پچھلے دنوں یورپ اور امریکہ میں دو بڑی فلموں کی سینما ہاؤسز میں نمائش کی گئی۔ دونوں فلموں کا انتظار ہو رہا تھا کیونکہ ان کا بڑا چرچا تھا۔
لندن آرہا تھا تو سوچا جہاں پرانے دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی وہاں لگے ہاتھوں یہ فلمیں بھی دیکھ لیں گے۔ لندن میرا سات برس بعد آنا ہوا۔ بلکہ ہیتھرو ایئر پورٹ پر امیگریشن افسر نے پاسپورٹ ہاتھ میں لے کر اسے کنگھالا تو حیرانی سے پوچھ لیا کہ آپ سات برس بعد لندن آرہے ہیں؟ آپ کے پاس ویزہ تھا تو اتنے برس کیوں لگے لندن آنے میں؟ مجھے فوراً سمجھ نہ آئی کہ امیگریشن افسر کو اس بات کا کیا جواب دوں۔ شاید اس کے ذہن میں تھا کہ پاکستان میں تو جسے لندن کا ویزہ ملے وہ اگلے دن کی فلائٹ بک کرکے پہنچ جاتا ہے۔ میں خود 2006-07ء میں لندن میں رہتا رہا ہوں جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی وجہ سے لندن پاکستانی سیاست کا گڑھ بن چکا تھا۔ اس کے بعد کبھی کبھار آنا جانا لگا رہتا تھا لیکن آخری دفعہ 2016ء میں لندن گیا تھا۔ شعیب بٹھل‘ صفدر بھائی‘ اظہر جاوید اور مظہر بھائی جیسے لندن کے اکثر پرانے دوست گلہ کرتے تھے۔ کبھی کبھار میں اپنے وہ دن مِس کرتا ہوں جب پرنٹ میڈیا میں کام کرتا تھا۔ دنیا میں کہیں جائیں‘ اپنے ساتھ ایک لیپ ٹاپ لے جائیں اور وہیں سے خبریں یا کالم لکھ کر بھیج دیا کریں۔ ٹی وی جرنلزم نے مصروفیات اتنی بڑھا دیں کہ اب آپ کے پاس ویک اینڈ پر صرف دو روز ہوتے ہیں اور آپ کہیں نہیں جا سکتے۔ خیر اس دفعہ جولائی ایسا آیا جب میں کوئی شو نہیں کر رہا تھا لہٰذااس کا فائدہ اٹھایا اور لندن کی فلائٹ لی۔ اب امیگریشن افسر مجھ سے پوچھ رہا تھاکہ سات برس بعد کیوں؟
میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: وقت نہیں ملا۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا‘ آپ پاکستان میں کیا کرتے ہیں؟ مجھے کچھ شرمندگی ہوئی کہ شاید غلط کہہ دیا کہ بہت مصروف ہوتا ہوں۔ شاید پورا ملک میں نے اکیلے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا اور اگر کچھ آگے پیچھے ہوتا تو خدانخواستہ ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا۔ ہم خود کو ناگزیر سمجھ کر زندگی گزارتے ہیں اور آخر پر پتا چلتا ہے کہ اپنے اپنے زمانوں کے ناگزیر انسانوں سے تو قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ یاد آیا‘ برسوں پہلے واٹر لُو پر آئی میکس سینما میں فلم دیکھی تھی۔ اب کی دفعہ ٹام کروز کی مشن امپاسبل سیریز کی نئی فلم بھی وہیں لگی ہوئی تھی۔ آئی میکس سینما میں فلم دیکھنے کا بھی اپنا سواد ہے۔ فلم سے پہلے صفدر بھائی‘ جواد کاشر اور میں قریب ہی دریائے ٹیمز پر بنے ایک برج پر چلنے لگے۔ کچھ دیر کھلی فضا میں سانس لی ہی تھی کہ سامنے سے آنے والی ایک خاتون کو زاروقطار روتے دیکھا۔ زندگی میں شاید ہی کسی اجنبی خاتون کو ایسے بلک بلک کر روتے دیکھا جسے اپنے اردگرد کی پروا نہیں تھی کہ کون دیکھ رہا ہے یا کوئی کیا کہے گا؟ اس سے زیادہ حیرانی اس بات پر تھی کہ اس کے قریب سے گزرتے لوگوں کو بھی کوئی پروا نہیں تھی کہ وہ کیوں زاروقطار روتی جا رہی تھی۔ میرا اندازہ تھا کہ اسے اپنے گھر سے کوئی بُری خبر اچانک ملی اور وہ دھاڑیں مار کر اکیلے روتی جارہی تھی۔ پاکستان میں لوگ اب بھی کسی کو سڑک پر یوں روتے دیکھ کر پوچھ ہی لیتے ہیں کہ کیا ہوا؟ اور جتنا بس میں ہو مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں کا رواج مختلف ہے۔ میں اور صفدر بھائی چاہنے کے باوجود اس کے قریب جانے کی ہمت نہ کر سکے اور چلے بھی جاتے تو بھی جتنی بری طرح وہ رو رہی تھی وہ شاید بول بھی نہ پاتی۔ اس کی گھگھی بندھی ہوئی تھی۔ فلم دیکھتے ہوئے دماغ اسی طرف لگا رہا کہ پتا نہیں کیا ٹریجڈی ہوگئی تھی۔ اپنی مذمت کی کہ برِج پر جا کر واک کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ خوا ہ مخواہ فلم کا مزہ بھی خراب کیا۔
