کون سوچ سکتا تھا کہ ایک سال میں پاکستان اتنا بدل جائے گا۔ سب نے کچھ نہ کچھ اپنی آنکھوں سامنے بدلتے دیکھا ہے لیکن جتنی تیزی سے یہ تبدیلیاں ہوئیں‘ اس کے بعد اپنی آنکھوں پر اعتبار کرنا مشکل ہورہا ہے۔
بعض دفعہ انسان کی معمولی غلطی یا صورتحال کی غلط ریڈنگ اسے آسمان سے زمین پر لے آتی ہے۔ کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو ایک دن فیصلہ ہوا کہ وہ خود کو اصلی وزیراعظم سمجھنا شروع ہوگئے لہٰذا ان سے چھٹکارا ضروری ہے‘ ورنہ جو راستہ راجہ پرویز اشرف کے لیے نکالا گیا وہ گیلانی صاحب کے لیے بھی موجود تھا۔ راجہ کے دور میں سوئٹزر لینڈ کو وہ خط لکھ دیا گیا جسے نہ لکھنے کی وجہ سے گیلانی صاحب کو توہینِ عدالت کا سامنا کرنا پڑ اور وہ پانچ سال کے لیے نااہل ہو گئے۔ اپنے تئیں گیلانی صاحب صدر اور آئین کے ساتھ وفاداری نبھا رہے تھے لیکن واقفانِ حال کہتے ہیں کہ وجہ کچھ اور تھی۔ وجہ چند ماہ پہلے پیدا ہوئی تھی جب صدر زرداری کے ذاتی دوست‘ جو ایف آئی اے میں افسر تھے‘ کی ایک درخواست گیلانی صاحب نے منظور نہ کی تھی۔ اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ انہیں اگلے گریڈ میں ترقی کے لیے ضروری کورس سے استثنیٰ دیا جائے۔ گیلانی صاحب نہ مانے۔ گیلانی صاحب کو علم تھا کہ وہ افسر زرداری صاحب کے قریب تھے۔ گیلانی صاحب بھی خود کو اس طرح وزیراعظم سمجھ بیٹھے تھے جیسے کبھی محمد خان جونیجو نے سمجھ لیا تھا۔ سابق وفاقی سیکرٹری انور محمود اکثر یہ واقعہ سناتے ہیں کہ جونیجو نے دو تین کام ایسے کیے تھے‘ صدر ضیا جن کی توقع نہیں کر سکتے تھے۔ ایک تو جب جونیجو تک یہ خبر پہنچی کہ ان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے ان سے اجازت لیے بغیر آرمی ہاؤس جا کر جنرل ضیا سے ملاقات کی تھی تو اپنی برطرفی کی خبر صاحبزادہ کو رات نو بجے خبرنامے سے پتہ چلی۔ دوسرے جنرل ضیا اپنے کُک یا ڈرائیور کی سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد توسیع چاہتے تھے۔ وزیراعظم جونیجو نے اس فائل کو مسترد کر دیا‘ جس پر جنرل ضیا اکثر افسردہ پائے جاتے تھے۔ اور پھر جونیجو نے اوجڑی کیمپ میں انکوائری کے بعد بڑے بڑے جرنیلوں کو معزول کرنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ یوں جونیجو جیسا ایک عام وزیراعظم بھی جنرل ضیا کے لیے اتنا بڑا خطرہ بن گیا کہ آخر ان کی حکومت برطرف کی اور پھر جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
اکثر سیاسی وزیراعظم کچھ عرصے بعد خود کو اصلی وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ یہ سب لوگ جب دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر آتے ہیں تو انہیں اتارنا آسان ہو جاتا ہے۔ جونیجو ایک جنرل کی مہربانی سے وزیراعظم بنے لیکن ان کے کک کو توسیع نہ دے تو پھر اگلا بندہ اپنی انسلٹ محسوس کرکے کندھوں سے اتار دے گا‘ چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔ یہی کچھ اگر یاد ہو تو نواز شریف کے ساتھ ہوا‘ جب پہلے دورِ حکومت میں وہ صدر اسحاق اور فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر آئے اور انہی کے خلاف سٹینڈ لے بیٹھے‘ جس کا نتیجہ اسی صدر کے ہاتھوں برطرفی کی شکل میں نکلا جس سے حلف لیا تھا۔
یوں گیلانی بھی زرداری صاحب کی مہربانی سے وزیراعظم بنے تھے‘ یہ الگ بات کہ زرداری صاحب نے امین فہیم کو سندھ سے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم نہیں بننے دینا تھا۔ انہیں پنجاب سے وزیراعظم درکار تھا۔ شاہ محمود قریشی سے زیادہ بہتر بندہ انہیں گیلانی لگا جو مروت اور وفاداری دکھانے میں شاہ محمود قریشی سے ہزار گنا بہتر تھا۔ گیلانی نے قریشی کی طرح ان کی پیٹھ میں چھرا نہیں مارا جیسے وزیرخارجہ قریشی نے امریکن جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے وقت مارا تھا۔ زرداری کی دور اندیشی کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔اس طرح عمران خان کو بھی ایک دن لگا کہ اس ملک کے اصل حکمران تو وہ ہیں۔ لوگوں نے انہیں ووٹ دیے ہیں‘ وہ اب اپنے فیصلے خود کیا کریں گے‘ وہ اب جنرل باجوہ سے پوچھ کر حکومت نہیں چلائیں گے اور یوں تاریخ نے خود کو دہرایا۔ چھ اکتوبر 2021ء کو نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا اعلان جنرل باجوہ نے کیا۔ عمران خان نے اس پر سٹینڈ لے لیا۔ وہ بھی خود کو جونیجو‘ نواز شریف اور گیلانی کی طرح اصلی وزیراعظم سمجھ بیٹھے تھے جو اُن کے خیال میں بغیر کسی کی مہربانی‘ سپورٹ یا احسان کے یہاں تک پہنچے تھے۔ اور پھر ایک فوجی افسر کی تعیناتی کو لے کر جو طوفان اٹھا اس میں یہ ملک پھنس کر رہ گیا۔
