میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو میڈیا اور سیاستدانوں کے بیانات سے متاثر ہو کر بڑے عرصے تک یہی سمجھتے رہے کہ دنیا میں پاکستان کے دو ہی دشمن ہیں‘ایک بھارت اور دوسرا آئی ایم ایف۔ بھارت کے ساتھ دشمنی کی وجہ تو سمجھ آتی ہے کہ ہر ریاست کو خود کو متحد اور اپنے لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک تگڑے دشمن کی ضرورت ہوتی ہے کہ لوگوں کواس سے ڈرا کر‘ ٹیکس لے کر ان پر حکومت کی جائے۔ چلیں پاکستان اور انڈیا تو ہمسائے ہیں‘ ہمارے بارڈر سانجھے بلکہ متنازع ہیں‘ لیکن امریکہ تو روس کا ہمسایہ نہیں کہ ان کے سرحدی مسائل یاجھڑپیں ہوں‘مگر دونوں دہائیوں سے دشمنیاں نبھا رہے ہیں۔ چین اور امریکہ بھی ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور واقع ہیں لیکن ان کی دشمنی بھی پاکستان بھارت سے کم نہیں ‘ لہٰذا آپ پوری دنیا دیکھ لیں ‘چند ایک ملک چھوڑ کر باقی ممالک کو دشمن کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے لوگوں کو لگام ڈال کر رکھیں کہ اگر وہ متحد نہ رہے یا اپنی کمائی سے حکمرانوں کو ٹیکس نہ دیا تو وہ مارے جائیں گے‘ فلاں ملک کی فوجیں انہیں کھا جائیں گی یا وہ دشمن ملک ان پر معاشی طور پر قبضہ کر لے گا۔لیکن ہم پاکستانیوں کیلئے آئی ایم ایف کو اتنا بڑا ولن بنا کر کیوں پیش کیا جاتا رہا ؟ آخر آئی ایم ایف کو کیا پڑی ہے کہ وہ پوری دنیا چھوڑ کر پاکستان کے پیچھے پڑ جائے اور اربوں ڈالرز کا قرضہ دے کر پھر وہ دعائیں کرنے بیٹھ جائے کہ اللہ کرے پاکستانی معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے۔ آئی ایم ایف کو پاکستان کا بھٹہ بٹھانے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ اس کے جواب میں دو تین سازشی تھیوریز ذہن میں آتی ہیں جو ہم برسوں سے سنتے آئے ہیں کہ مغربی قوتوں کا مقصد ان قرضوں کے بدلے پاکستان کا ایٹم بم حاصل کرنا ہے۔ ایک دن آئے گا جب ہم اپنے قرضے ادا نہیں کر پائیں گے تو وہ ایٹم بم مانگ لیں گے یا پھر وہی بات کہ یہ یہود و ہنود کی سازش ہے کہ پاکستان کا وجود ہی نہ رہے‘ لہٰذا اسے قرضوں میں ڈبو دو۔
کسی دور میں عربوں کو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر بڑا فخر تھاکہ ہم مسلمانوں کے پاس بھی یہ صلاحیت ہے اور وہ پاکستان کی کھل کر امداد بھی کرتے رہے۔ اب بدلتے وقت کیساتھ انہیں ہماری ضرورت نہیں رہی۔ عرب ممالک میں اب اسرائیل کے سفارت خانے کھل گئے ہیں‘ ایران اور سعودی عرب نے بھی دوستی کر لی۔ اب بھارت بھی کہہ رہا ہے کہ ہمیں پاکستان کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت نہیں‘ یہ خودکوتباہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔لیکن سوال وہی ہے کہ آئی ایم ایف ہمارا دشمن ہے یا ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو اپنی نالائقیوں اور کرپشن کو چھپانے کیلئے ایک Punching Bagکی ضرورت تھی اور عوام کا رُخ اس کی طرف کر دیا کہ دیکھیں آئی ایم ایف ہمارا دشمن ہے‘ ہم تو بہت اچھے ہیں لیکن آئی ایم ایف ہمیں وہ کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں مجبورا ًبجلی‘ گیس ‘پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانا پڑتی ہیں۔ ہم کیا کریں‘ آئی ایم ایف مجبور کرتا ہے۔
اب آئی ایم کیا سوچتا ہے؟ وہ کہتے ہیں آپ ہمارے پاس ڈالرز مانگنے اس وقت آتے ہیں جب آپ کے پاس ڈالرز ختم ہوتے ہیں۔ دنیا آپ کے ساتھ بزنس نہیں کرناچاہتی۔ آپ ڈیفالٹ ہونے جارہے ہیں۔ آپ کی ایکسپورٹس اس قابل نہیں رہتیں کہ ملکی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ وہ آپ کا ایشو سمجھ کر اپنا فارمولانافذ کرتے ہیں کہ تمہاری نالائقیاں اس حالت میں تمہیں لائی ہے‘ اب ہم تمہیں کچھ چیزیں ٹھیک کر کے دیتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے کہتے ہیں۔ آپ روپے کی ویلیو ڈالر کے مقابلے کم کریں تو عالمی مارکیٹ میں آپ کا ایکسپورٹر زیادہ سستی چیزیں بیچ کر زیادہ ڈالرز کما کر پاکستان لا سکتا ہے اور ان ڈالرز سے آپ بغیرقرضہ مانگے تیل‘ گندم ‘ چینی‘ ایل این جی‘ دوائیاں یا دیگر چیزیں منگوا سکتے ہیں۔