لندن سے امریکہ جانے کا پلان اچانک ہی بنا۔ ورنہ اس دفعہ کچھ دن لندن ٹھہرنے کا پلان تھا۔ بالٹی مور میں ایک فارم ہاؤس کے مالک فراز گجر کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ فیصل آباد کے ایک گائوں سے نکل کر جس طرح گجر نے اپنی سلطنت وہاں قائم کر لی ہے وہ اپنی جگہ حیرت انگیز کہانی ہے۔ ملاقات تو ان سے پچھلے سال ہوئی تھی لیکن وہ ملاقات شاید دو گھنٹے پر محیط تھی۔ اب کی دفعہ تین چار دن یہیں رہنے کا موقع ملا۔ ہمارے پاکستانی گائوں تو اب برباد ہو چکے ہیں جہاں زمینیں اب دکانوں میں تبدیل ہو گئی ہیں یا پھر زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بن گئی ہیں۔ ملتان کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی یاد آئی جہاں تیس ہزار ایکڑ زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنا دی گئی۔ کچھ ماہ پہلے وہاں جانے کا اتفاق ہوا تو نوے فیصد پلاٹ اور زمین خالی پڑی تھی۔ زرعی زمین فارغ پڑی ہے اور پاکستان نے 2021ء میں دس ارب ڈالرز کی گندم‘ چینی‘ دالیں‘ کاٹن اور آئل بیرون ملک سے منگوایا اور قرضہ لے کر منگوایا۔ اپنی زمینیں پلاٹ بنا کر خالی رکھ چھوڑی ہیں اور بیرون ملک سے کھانے پینے کی اشیا منگوائی جا رہی ہیں۔ اس سے زیادہ ذہین اور سمجھدار بیوروکریسی اور قوم اس کرۂ ارض پر اور کہاں ہوگی۔
میری لینڈ کے ان زرعی علاقوں میں ایک عجیب سکون ہے۔ دور دور تک صاف ستھرا آسمان۔ کسی فارم ہاؤس کے سامنے باڑ یا دیوار تک نہیں۔ میلوں تک سبزہ اور کھیت ہی آپ کا لان ہیں۔ آپ درخت تلے کرسی یا منجی ڈال کر ساری دوپہر گزار سکتے ہیں۔ یہاں گزارے تین چار دن مجھے اپنے پرانے گائوں میں لے گئے جو اب گائوں والوں نے ہر جگہ دکانیں بنا بنا کر تباہ کر دیا ہے۔ چوہدری فراز گجر سے فرمائش کی کوئی سینما ہاؤس بھی اس گائوں کے قریب ہے؟ نئی فلم ''اوپن ہائمر‘‘ دیکھنی ہے جو ٹاپ ڈائریکٹر کرسٹوفر نولن نے بنائی ہے جو ایک امریکی نیوکلیئر سائنسدان کے بارے ہے جس نے پہلا ایٹم بم بنایا تھا جو جاپان پر گرایا گیا اور لاکھوں لوگ مارے گئے۔ انہوں نے بڑی سکرین والا سینما ڈھونڈ نکالا۔ ہاؤس فل تھا بلکہ بعض شوز تو ایڈوانس میں بُک تھے۔
فلم کی کہانی کسی حد تک پاکستانی نیوکلیئر سائنسدان عبدالقدیرخان سے ملتی جلتی ہے۔ تین گھنٹے کی اس فلم میں بہت کچھ دکھایا گیا ہے جسے ایک کالم میں قلم بند نہیں کیا جا سکتا لیکن دو تین سین ایسے ہیں جو آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ایٹم بم گرانے سے پہلے جو طویل بحث و مباحثہ ہوا یا اس بم کا ٹیسٹ کیا گیا۔ لیکن اس سے زیادہ اہم اس فلم کا وہ حصہ ہے جب جاپان بم کے بعد سرنڈر کرتا ہے۔ امریکی صدر ٹرومین اوپن ہائمر کو بلا کر ملاقات کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ مزید کام جاری رکھا جائے لیکن اوپن ہائمر ایک شدید احساسِ جرم کا شکار ہے کہ اس کے بنائے ایٹم بم نے لاکھوں لوگوں کو زندہ جلا کر مار دیا۔ وہ امریکی صدر کی تعریف سے خوش نہیں ہوتا اور کہتا ہے کہ میرے ہاتھوں پر انسانی لہو لگا ہوا ہے۔ اس پر ٹرومین آگے جھک کر طنزیہ انداز میں کہتا ہے: جاپانی آپ کو نہیں جانتے۔ ان کو بس یہی پتا ہے کہ بم مارنے کا فیصلہ صدر ٹرومین نے کیا تھا‘ تم نے نہیں! جب امریکی ایٹم بم جاپان پر مارتے ہیں اور وہ سرنڈر ہو جاتا ہے تو اوپن ہائمر پورے امریکہ کا ہیرو بن جاتا ہے۔ ایک جگہ وہ خطاب کرنے جاتا ہے تو امریکیوں نے نعرے مار مار کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ بھی خود کو ہیرو سمجھ رہا ہوتا ہے۔ ہر طرف تالیاں بج رہی تھیں۔
میں نے ہال میں نظر دوڑائی تو اب خاموشی بلکہ شرمندگی کا راج تھا۔ کوئی ایک امریکی بھی خوش نظر نہیں آرہا تھا۔ 78سال قبل جو امریکی ایٹم بم کے استعمال پر خوشی سے بے حال تھے‘ آج وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس ہال میں خاموش تھے۔ افسردہ تھے۔ غمگین تھے۔ کہیں سے ایک تالی نہیں بجی۔ وقت بدلنے کے ساتھ نئی نسل بھی بدل گئی۔ جن امریکیوں نے 1945ء میں ایٹم بم پر شادیانے بجائے تھے ان کی نسلیں آج شرمندہ بیٹھی تھیں۔