ہیں۔ آپ نے اپنا اچھا وقت دیکھ لیا۔ چھ سال سینیٹر شپ گزار لی‘ نام بنا لیا‘ عزت کما لی۔ اب لوگ آپ کو جانتے ہیں‘ عزت کرتے ہیں۔ ایک بندے کو اور کیا چاہیے؟ اب کچھ عرصہ سیاسی طور پر انڈر گراؤنڈ ہو جائیں۔ یا پھر اگر آپ خود کو اس سیاسی ماحول میں اَن فٹ محسوس کرتے ہیں تو سیاست سے دور ہو جائیں۔ ٹی وی شوز میں آپ ایک آزاد سیاسی تجزیہ کار بن کر آیا کریں۔ اسلام آباد کا پورا میڈیا آپ کا دوست ہے۔ ان اینکرز سے تعلقات کا فائدہ اٹھائیں اور ایک دبنگ تبصرہ کار کی حیثیت سے نام پیدا کریں۔ کہاں اب آپ دوبارہ نواز شریف اور شہباز شریف کے دربار کا حصہ بنیں گے۔ وہاں لوگ آپ کو ایڈجسٹ نہیں ہونے دیں گے۔ شریفوں کے ہاں بھی وہی درباری کلچر ہے۔ وہاں بھی خوشامدیوں کا سارا دن مقابلہ رہتا ہے۔ ہاں ایک فرق ہوگا کہ وہاں آپ کی ٹائیوں کے رنگوں پر نواز شریف کو آصف زرداری کی طرح کوئی اعتراض نہیں ہوگا بلکہ میاں صاحب الٹا آپ سے پوچھیں گے کہ بیگ صاحب اینی سوہنڑی ٹائی تسی کتھوں لئی اے۔ میں جب یہاں تک پہنچا تو انور بیگ اور ارشد شریف کے منہ سے بڑا قہقہہ بلند ہوا۔
میں اور ارشد شریف 2006-07ء کے دوران ایک سال لندن میں اکٹھے رپورٹنگ کرتے رہے اور ہمارا سارا دن خبروں کی تلاش میں ایجوائے روڈ اور آکسفورڈ سٹریٹ میں ہی گزرتا تھا۔ اُن دنوں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی سیاست عروج پر تھی۔ لندن ایک طرح سے لاہور اور اسلام آباد بنا ہوا تھا۔ سب سیاسی لوگ وہاں جمع ہوتے تھے۔ خاصا شغل لگتا تھا۔ ہر ہفتے ڈیوک سٹریٹ پر‘ جہاں نواز شریف صاحب کا دفتر تھا‘ میاں صاحب اور ان کی ٹیم سے ملاقات ہو جاتی۔ لہٰذا ارشد شریف اور میں نواز شریف کے مزاج سے کچھ واقفیت رکھتے تھے۔ میں نے کہا: بیگ صاحب کبھی کبھار بندے کو اپنے پروفیشن سے ''ریٹائرڈ ہرٹ‘‘ بھی ہو جانا چاہیے جیسے کھلاڑی گراؤنڈ سے زخمی ہو کر لوٹ آتے ہیں۔ آپ بھی کچھ عرصہ انتظار کر لیں‘ پیپلز پارٹی نہ چھوڑیں۔ کیا خبر اگلا دن آپ کے لیے کیا خبر لے کر آتا ہے۔ وہی بات کہ بیگ صاحب فیصلہ کر چکے تھے۔ وہ صرف ہم دوستوں سے اپنے فیصلہ پر اپنے حق میں مہر لگوانا چاہتے تھے۔ وہ بتاتے رہے کہ میاں صاحب ان کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ پرانے تعلقات اور اپنی ملاقاتوں کا حال احوال سناتے رہے۔ وہ اپنے تئیں ہمیں قائل کر رہے تھے کہ انہیں نئی سیاسی زندگی مل رہی ہے۔
میں نے کہا: بیگ صاحب نواز شریف صاحب کی ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ان لوگوں کو بہت پسند اور ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں جو پہلے کشمیری ہوں‘ پھر لاہوری ہوں‘ پھر گوالمنڈی سے ہوں‘ جگتوں اور گپ شپ میں ماہر ہوں‘ ہاں میں ہاں ملاتے ہوں‘ کھانے پینے کے بے پناہ شوقین ہوں‘ ساری عمر وفاداری نبھائیں‘ چاہے برسوں جیل جانا پڑے اور ساری عمر صرف ان کا بندہ بن کر رہیں۔ وہ اپنے سیاسی لوگوں سے اس طرح کی وفاداری کی توقع رکھتے ہیں جیسے ایک عاشق اپنی محبوبہ سے رکھتا ہے جس کی تھوڑی سی بے وفائی بھی اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ میں نے کہا: اگر میں نواز شریف صاحب کے اس لمبے چوڑے 'کرائے ٹیریا‘ پر آپ کو دیکھوں تو آپ میں صرف دو خوبیاں نظر آتی ہیں۔ جیسے برطانیہ کا ویزہ لینے کیلئے دس پوائنٹس میں سے کم از کم آٹھ پوائنٹس کوالیفائی کرنا ضروری ہوتا ہے‘ اسی طرح میاں صاحب کے بھی کسی کو اپنے قریب رکھنے کے دس پوائنٹس ہیں اور آپ کے پاس اس وقت میرے خیال میں بمشکل دو‘ تین پوائنٹس ہیں۔ اگر انہوں نے اس کے باوجود آپ کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو پھر آپ واقعی خوش قسمت ہیں۔
بیگ صاحب نے بچوں کی سی معصومیت سے مجھے دیکھا اور مسکرا کر پوچھا: اچھا RK‘ میری وہ دو خوبیاں کون سی ہیں؟ میں نے قہقہہ لگایا اور کہا: انسان کی کیسی خوبصورت فطرت ہے کہ ہر کوئی اپنی خوبیاں سننا پسند کرتا ہے۔ اب تک آپ بے دلی سے میری باتیں سن رہے تھے کیونکہ آپ کو یہ باتیں اپنے مطلب کی نہیں لگ رہی تھیں۔ میں آپ کے مزاج کے برعکس گفتگو کر رہا تھا۔ اب اپنی دو خوبیوں کا سن کر آپ گہری نیند سے جاگ گئے ہیں۔ ارشد شریف نے قہقہہ لگایا اور بولا: اب بول بھی دے‘ اب ہمارے بیگ صاحب کی جان لے گا کیا۔ بتا دے ان دس میں سے وہ کون سی صرف دو‘ تین خوبیاں ہیں جو نواز شریف کو پسند ہوں گی ورنہ تیرے حساب سے انہیں سو میں سے 33نمبرز بھی نہیں ملنے کہ یہ پاس ہی ہو جاتے۔ بیگ صاحب نے مجھے تگڑی سے گالی دی اور بولے: RK‘اب بتا ہی دے۔ (جاری)