سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ حکمرانوں اور بیوروکریٹس نے عوام کی مشکلات کا حل نکالنے کے بجائے ان تمام انرجی بحرانوں کو مال بنانے کا موقع سمجھا۔نواز شریف اور شہباز شریف سے زیادہ شکایت اس لیے بنتی ہے کہ انہوں نے 1997ء میں بینظیربھٹو دور کے پاور پلانٹس میں ہونے والی کرپشن کا پردہ چاک کیا‘ لیکن جب انہیں موقع ملا تو انہوں نے بھی وہی رُوٹ لیاجو بینظیر اور زرداری لے چکے تھے۔مثال کے طور پر 2014ء میں نواز شریف نے قطر سے ایل این جی کے معاہدے کئے تو کراچی میں ایل این جی ٹرمینل لگانے کا منصوبہ بنایا۔شروع میں اس منصوبے کی لاگت تین ارب روپے لگائی گئی لیکن پھر اسے راتوں رات 13 ارب روپے کر دیا گیا۔ کراچی کی ایک بڑی پارٹی کو یہ کنٹریکٹ دیا گیا اور 13 ارب روپے کی سرمایہ کاری کو ڈالرز میں 130 ملین کی سرمایہ کاری ظاہر کیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ پندرہ سال تک روزانہ پونے تین لاکھ ڈالرز اس پارٹی کو دیے جائیں گے‘ اور ان پندرہ برسوں میں اس پارٹی کو کُل ڈیڑھ ارب ڈالرز کی ادائیگی ہوگی۔ چلیں ایک لمحے کے لیے مان لیاکہ وہ ڈالروں میں سرمایہ کاری تھی۔ مگر 130 ملین ڈالرز کے بدلے وہ کمپنی 1.5 ارب ڈالر کا پرافٹ لے گی؟ کبھی آپ نے سنا اتنا بڑا پرافٹ ؟ اس معاہدے میں وہی شرط رکھ گئی جو بینظیر بھٹو اور زرداری نے پاور پلانٹس کے ساتھ طے کی تھی۔Capacity chargesکی کلاز رکھی گئی‘ کہ وہ ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو‘ اس کمپنی کو روزانہ پونے تین لاکھ ڈالرز ملتے رہیں گے۔ ایک سال میں اس کمپنی نے اپنا 13 ارب روپے کا خرچہ پورا کر لیا اور اگلے چودہ سال وہ پرافٹ لیتی رہے گی۔ پچھلے دس سال سے وہ پارٹی روزانہ پونے تین لاکھ ڈالرز لے رہی ہے اور مزید پانچ سال تک لیتی رہے گی۔ اتنا بڑا پرافٹ دیکھ کر ایک اور پارٹی بھی اس میدان میں کود پڑی اور اس نے بھی حکومت سے ایل این جی ٹرمینل لگانے کا معاہدہ کیا جس کے تحت اس پارٹی کو بھی پندرہ سال تک روزانہ دو لاکھ چوبیس ہزار ڈالرز ملتے رہیں گے۔ یوں یہ دو پارٹیاں روزانہ پانچ لاکھ ڈالرز حکومت سے لے رہی ہیں۔یہ معاہدے 2014ء میں نواز شریف دور میں شاہد خاقان عباسی نے کئے تھے جو آج کل ٹی وی پر سنبھالے نہیں جاتے۔
جس پاکستانی کمپنی نے پاکستان میں ٹرمینل پر قطر سے آنے والے ایل این جی کارگو شپ کو سمندر سے ایک پائپ لائن کے ذریعے ری گیسیفائی کر کے سوئی گیس سسٹم میں ڈالنا تھا اسے بھی ڈالروں میں ادائیگی کی ڈیل دی گئی۔ قطر کو ڈالر دینے کی سمجھ آتی ہے کہ آپ ایک غیر ملک سے گیس خرید رہے ہیں لیکن آپ دو پاکستانی پارٹیوں کو کیسے ڈالروں میں ادائیگی کرنے پر راضی ہوگئے ؟ عمومی طور پر گیس اور پٹرولیم سیکٹر میں پرافٹ مارجن پندرہ سے بیس فیصد ہوتا ہے لیکن ان دونوں ڈیلز میں پارٹیوں کو ڈالروں میں 45 فیصد تک پرافٹ دیا گیا۔ان دو پارٹیوں کو ڈالروں میں یہ ڈیل اُس وقت دی گئی جب اسحاق ڈار نے پاکستانی تاریخ کے مہنگے ترین قرضے لیے اورایئرپورٹس اور موٹر وے تک گروی رکھے جارہے تھے۔ اور تو اور ریڈیو پاکستان اسلام آباد اور پی ٹی وی ہیڈکوارٹر کو بھی گروی رکھ کر قرضہ لینے کا پروگرام بن گیا تھا۔ اسحاق ڈار نے پانچ سو ملین ڈالرز یورو بانڈز فلوٹ کئے اور دنیا کی تاریخ کا مہنگا سود ادا کرنے کا معاہدہ کیا۔ ڈار نے وہ پانچ سو ملین ڈالرز بانڈز خریدنے والوں کو 8.25 فیصد پر پرافٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ دنیا کے دیگر ممالک جن میں ترکی بھی شامل ہے‘ نے بانڈز فلوٹ نہیں کئے کیونکہ اس وقت عالمی مارکیٹ فیورایبل نہیں تھی۔ ڈار نے پھر بھی بانڈز فلوٹ کئے اور مہنگا ترین قرضہ لیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب ڈار 8.25 فیصد پر مہنگا قرضہ لے رہا تھا اس وقت بھارت کی ریلائنس کمپنی نے سات سو ملین ڈالرز مارکیٹ سے اکٹھے کیے اور ریٹ 2.25فیصد دیا۔ اندازہ کریں عالمی مارکیٹ میں ایک بھارتی کمپنی کی ریٹنگز ایک نیوکلیئرریاست سے زیادہ نکلی اور کم سود کی ریشو پر قرضہ ملا۔ جب ڈار سے پوچھا گیا کہ اتنا مہنگا قرضہ کیوں لیا گیا تو جواب ملا ہم پاکستان کی عالمی ساکھ چیک کررہے تھے۔ غلطی ہوگئی۔ یہ غلطی نہیں تھی یہ باقاعدہ ایک پلان تھا کیونکہ ایک دن پتہ چلا کہ یہ مہنگے ترین بانڈز خریدنے کے لیے پاکستان سے کچھ بڑے سیاسی لوگوں اور ان کے قریبی دوستوں نے 70 ملین ڈالرز باہر بھیج کر وہ خریدلیے کیونکہ ان پر ملنے والا پرافٹ اتنا زیادہ تھا جو اُن کی سات نسلوں کو سنوار سکتا تھا۔ اس کا مطلب بڑا واضح تھا کہ پاکستان کے اندر موجود لوگوں نے پاکستان کو مہنگی ترین شرائط پر وہ قرضہ دیا تھا۔ بانڈز کے پیچھے یہی لوگ تھے جنہوں نے لمبا مال کمایا۔ جب یہ بات سامنے آئی کہ دراصل کچھ بڑے پاکستانیوں کو فائدہ دینا مقصود تھا تو اس پر سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے اجلاس میں وزارتِ خزانہ کے افسران کو بلا لیا کہ ان پاکستانیوں کے نام کمیٹی کے ساتھ شیئر کئے جائیں جنہوں نے 70 ملین ڈالرز پاکستان سے باہر بھجوا کر وہ بانڈز خرید کر لمبا ہاتھ مارا۔ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے ان پاکستانیوں کے نام کمیٹی کے ساتھ شیئر کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بینکنگ سکریسی قانون کے تحت یہ نام نہیں دے سکتے۔ کمیٹی ممبران کے تمام تر دبائو کے باوجود وقار مسعود نے ان بڑے لوگوں کے نام ظاہر نہیں کئے جنہوں نے مہنگے ترین مارک اَپ پر حکومت پاکستان کو قرضہ دیا تھا۔ اسی ڈاکٹر وقار مسعود کو اب نگران حکومت میں مشیر کا درجہ دیا گیا ہے جو ہمارے فنانشل معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔
وہ بانڈز کن لوگوں نے خریدے تھے‘ چوہدری شجاعت حسین کو ان سب کا علم تھا۔ ایک دن چوہدری شجاعت حسین نے مجھے خود اپنے ایف ایٹ والے گھر میں بتایا تھا کہ وہ چند بڑے لوگ کون تھے جنہوں نے ان بانڈز سے فائدہ اٹھایا۔ چوہدری شجاعت حسین نے جو نام لیے ان میں اکثر وہی لوگ تھے جو یہ بانڈز فلوٹ کرنے کی منصوبہ بندی کے پیچھے تھے اور لاہورمیں ایک بڑے بینک کا مالک بھی ان میں شامل تھا۔
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شاہد خاقان عباسی وہ تین ارب روپے‘ جسے بعد میں راتوں رات 13 ارب کر دیا گیا ‘پی ایس او یا سوئی سدرن گیس سے لے کر یہ ٹرمینل لگواتے تاکہ جو ملک دنیا بھر سے ڈالروں کے مہنگے قرضے لے رہے تھا اس پر ڈالروں کا بوجھ نہ پڑتا۔ لیکن ایک طرف مہنگے قرضے لے رہے تھے تو دوسری طرف روزانہ دو پارٹیوں کو پانچ لاکھ ڈالرز دے رہے تھے اور اب پچھلے دس سالوں سے دے رہے ہیں۔ شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل چاہتے تو پی ایس او کے ذریعے یہ ٹرمینل لگوا کر پاکستان کے روزانہ پانچ لاکھ ڈالرز بچا سکتے تھے۔ آج کل یہ ٹرمینل پرائیویٹ پارٹیاں لگا رہی ہیں اور حکومت پاکستان سے ایک ڈالر یا ایک روپیہ تک نہیں لے رہیں۔ اگر نئی پارٹیاں اس ٹرمینل بزنس میں پیسہ بنا رہی ہیں تو پھر ان دو پارٹیوں کو کیوں پندرہ سال تک پانچ لاکھ ڈالرز روزانہ ادائیگی کی ڈیل دی گئی؟ یا اگر ڈیل دینی بھی تھی تو انہیں پاکستانی روپوں میں دی جاتی۔ چلیں غیرملکی کمپنیوں سے ڈالروں کی ڈیل سمجھ میں آتی ہے لیکن پاکستانی کمپنیوں کو پاکستان کے اندر کام کرنے کیلئے آپ کیسے پانچ لاکھ ڈالرز روزانہ کا معاہدہ کرسکتے ہیں۔ ان ایل این جی ٹرمینلز میں بھی حکمرانوں کی اس طرح بدنیتی شامل تھی جیسے یوروبانڈز میں تھی۔ وہ یورو بانڈز بھی اکثر نے خود خریدے اور یہاں ایل این جی کے فلوٹنگ ٹرمینلز میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔اب آپ یقینا پوچھیں گے کہ ان ٹرمینل معاہدوں کا بجلی مہنگی ہونے سے کیا تعلق؟تو سن لیں کہ بہت گہرا تعلق ہے۔(جاری )