بعض دفعہ حیران ہوتا ہوں کہ جو آپ دوسروں کے لیے سوچتے ہیں وہی آپ پر کیسے اپلائی ہو جاتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان دنیا کے درجن بھر گورننس ماڈلز سے بڑے متاثر تھے۔ اپنی تقریر میں صورتحال کے مطابق وہی ماڈل فٹ کر دیتے تھے۔ وہ بیک وقت ریاستِ مدینہ‘ روس‘ چین‘ امریکہ‘ یورپ‘ ملائیشیا ‘ ترکی‘ برطانیہ اورسعودی عرب کے نظام کے علاوہ نیدرلینڈ کے وزیراعظم سے بھی متاثر تھے جو سائیکل پر دفتر جاتا تھا‘ حتی کہ ایک بھارتی ریاست کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کے گورننس ماڈل کے بھی بڑے فین تھے جسے لاہور بلوا کر گورننس پر قوم کو لیکچر دلوایا۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ اس کے بعد عثمان بزدار کووزیراعلیٰ لگایا۔ جب وہ وزیراعظم بنے اور دنیا کے ان ممالک کا دورہ کیا جہاں جمہوریت نہیں تھی تو اچانک ان کے ماڈلز انہیں اچھے لگنا شروع ہوگئے۔ انہیں سعودی عرب کے حکمرانوں کی پاورز نے بڑا مسحور کیا۔ اس نوجوان شہزادے سے وہ بڑے متاثر ہوئے جو عمر میں ان سے آدھا تھا لیکن اختیارات میں بڑا تھا۔ سعودی شہزادے نے جس طرح اپنے مخالفین کو قید کیا اور اربوں ڈالرز نکلوائے‘ وہ آئیڈیا بھی خان کو بڑا پسند آیا۔ وطن لوٹے تو کہا کہ سعودی بادشاہ والی پاورز ہوں تو پھر ہی کام چلے گا۔ چین گئے تو انہیں چین کا ون پارٹی سسٹم اچھا لگا جہاں کسی بھی ''چور ڈاکو‘‘ کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ ہر تقریر میں کہنا شروع کر دیا کہ چین میں ہر سال کرپٹ وزیروں کو پھانسی دی جاتی ہے جبکہ وہ کسی کو جیل میں ڈالیں تو عدالتیں انہیں ضمانت پر رہا کر دیتی ہیں۔ وہ روس کے صدر کی پاورز سے بھی بڑے متاثر ہوئے جہاں مسٹر پوتن نے برسوں سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھی ہے۔ اگر کچھ لندن بھاگ گئے تو انہیں وہاں زہر دلوا کر مروایا گیا۔وہ زیادہ متاثر ترکی کے صدر طیب اردوان کے طرزِ حکمرانی سے ہوئے جو پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام لے آئے اور ساتھ ہی قانون بنا دیا کہ جو صدر پر تنقید کرے گا اسے جیل کی سزا ہوگی۔ یوں عمران خان نے پاکستان میں بحث چھیڑ دی کہ یہاں بھی صدارتی نظام ہو اور صدر عمران خان ہو اور تنقید پر جیل کی سزا ہو۔ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی وہ سعودی‘ روسی‘ چینی اور ترک ماڈلز سے متاثر تھے جہاں سوشل میڈیا پر نازیبا کمنٹس یا ٹرولنگ پر اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔ عمران خان نے سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کے لیے ایف آئی اے کو بہت پاورز دیں تاکہ مخالفین کو جیلوں میں ڈالا جائے۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے انہیں ایک گلہ یہ بھی تھا کہ وہ ان کے ناقدین کو سوشل میڈیا پر بشریٰ بیگم پر تنقیدی پوسٹ کو دہشت گردی قرار دے کر کارروائی نہیں کرتے۔ بشیر میمن نے انکار کر دیا کہ کل کلاں یہ قوانین آپ کے خلاف استعمال ہوں گے۔ انہیں نافرمانی پر گھر بھیج دیا گیا۔
اب پی ٹی آئی کے ہزاروں ورکرز اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں کی وجہ سے اسی انجام سے دوچار ہو رہے ہیں جس کا خواب کبھی وزیراعظم نے مخالفین کے لیے دیکھا تھا۔ عمران خان اپنے سیاسی ناقدین اور صحافیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے جو چینی‘ سعودی‘ ترکش‘ روسی انداز کی پاورز چاہتے تھے وہ ان کی قسمت میں نہ تھیں لیکن اب ان کے ورکرز پر استعمال ہورہی ہیں۔ یہ خواب خان صاحب نے دیکھا تھا لیکن اس کی تعبیر کا شکار ان کے اپنے پارٹی ورکرز ہورہے ہیں۔ بس اتنا پوچھنا تھا ہن آرام اے؟