کچھ لوگ بدلتے ہیں لیکن اکثر لوگ ساری عمر نہیں بدلتے۔ میری کولیگ اور شو کی ہوسٹ ربیعہ احسن پوچھنے لگی کہ عمران خان جب جیل میں اکیلے ہوتے ہوں گے تو کیا انہیں احساس ہوتا ہوگا کہ اُن سی کتنی غلطیاں ہوئیں؟ میں نے کہا: دنیا کا مشکل ترین کام اپنا احتساب کرنا ہے۔ میں آپ کا یا کسی بھی بندے کا احتساب کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہوں لیکن میں اپنا احتساب کبھی نہیں کروں گا‘ نہ کسی کو کرنے دوں گا۔ اگرچہ مجھے سب معلوم ہے کہ میں نے کہاں کہاں غلطیاں کی ہیں لیکن میری مردانگی یا اَنا مجھے کبھی اجازت نہیں دے گی کہ میں دوسروں کے آگے اعتراف کروں کہ میں بھی عام انسانوں کی طرح غلطیاں کر سکتا ہوں یا میں بھی مکمل انسان نہیں ہوں۔ اگر عمران خان کو اپنی غلطیوں کا ادراک ہو گا تو بھی وہ سب کے سامنے تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ ڈٹے رہیں گے کیونکہ غلطی تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ آپ بھی ایک عام انسان ہیں۔ پھر آپ کا وہ ایڈوانٹیج ختم ہو جاتا ہے جو آپ کو دوسروں پر حاصل ہے‘ لوگ آپ کو سپر ہیومن سمجھتے ہیں جو کبھی غلطی نہیں کر سکتا۔ آپ اپنے امیج کو ہرٹ ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے خان صاحب کبھی نہیں مانیں گے کہ انہوں نے نہ صرف غلطیاں کیں بلکہ ان غلطیوں کی وجہ سے جیل چلے گئے۔میری کولیگ کا سیاسی جھکاؤ دیگر کئی لوگوں کی طرح عمران خان کی طرف ہے۔ پاکستان کی باقی پڑھی لکھی کلاس کی طرح وہ بھی عمران خان کو ایک ایسا آپشن سمجھتی رہی ہے جو اُن کے نزدیک پاکستان کے سب مسائل کا حل تھا۔ وہ ڈھائی سال سے میرے ساتھ شو ہوسٹ کر رہی ہے لیکن سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلے کے بعد اس نے عمران خان سے مایوسی کا اظہار کیا اور مجھے کہا کہ آپ خان صاحب پر جو تنقید کرتے رہے ہیں وہ کسی حد تک ٹھیک تھی۔آپ ان پر تنقید نہیں کررہے تھے بلکہ وہ گفتگو کرتے تھے جس سے اگر دیکھا جائے تو ان کی سیاسی بھلائی کا پہلو ہی نکلتا تھا۔ میرے شو کی ہوسٹ کا پورا گھرانا عمران خان کا حامی تھا اور اب بھی ہے۔ پچھلے دنوں اس کی بیٹی کی سالگرہ تھی تو مجھے بھی شرکت کی دعوت دی۔ وہاں اُن کی فیملی سے ملاقات ہوئی تو ایک صاحب مجھے کہنے لگے‘ حیرت ہے ربیعہ آپ کے ساتھ شو ہوسٹ کرتی ہے‘ وہ سب گھر والے تو خان کے بڑے حامی ہیں‘ میرا اندازہ تھا وہ بہت جلد آپ کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دے گی کیونکہ آپ کی باتیں عمران خان کے خلاف ہوتی ہیں۔میں نے انہیں بھی کہا کہ میری عمران خان سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟ ہر سیاسی حکمران ہمیں اپنا دشمن سمجھ لیتا ہے کیونکہ کچھ صحافی خوشامد کے اس درجے پر فائز ہونے سے گریزاں ہیں جس پر دیگر فائز ہیں۔ ایک کام ان سیاسی حکمرانوں کا ہے اور ایک کام ہم صحافیوں کا ہوتا ہے۔ سب اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ ضروری نہیں حکمران سو فیصد اچھا یا صحیح کام کررہے ہوں یا ہم صحافی یا اینکرز سب کچھ ٹھیک کررہے ہوں‘ لیکن اپنی اپنی جگہ ہم سب یہی سمجھتے ہیں کہ ہم ہی ٹھیک ہیں اور دوسرے غلط۔خیرمیرے شو کی ہوسٹ کہنے لگی کہ عمران خان نے خود کو سیاسی تنہائی کا شکار کر لیا ہے۔ وہ ہر اس سیاسی فورم سے باہر نکل گئے یا خود کو دور کر لیا جہاں اُن کی ضرورت تھی۔ اگر وہ اسمبلی نہ چھوڑتے تو یہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ شاید نہ بن پاتا۔
مجھے یاد آیا کہ سوموار کے روز جب نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی اینکرز اور کالم نگاروں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی راجہ ریاض بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اس سے ملتا جلتا جواب دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ بلوچستان سے ہیں، راجہ ریاض پنجاب سے‘ وہ سینیٹر اور راجہ ریاض ایم این اے تھے‘ لہٰذا کسی دوستی یا جان پہچان کا بہانہ بھی نہیں کیا جا سکتا‘تو پھر کیسے انہوں نے نگران وزیراعظم کیلئے آپ کا نام دے دیا؟ اس پر نگران وزیر اعظم نے مسکراتے ہوئے کہا :اگر عمران خان اسمبلی نہ چھوڑتے تو یقینا ان کی تعیناتی میں انہیں بھی بڑا رول ادا کرنے کا موقع ملتا۔ بولے: یہ تو عمران خان سے پوچھیں کہ انہوں نے جو جگہ خالی کی اس پر راجہ ریاض بیٹھ گیا۔ لائٹ موڈ میں انوارالحق کاکڑ کہنے لگے: اگر آپ کو بھی پتا چلے کہ ان کے نام کی سرگوشی کس نے راجہ ریاض کے کان میں کی تھی تو انہیں بھی بتا دیجیے گا کیونکہ انہیں بھی اس کی تلاش تھی۔اب وہی بات ربیعہ احسن کررہی تھی کہ ہر جگہ سے خان صاحب غائب پائے گئے جہاں ان کی ضرورت تھی۔
آگے چلیں تو آپ جان پائیں گے کہ بات صرف پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ یا نگران وزیراعظم کے نام تک محدود نہیں‘اور بہت سی جگہوں پر اُن کی ضرورت تھی لیکن خان صاحب ہر وقت یہی سمجھتے رہے کہ اگر میں وزیراعظم نہیں ہوں تو پھر حکومت رہے گی نہ اسمبلی۔ اور تو اور پنجاب اور کے پی اسمبلی بھی نہیں رہے گی۔ اَسی فیصد پاکستان پر اُن کی پارٹی کی حکومت تھی۔ جتنی محنت سے مرکز‘ پنجاب‘ خیبر پختونخوا‘ گلگت اور کشمیر میں حکومتیں بنائی تھیں‘ اس سے زیادہ محنت سے یہ سب ختم کرنے‘ پارٹی لیڈر شپ کو گرفتار کرانے‘ مفرور کرانے‘ ورکرز کے خاندانوں پر عذاب نازل کرانے کے بعد اب خود بھی اڈیالہ جیل میں بیٹھے ہیں اور آج کل ایک ہی تسیبح پڑھ رہے ہیں کہ میں ' کلا ای کافی آں‘۔
جیسے نواز شریف کی غلطیوں کا فائدہ عمران خان کو ہوا‘ وہی فائدہ اب نواز شریف نے اٹھایا ہے۔خان صاحب خوش تھے کہ نواز شریف کے جنرل راحیل اور پھر جنرل باجوہ سے اختلافات ابھرے اور انہیں راستہ ملا۔ بعد میں وہی کچھ خان نے کیا‘ جنرل باجوہ سے ٹکرائو ہوا اور فائدہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اٹھا یا۔اب سوال یہ ہے کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں؟ یہ طے ہے کہ الیکشن ضرور ہوں گے۔ نواز شریف کبھی رِسک لے کر واپس نہ آتے اگر الیکشن نہ ہورہے ہوتے۔ نواز شریف بھی اس صورتحال کا سامنا کررہے ہیں جو کبھی بینظیر بھٹو کو درپیش تھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کی زندگی کو خطرات لاحق تھے‘ انہیں سب نے منع کیا کہ پاکستان مت آئو‘ اس کے باوجود وہ واپس آئیں۔ ان کے قریبی لوگ کہتے ہیں کہ انہیں علم تھا کہ اگر وہ اب واپس نہ گئیں تو ان کی عدم موجودگی میں نہ صرف ان کی پارٹی کے لیے جیتنا ناممکن ہوگا بلکہ شاید پارٹی کا وجود خطرے میں پڑ جائے۔ 2002ء کی طرح پارٹی کے اندر ایک اور گروپ بن جائے گا۔ انہوں نے اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو سامنے رکھ کر پاکستان لوٹنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ مزید پانچ سال دبئی میں بیٹھ کر سیاست نہیں کرسکتی تھیں۔ بینظیر بھٹو کا بڑا مقصد بلاول کو اپنی پارٹی ٹرانسفر کرنا تھا اور اس کیلئے ان کی پارٹی کیلئے 2008 ء کا الیکشن جیتنا ضروری تھا۔
نواز شریف بھی اب باہر بیٹھ کر مزید انتظار نہیں کرسکتے تھے۔ اس سے بہتر سازگار حالات انہیں پھر نہیں مل سکتے تھے‘ جب عمران خان جیل میں ہیں‘ پی ٹی آئی تتر بتر ہوچکی ہے‘ مقتدرہ کے ساتھ خان کی خوفناک دشمنی چل رہی ہے‘ دنیا کے چند طاقتور ممالک ان کی بیک پر ہیں۔ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں وہ شاید پانچویں دفعہ وزیراعظم نہ بن سکیں۔ اس لیے جیسے بینظیر بھٹو نے بلاول تک اپنی سیاسی وراثت ٹرانسفر کرنی تھی اور اس کیلئے رسک لیا ویسے ہی نواز شریف نے مریم نواز کو لیگسی شفٹ کرنی ہے۔
نواز شریف کو بینظیر بھٹو سے بہتر ماحول اور ڈیل ملی ہے۔پرویز مشرف بینظیر کی واپسی کے خلاف تھے جبکہ موجودہ مقتدرہ نواز شریف کے ساتھ ہے۔اب اگر آپ یہ سوال پوچھیں گے کہ کیا 2024ء کا نواز شریف 2013 ء کے نواز شریف سے مختلف ہوگا؟ اس سوال کا جواب پہلے آپ دیں‘ کیا 2013 ء کا نواز شریف 1999ء کے نواز شریف سے مختلف تھا‘جو اب 2024ء میں ہوگا ؟