پی ٹی آئی کے بڑے لیڈروں کو‘ جنہوں نے نوجوانوں کی برین واشنگ کی تھی کہ وہ ایک عظیم کاز کیلئے لڑ رہے ہیں‘ تھوڑا سا دبائو پڑتے ہی پتوں کی طرح بکھرتے دیکھ کر مرحوم دوست ڈاکٹر ظفر الطاف یاد آئے۔
ویسے تو وہ کبھی نہیں بھولے لیکن جو پی ٹی آئی کا حشر ہوا ہے‘اُن کی یاد کچھ زیادہ ہی آنے لگی ہے۔ایک رات گئے مجھے اُن کا فون آیا۔آواز میں کچھ ایسا درد تھا کہ میں چونک گیا۔لہجے میں عجیب سی اداسی تھی جو آج برسوں بعد بھی مجھے اپنے اندر محسوس ہوتی ہے۔ میں نے فون اٹینڈ کیا تو میری ہیلو کا انتظار کیے بغیر صرف اتنا بولے: رئوف اسما چلی گئی۔ انہوں نے اسے مار ڈالا۔ میں اس وقت پولی کلینک ہسپتال میں ہوں۔یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔میں کافی دیر سُن بیٹھا رہا کہ یہ کیا ہوگیا۔ اسما ان کی بیگم صاحبہ تھیں اور ڈاکٹر صاحب سے میری قربت کی وجہ سے میرا احترام کرتی تھیں‘ بلکہ یوں کہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی مشہور زمانہ لنچ ٹیبل پر وہ اگر کسی سے کچھ کھل کر گپ لگا لیتی تھیں تو وہ میں تھا۔ اکثر ڈاکٹر صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے آفس آتیں تو مجھے دیکھ کر کہتیں :تو جناب کلاسرا صاحب آپ اور آپ کے دوست (ڈاکٹر ظفرالطاف) اڈیالہ جیل کب جارہے ہیں؟ وہ ہنس کر کہتیں: تم دونوں کوشش تو بہت کررہے ہو لیکن بات بن نہیں رہی تم دونوں سے۔کہتیں: اڈیالہ گئے تو یقین کریں آپ دونوں کیلئے بہترین کھانے روز لایا کروں گی۔میں کہتا :اڈیالہ اسلام آباد سے دور پڑتا ہے کب تک روز آئیں گی کھانا دینے۔وہ کہتیں: ظفر اور آپ جیل جانے والے بنیں‘ باقی کھانا پہنچانا میرا کام ہے۔ ڈاکٹر صاحب کبھی ان کی اس بات پر مسکرا پڑتے اور کبھی موڈ آف بھی ہوجاتا۔وہ مسلسل اس خوف کا شکار رہتیں کہ کسی دن ڈاکٹر صاحب گرفتار ہو جائیں گے۔ باتوں کو ذرا ٹچ دے کر گفتگو کو لائٹ انداز میں سنجیدہ پیغام دیتیں۔ انہیں اپنے خاوند کے مزاج کا اندازہ تھا جو ایک بے خوف آدمی تھے۔ جس بات کو وہ درست سمجھتے‘پھر اس کے لیے تکلیفیں اٹھانے کو تیار ہوجاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ان چند لوگوں میں سے تھے جو اپنی شرائط پر زندگی گزارتے ہیں اور انہوں نے گزاری اور مشکلات کی کبھی پروا نہیں کی۔ وہ مشکل سے مشکل بات کسی کے منہ پر اطمینان سے کر جاتے اور اس بات کی پروا نہ کرتے کہ اگلا بندہ کتنا بڑا ہے۔ مشرف کے دنوں میں وہ زیرِعتاب تھے۔شدید دبائو تھا کہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنیں۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں وہ سیکرٹری زراعت تھے تو اُس وقت انہوں نے روس سے ٹریکٹر منگوائے تھے تاکہ کسانوں کو سستے ٹریکٹر مل سکیں کیونکہ مقامی ٹریکٹرزمینوفیکچررز ایکا کر کے کسانوں کو عالمی مارکیٹ سے بھی تین گنا زائد قیمتوں پر ٹریکٹر فروخت کررہے تھے۔