"RKC" (space) message & send to 7575

Karma

آخر اس پارلیمنٹ نے بڑے بڑے اتار چڑھاؤ کے باوجود پانچ سال پورے کر لیے۔ 2008ء کی پارلیمنٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی قربانی دی تو 2013ء کی پارلیمنٹ سے نواز شریف جیل گئے جبکہ 2018ء کی پارلیمنٹ سے وزیراعظم عمران خان بھی جیل میں جا بیٹھے ہیں۔
کل کی بات لگتی ہے جب پندرہ سال پہلے بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد زرداری صاحب نے صدارت اور گیلانی صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیا گیا‘ لیکن ان پندرہ برس میں عجیب کام ہوا۔ ایک کے بعد ایک وزیراعظم برطرف ہوتا رہا۔ جیلوں میں ڈالا جاتا رہا لیکن کسی نہ کسی طرح جمہوریت چلتی رہی۔ گیلانی صاحب گئے تو راجہ پرویز اشرف آگئے۔ نواز شریف برطرف ہوئے تو شاہد خاقان عباسی نے ان کی جگہ سنبھال لی۔ عمران خان کو ہٹایا گیا تو شہباز شریف آگئے۔ یوں ان پندرہ برسوں میں تین کے بجائے ہم نے چھ وزرائے اعظم بھگتا دیے۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ان اقدام سے جمہوریت کمزور ہوئی یا پھر مضبوط لیکن ان تمام تر نازک حالات کے باوجود ملک میں مارشل لاء نہ لگا۔ ان سیاستدانوں نے لیکن آمروں کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ جو رویہ ضیا الحق اور پرویز مشرف نے سیاستدانوں کے ساتھ روا رکھا تھا وہ اب خود ان سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف وہ نفرت عوام میں بھر دی ہے کہ نہ صرف اپنی عزت کھو بیٹھے بلکہ اپنے اختیارات بھی کسی اور کے ہاتھ میں دے بیٹھے۔ آصف زرداری اور نواز شریف کے 2008ء میں سیاسی اتحاد سے کچھ امید پیدا ہوئی تھی لیکن نواز شریف بہت جلدی میں تھے۔ کالا کوٹ پہن کر اسی زرداری اور گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے اور ان کے خلاف میمو گیٹ کمیشن بنوا لیا کہ یہ ملک دشمن ہیں۔ حیرانی ہوتی تھی کہ جو اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کچھ عرصہ قبل گیلانی صاحب کی کابینہ میں وزیر تھے‘ اب وہ سب انہیں عدالت سے برطرف کرانے پہنچ گئے تھے۔ بے صبری اپنے عروج پر تھی۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائی کی روایت لوٹ آئی تھی کہ جب کوئی بھی دو تین سال سے زیادہ وزیراعظم نہ رہ پاتا تھا۔
پرویز مشرف کے بعد کچھ امید پیدا ہوئی کہ اب سیاستدان میچور ہوجائیں گے۔ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں کئی دھواں دھار تقاریرکیں اور غلطیوں کا اعتراف بھی کیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں مشرف کے ہاتھوں احتساب کا شکار تھے لہٰذا دونوں نے ہاتھ ملا لیا۔ بہت جلد عمران خان بھی پرویز مشرف سے ناراض ہو گئے کہ انہیں وزیراعظم نہیں بنایا اور جمالی کو بنا دیا۔ لیکن جونہی پرویز مشرف کا دور ختم ہوا تو ہم نے دیکھا ان سب پارٹیوں نے پھر ایک دوسرے پر تلواریں سونت لیں۔ جنہوں نے پرویز مشرف دور میں سبق سیکھنے کی قسمیں کھائی تھیں کہ وہ جمہوریت کو مضبوط کریں گے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں نہیں کریں گے‘ وہ دوبارہ خفیہ ملاقاتیں کرکے اپنی راہ ہموار کررہے تھے۔ وہی پرانے کھیل‘ ایک دوسرے پر ملک دشمنی اور غداری کے الزامات۔ یہی نواز شریف تھے جنہوں نے گیلانی کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے اور سزا دلوا کر انہیں برطرف کرایا۔ آپ نے سنا ہوگا کہ کارما بذاتِ خود بہت بڑا انتقام ہے۔