دوسرے آئی ایم ایف کہتا ہے آپ جس قیمت پر دنیا سے تیل‘ گیس ‘ بجلی پٹرول خرید رہے ہیں اسی قیمت پر بیچ کر سب سے ٹیکس اکٹھا کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں گاڑیاں تو غیرملکی سفارت خانے استعمال کرتے ہیں۔ جب آپ فی لٹر دس بیس روپے پٹرول سستا بیچتے ہیں تو اس کا فائدہ وہ سفارت خانے بھی اٹھاتے ہیں جنہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ پٹرول دو سو روپے ہے یا ڈھائی سو روپے ۔ اس طرح اس ملک میں ہزاروں ارب پتی ہیں‘انہیں بھی آپ سستا پٹرول ڈیزل دے رہے ہیں اور جو ٹیکس اس پٹرول‘ ڈیزل سے اکٹھا ہوسکتا ہے وہ بھی ضائع جاتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے کونے کونے میں بینکوں کی ہزاروں برانچیں ہیں‘ جہاں گاڑیاں ہیں۔ آپ ان بینکوں کو بھی سستا تیل دے رہے ہیں‘وہ بینک جو سالانہ ایک کھرب تک منافع کماتے ہیں۔جوارب پتی لوگ ہیں وہ بھی دو ڈھائی سو روپے پر سستا تیل خرید رہے ہیں اور ایک موٹر سائیکل والا بھی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ جس بڑے آدمی سے آپ نے تیل پر ٹیکس اکٹھا کرنا ہے‘ اسے سبسڈی دے رہے ہیں۔ اس پر آپ کہتے ہیں اگر تیل سستا نہ کیا یا کیش سبسڈی نہ دی تو ہمارے موٹر سائیکل‘ چھوٹی گاڑی والے متاثر ہوں گے‘ لیکن آئی ایم ایف کہتا ہے کہ آپ پٹرول ڈیزل اس قیمت پر بیچو جس پر خریدا ہے تاکہ آپ کو اربوں روپوں کی سبسڈی نہ دینی پڑے ۔ ہاں جب سب سے ٹیکس اکٹھا کر لو تو پھر آپ ٹارگٹڈ سبسڈی دو۔ آپ غریبوں کی فہرستیں بنائو ‘ ان غریبوں کو ہر ماہ بیس‘ تیس ہزار دے کر اس زیادہ قیمت کا اثر نیوٹرل کر دو اور ساتھ میں یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن میں غریبوں کیلئے آٹا‘ چینی‘ دالیں‘تیل یا کھانے پینے کی چیزوں پر سبسڈی دے دو۔ کبھی آپ نے سنا آئی ایم ایف نے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام یا احساس پروگرام یا یوٹیلیٹی سٹور پر سستی چیزیں یا غریب لوگوں کوہرماہ کیش دینے پر رولا ڈالا ہو؟ حالانکہ یہ بھی تو سبسڈی کا ایک طریقہ ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ آئی ایم ایف تیل‘ ڈیزل‘ بجلی گیس پرسبسڈی کا دشمن ہے لیکن اسے دو سو ارب اٹھا کر کیش کی شکل میں لوگوں میں بانٹنے پر اعتراض نہیں ہے؟وجہ بڑی واضح ہے‘ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معاشی تباہی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جوبڑے لوگ ہیں انہیں آپ غریبوں کے نام پر سبسڈی دے رہے ہیں۔ان بڑے طبقات اور امیر لوگوں سے تو آپ نے ٹیکس لے کر غریبوں پر خرچ کرنا ہے۔ آپ خاک ٹیکس اکٹھا کریں گے جب آپ سفارت کاروں‘ بینکوں‘ پراپرٹی ٹائیکونز اور دیگرامیر لوگوں کو بھی پٹرول‘ ڈیزل سستا کرکے اس قیمت پر بیچ رہے ہیں جو موٹر سائیکل والا خرید رہا ہے۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ جو طبقات تین سو روپے فی لٹر افورڈ کرسکتے ہیں انہیں موٹرسائیکل والے کی وجہ سے پچاس روپے فی لٹر سستا مل رہا ہے۔ آپ کیسے ملک کو چلا رہے ہیں کہ بیرونی دنیا سے تیل‘ گیس ڈیزل مہنگا خریدکر سستا بیچ رہے ہیں۔ آپ یہ سب کچھ ڈالرز میں خریدتے ہیں اور اسے پاکستانی روپے میں سستا کر کے بیچتے ہیں تاکہ آپ کا ووٹ بینک بچا رہے۔ یوں آپ عوام کے وہ پیسے جو ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونے چاہئیں‘ پٹرول اور ڈیزل میں پھونک کرچند دن لوگوں سے واہ واہ کرا لیتے ہیں حالانکہ پٹرول ڈیزل پر ٹیکس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ پیسہ اکٹھا کر کے ان لوگوں اور علاقوں کی ترقی پر خرچ کیا جائے جو پسماندہ ہیں۔آپ اس ٹیکس سے ڈیم‘ سڑکیں‘ سکول‘ عمارتیں یا دیگر ترقیاتی کام شروع کرتے ہیں جس سے معیشت چلتی ہے‘ لوگوں کو روزگار ملتا ہے لیکن آپ کیا کرتے ہیں‘آپ ترقیاتی فنڈ اٹھا کر پٹرول ڈیزل سستا کر کے ایک دو ماہ میں پھونک جاتے ہیں۔( جاری)