ساتھ میں انہوں نے زرعی ترقیاتی بینک سے سستے ریٹس پر قرضہ سکیم شروع کرائی تاکہ کسان قرضہ لے کر وہ ٹریکٹر خرید سکیں۔ یوں اس سکیم کے تحت ہزاروں ٹریکٹر منگوا کر کسانوں میں قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیے گئے تاکہ زراعت میں انقلاب لایا جائے اور مقامی ٹریکٹر مینوفیکچررز کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھی قیمتیں کم کریں۔ اگر وہ کم نہیں کرتے تو اب کسانوں کے پاس دوسرا آپشن موجود تھا۔اُس وقت کسان کو روس سے قیمت خرید‘ ٹرانسپورٹ‘ خرچہ ملا کرایک ٹریکٹر سوا یا ڈیڑھ لاکھ تک پڑا تھا۔یوں بینظیر دور میں پاکستان نے زراعت میں دس سے گیارہ فیصد گروتھ حاصل کی جو آج تک پاکستانی تاریخ میں نہیں ہوا۔ کسان خوشحال ہوئے اور ملکی معیشت نے تیزی پکڑی‘ لیکن ٹریکٹر مینوفیکچررز ان کے دشمن بن گئے۔ اپٹما پہلے دشمن تھی‘ شوگر ملز ایسوسی ایشن والے بھی دشمن تھے کہ کیسا سیکرٹری ٹکر گیا ہے جو کسانوں کیلئے ان سے لڑ رہا ہے۔1996ء میں لغاری صاحب نے بینظیر بھٹو حکومت توڑی اور بینظیر بھٹو‘ زرداری‘ نواب یوسف تالپور‘ اور ڈاکٹر ظفر الطاف پر مقدمے بنوائے۔شفقت محمود اُس وقت نگران وزیرِ زراعت تھے‘ ان تین ماہ میں وہ مقدمے بنے۔خیر وہ مقدمات چلتے رہے‘آخر جب مشرف دور میں نیب بنا تو ڈاکٹر ظفر الطاف پر دبائو شروع ہوا کہ وہ بینظیر بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنیں۔ مجھے آج تک ان کی بات یاد ہے‘ بولے: ماں نے ایسا دودھ نہیں پلایا کہ کسی خاتون کے خلاف گواہی دینے جائوں یا وعدہ معاف گواہ بنوں۔ جیل میں ڈالنا ہے‘ ڈال دیں۔ اس پر نیب افسران نے ان پر آڈٹ پیروں کی بنیاد پر درجن بھر مقدمے بنا دیے۔ ڈاکٹر صاحب اس پر بھی نہ گھبرائے تو ان کی بیوی کو فون کرنے شروع کر دیے کہ اپنے خاوند کو سمجھائوورنہ جیل میں سڑتا رہے گا۔ اسما صاحبہ نے ڈاکٹر صاحب سے بات کی تو بتایا کہ آپ بتائو کسانوں کیلئے وہ سمری میں نے تیار کر کے کابینہ بھیجی‘ یہ میری تجویز تھی کہ روس سے سستے ٹریکٹر منگوا کر کسانوں کو دیں‘ کابینہ اور وزیراعظم بھٹو کو میں نے کئی دن لگا کر قائل کیا۔ میں اس پورے پراسس میں شریک رہا۔ اب آپ لوگ کہتے ہیں زرداری نے کمیشن کھا لیا‘ تو پھر آپ زرداری کو داد دیں کہ اس نے مجھے پتہ نہیں چلنے دیا اور سوا‘ڈیڑھ لاکھ روپے والے ٹریکٹر میں بھی چند ہزار روپے کمیشن لے لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اس ڈیل میں ایک روپیہ نہیں کھایا گیا تو وہ کیوں کہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس ڈیل میں نیب کے بقول پیسہ کھایا گیا تو پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کے طور پر وہ ذمہ دار تھے۔ وہ پیسہ پھر زرداری یا بینظیر بھٹو یا نواب یوسف تالپور نے نہیں بلکہ میں نے کھایا ہوگا۔ مجھے سزا دے دیں۔اس پر نیب نے ان کی بیگم کو فون کالز اور دھمکیوں کا سلسلہ تیز کردیا۔ انہیں سنگین نتائج سے ڈرایا۔ وہ ڈاکٹر صاحب کو بتاتیں تو وہ کہتے: میں بینظیر بھٹو کے خلاف گواہی کیسے دوں جب اس ڈیل کو میں نے منظور کرایا۔اور پھر ایک دن نیب افسران نے ان کی بیگم کو دھمکی دی کہ آخری وارننگ ہے‘اب ڈاکٹر صاحب کی خیر نہیں۔ وہ یہ فون سن کر وہیں collapse کر گئیں۔ اب ڈاکٹر صاحب مجھے فون کر کے اسما صاحبہ کے انتقال کی خبر سنا رہے تھے۔
میں فوراً ہسپتال پہنچا۔ خاموش باہر کھڑے تھے۔صرف اتنا بولے: ظالموں نے مار ڈالا۔ ایمبولینس میں میت رکھوائی‘ فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے اور لاہور لے گئے۔عدالت سے سمن آئے بینظیر بھٹو‘ زرداری‘ یوسف تالپور کیس میں گواہی ہے۔ عدالت گئے اور ڈٹ کر وہی گواہی دی کہ ان تینوں کا کوئی قصور نہیں‘ نہ کوئی کرپشن ہوئی‘اگر ہوئی ہے تو مجھے سزا دے دیں۔ عدالت نے وہ ریفرنس خارج کر دیا۔شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے تو اپنے بچوں کا دودھ پلانٹ کامیاب کرانے کیلئے ہلہ ملک پلانٹ‘ جس کے وہ اعزازی چیئر مین تھے‘ بند کرانے کا فیصلہ کرایا۔ ہلہ دودھ کی انتظامیہ اور سٹاف پر اینٹی کرپشن میں مقدمے درج کرا دیے گئے۔ ان کے سٹاف کو اٹھایا گیا تو وہ ان کی ضمانتیں کرانے پہنچ گئے۔ میسج ملا کہ آپ دور رہیں ورنہ بُرا ہوگا۔ مجھے ہنس کر کہا: میرے دوست اور ورکرز مشکل میں ہیں‘ کیسے اکیلا چھوڑ دوں۔ شہباز شریف نے ان پر بھی اینٹی کرپشن میں مقدمہ کرا کے پولیس کو گرفتار کرنے بھیج دیا۔وہ آخری سانس تک ان مقدمات میں لاہور کی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔
آج جب ان پی ٹی آئی کے مبینہ نظریاتی لیڈروں کو بچوں کی طرح روتے بلکتے دیکھ کر پارٹی چھوڑتے دیکھتا ہوں تو ڈاکٹرظفر الطاف یاد آتے ہیں جو بیوی کو دفن کرنے کے بعد بھی عدالت میں گواہی دے ر ہے تھے اور جو شہباز شریف کے پولیس چھاپوں سے نہ ڈرے۔ یہ نہ بھولیں ان کی بھی ایک بیٹی تھی۔یہ ہوتا ہے یقین اور یہ ہوتی بے خوفی کہ جس بات کو ٹھیک سمجھتے تھے وہی کیا۔ نہ نیب انہیں توڑ سکا نہ ہی شہباز شریف کی اینٹی کرپشن پولیس۔
لوگوں کے کردار زندہ رہتے ہیں۔ اُن کا جسم آٹھ برس قبل ختم ہوگیا تھا لیکن ان کی خوبصورت بہادر روح اور کردار آج بھی زندہ ہے۔