کارما پر یقین رکھنے والوں کہنا ہے کہ آپ کو کسی سے بدلہ یا انتقام لینے کی ضرورت نہیں ہے‘ تقدیر اسے اس کے اچھے برے کاموں کا صلہ اسی دنیا میں دے دی گی۔ آپ خوش قسمت ہوئے تو وہ بندہ جس نے آپ کو تکلیف دی ہے‘ اسے اپنی آنکھوں سامنے سب کچھ بھگتتا دیکھ لیں گے۔ اگر آپ کے سامنے اسے سزا نہ بھی ملی تو بھی تسلی رکھیں‘ وہ کہیں نہ کہیں سزا بھگت رہا ہوگا۔ اگر آپ اس قدیم نظریے کو نواز شریف اور عمران خان پر اپلائی کریں تو آپ کو حیرانی ہوگی کہ کیسے کارما نے ان دونوں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا۔ نواز شریف اگر جوش میں گیلانی کو عدالت سے نااہل کرکے تالیاں بجا رہے تھے تو انہیں پتا نہ تھا کہ بہت جلد کارما انہیں بھی ہِٹ کرے گا۔ گیلانی صاحب خوش قسمت نکلے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے ہی نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سے برطرف ہو کر جیل جاتے دیکھا۔ مزے کی بات ہے کہ اس دفعہ عدالت میں نواز شریف کے خلاف پٹیشن لے جانے والے اور کوئی نہیں بلکہ عمران خان تھے۔ پانامہ کیس میں خان صاحب دراصل نواز شریف کے خلاف مدعی بن کر گئے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب سپریم کورٹ نے خان صاحب کی پٹیشن پر وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کرکے ان کے خلاف نیب کو مقدمات قائم کرنے کا حکم دیا تو خان صاحب کے حامیوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔ خود عمران خان کی بھی مٹھائی کھاتے تصویریں وائرل ہوئیں۔ وہی نواز شریف جو گیلانی کو عدالت سے سزا دلوا کر خوش تھے اور جلسوں میں اس چیز کا کریڈٹ لیتے تھے‘ وہی اب کارما کا شکار ہوئے اور وہی سزا بھگتی جو انہوں نے گیلانی صاحب کو دلوائی تھی۔
عمران خان چاہتے تو وہ نواز شریف کے انجام سے سبق سیکھ سکتے تھے۔ وہ اس انجام سے بچ سکتے تھے لیکن جیسے نواز شریف یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ گیلانی کے خلاف حق پر تھے اور سارا انصاف ہورہا تھا‘ اسی طرح عمران خان بھی خود کو حق سچ پر سمجھ کر نواز شریف کے خلاف عدالت جا پہنچے۔ اب کارما کو الزام دیں یا کہیں کہ تاریخ نے خود کو دہرایا‘ عمران خان کے ساتھ وہی ہوا جو نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا۔ اگرچہ الزامات کی نیچر بڑی مختلف تھی لیکن مقدمات میں الزام وہی کرپشن تھا۔ اگرچہ کارما نے اس دفعہ کچھ اور انداز میں عمران خان کو ہِٹ کیا۔ گیلانی اور نواز شریف اگر سپریم کورٹ سے برطرف ہوئے تو عمران خان سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ انہیں لوئر کورٹ سے تین سال کی سزا دے کر فوراً گرفتار کرکے اٹک جیل میں ڈال دیا جائے گا۔
بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ میں ایک بڑی اہم بات کی تھی کہ نواز شریف اور زرداری مریم نواز اور بلاول کے لیے ایسی غلط روایت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔ ان کا مطلب تھا کہ عمران خان کو آپ لوگ جیل میں ڈال کر جا رہے ہیں تو کسی دن یہ باری ان کی بھی لگ سکتی ہے۔ عمران خان کسی دن پاور میں آئے تو وہ بھی انہیں اسی طرح جیل میں ڈال دیں گے۔ بلاول بھٹو کی اس بات میں وزن ہے کہ اس سائیکل کو کون توڑے گا۔ اس وقت آصف زرداری‘ عمران خان اور نواز شریف کی عمریں تقریباً ستر سال یا اس سے زیادہ ہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف کو 40سال اور آصف زرداری کو 35سال اور عمران خان کو 27سال سیاست کا تجربہ بھی اس قابل نہیں بنا سکا کہ وہ بیٹھ کر سیاست کے کچھ رولز آف گیم طے کر لیتے۔ ان سب لیڈروں کو غیرآئینی قوتوں پر زیادہ بھروسہ تھا‘ اپنے سیاسی حریفوں پر نہیں۔ عمران خان نے بھی آصف زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے اندھا دھند مال اکٹھا کرنے کے انجام سے سبق نہ سیکھا۔ وہ بھی اسی رنگ میں رنگے گئے اور انجام بھی وہی ہوا۔
ویسے مجھے ہمیشہ حیرانی ہوتی ہے کہ خدا ان لوگوں کو بادشاہ بناتا ہے‘ انہیں عزت دیتا ہے‘ کروڑں لوگوں کا حاکم بناتا ہے۔ داستانوں میں سنا اور پڑھا تھا کہ بادشاہ کا ہاتھ تو ہمیشہ اوپر رہتا ہے۔ بادشاہ کا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہوتا ہے‘ لینے والا نہیں۔ پتا نہیں ہمارے یہ بادشاہ کیسے تھے کہ وہ بادشاہ بن کر بھی ہاتھ پھیلا کر مال و دولت اکٹھا کرنے میں مصروف رہے۔ خدا نے انہیں پوری سلطنت دے رکھی تھی‘ ان کے نزدیک عزت کمانے سے زیادہ گھڑیاں‘ ہیرے جواہرات‘ نیکلس‘ جینوا میں اسی ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ اور لندن فلیٹس اہم تھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں