بہت عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ ہمارے ہاں مزاح کا مطلب دوسرے بندے کو ذلیل کرنا ہوتا ہے‘ جسے ہم مزاحیہ لفظوں کا کَور پہنا دیتے ہیں۔ اگلے بندے کو ذلیل بھی کر لیا‘ چسکا بھی لے لیا اور کہا‘ یار مذاق کررہا تھا۔ آپ نوٹ کریں ہم دوستوں کی محفل میں کسی ایک دوست پر جگتیں کررہے ہوتے ہیں اور باقی دوست ہنس رہے ہوتے ہیں تو مقصد اس کی توہین ہوتا ہے۔ اگرچہ اگلا دوست صبر کر کے خود بھی دانت نکال دیتا ہے کہ چلو یار دوستوں میں گپ شپ چلتی رہتی ہے‘ محفل ذرا گرم رہتی ہے‘ لیکن اندر اندر ہم سب مزے لے رہے ہوتے ہیں۔
اگر کبھی مذاق کا کچھ لیول تھا تو وہ سٹیج ڈراموں نے تباہ کر دیا۔ جُگت کے نام پر گھٹیا جملے بول کر شائقین کو تفریح دینے کی کوشش نے اس مزاح کی خوبصورتی کو تباہ کردیا۔ ان سٹیج ڈراموں میں ذومعنی فقروں پر ملنے والی داد نے ان کا ایسا حوصلہ بڑھایا کہ سٹیج پر موجود کرداروں نے ایک دوسرے کو خوب گالیاں بکیں اور ان کے آگے بیٹھے تماشائی قہقہے لگا کر تالیاں بجاتے رہے۔ عزت کا معیار ہی ان ڈراموں نے بدل دیا۔ کسی کو گالی دینا یا اس کے نام پر جگت لگانا ایک نارمل سی بات مانی جانے لگی۔
مجھے یاد ہے 1990ء کے وسط میں ایک دوست کیساتھ لاہور الحمرا ہال میں ایک سٹیج ڈرامہ دیکھنے گیا تھا۔ وہ میری زندگی کا پہلا اور آخری سٹیج ڈرامہ تھا۔ وہاں جس طرح کی جگتیں لگائی جارہی تھیں میرے جیسا بندہ بھی شرمندہ ہورہا تھا جو برسوں تک ہوسٹل لائف گزار چکا تھا جہاں یار دوست ہر وقت مذاق کررہے ہوتے ہیں۔ یہ جگت اور مذاق کا نیا لیول تھا۔ وہاں ہال میں فیملیز بھی موجود تھیں جو ان جگتوں کو انجوائے کررہی تھیں۔ مجھے اس وقت معیشت کی ڈیمانڈ اور سپلائی کی تھیوری سمجھ آئی کہ جس چیز کی ڈیمانڈ ہوگی وہی مارکیٹ میں بکے گی۔ جس قسم کی جگت لوگ پسند کرتے ہیں وہی اداکار انہیں تفریح کے نام پر پیش کر کے اپنی روزی روٹی کما رہے تھے۔ میں شاید دس پندرہ منٹ وہاں ہال میں بیٹھ سکا اور دوست کو کہا: چلو یار چلتے ہیں‘ کافی مزاح کا مزہ لے لیا اور ہم دونوں ہال سے نکل گئے۔ اس کے بعد کبھی وہاں کا رُخ نہیں کیا۔
اس لیے جب پاکستانی آل راؤنڈر عبدالرزاق نے ٹی وی شو پر اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے پر اپنے تئیں جگت ماری اور ان کے ساتھ بیٹھے دو کرکٹرز نے کھل کر قہقہے لگائے تو مجھے وہی لاہور کا پرانا سٹیج ڈرامہ یاد آیا جب وہاں جگتوں کے نام پر گھر کی عورتوں کا نام استعمال ہورہا تھا اور سب تماش بین ہنس کر داد دے رہے تھے۔لوگ کہتے ہیں رزاق زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا‘ گلی محلے میں اچھا کھیلتا تھا‘ لہٰذا ٹیم میں جگہ بن گئی۔ بلاشبہ وہ کمال آل راؤنڈر تھا بلکہ اس کے بعد پاکستان کو پھر ایسا جینوئن آل راؤنڈر نہیں ملا۔لیکن بعض مذاق ایسے ہوتے ہیں جو ٹی وی شوز میں نہیں کیے جاتے۔ چلیں رزاق زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ میری طرح کبھی لاہور کے سٹیج ڈرامے دیکھ کر جگت سیکھی ہوگی۔ آپ رمیز راجہ بارے کیا کہیں گے جن کا ایک کلپ آج کل وائرل ہے۔
ایک کامیڈی ٹائپ شو میں رمیز راجہ بیٹھے ہیں اور وہاں موجود ایک خاتون مزاح کے نام پر جگتیں مار رہی ہے اور اس کا نشانہ عظیم کھلاڑی ویوین رچرڈز تھا۔ جگت کا موضوع رچرڈز کی بیوی اور بھارتی اداکارہ اور ہدایت کارہ تھی جس سے بعد میں ان کی ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی۔ اس تعلق کو لے کر کلپ میں وہ خاتون رچرڈز پر جو نسلی تعصب پر مبنی جملے کستی ہے اس پر رمیز راجہ کھل کر قہقہے لگا رہے ہیں اور پورا پورا انجوائے کررہے ہیں۔ اب بتائیں رمیز راجہ کم پڑھا لکھا ہے؟ اس کا تعلیمی بیک گراؤنڈ دیکھیں‘ اس کا پوری دنیا میں ایکسپوژر چیک کریں۔ رچرڈز جیسے لیجنڈز کے خلاف 1980ء کی دہائی میں کھیلتے رہے ہیں۔ رچرڈز کوئٹہ ٹیم کے ساتھ پی ایس ایل کے mentore رہے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرتے ہیں۔ اگر رمیز بھی نسلی تعصب پر مبنی جگت کو انجوائے کررہا ہے تو رزاق سے کیا گلہ۔
پاکستانی فاسٹ باؤلر شعیب اختر کو سُن رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ کیسے دانش کنیریا کو پاکستانی ٹیم ممبرز قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ اسے وہاں موجود کھانے شیئر نہیں کرنے دیتے تھے کیونکہ وہ ہندو تھا۔ شعیب نے کہا: اس نے اس کھلاڑی کو اٹھا کر باہر پھینکنے کی دھمکی دی تھی جس نے دانش کو وہاں کھانا پلیٹ میں ڈالنے سے منع کر دیا تھا۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے رول ماڈل ہیں۔ جو عالمی سطح پر پندرہ بیس سال کرکٹ کھیلتے ہیں۔ جو ہر دیس اور شہر پھرتے ہیں۔ جو مختلف کلچر‘ معاشروں‘ مذاہب‘ زبانوں اور نسلوں سے ملتے جلتے ہیں۔ کہا جاتا ہے‘ جو بندہ زیادہ ٹریول کرتا ہے وہ زیادہ بہتر انسان ہوتا ہے۔ اس میں دیگر مذاہب‘ زبانوں‘ کلچر بارے زیادہ برداشت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ سب کو پسند کرتا ہے۔ اسے diversity اچھی لگتی ہے۔ وہ سب کو انسان سمجھتا ہے کسی کو ہندو ‘مسلم سکھ‘ کرسچین کے طور پر نہیں دیکھتا اور نہ ہی اس کے اندر نسلی تعصب پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے کھلاڑیوں کو کیا ہوا ہے؟ بیس بیس سال کرکٹ کھیلنے اور دنیا پھرنے کے باوجود وہ نہیں بدل سکے۔ ان کی سوچ نہیں بدلی۔ رزاق کے ساتھ بیٹھے کھلاڑی اس کی مذمت کرنے کی بجائے قہقہے لگا رہے تھے۔ رمیز راجہ اس خاتون کو رچرڈز پر نسلی تعصب اور اس کے رنگ پر مبنی جگت پر سنجیدہ ہو کر روک نہیں سکتے تھے؟
اب اس رچرڈز کی بیٹی نے رمیز راجہ کے اپنے باپ پر کمنٹس پر مارے گئے قہقہوں پر ٹوئٹ کیا ہے جس میں اس نے رمیز راجہ کو شرم دلانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کھلاڑی عام لوگ نہیں ہیں‘ یہ دنیا بھر میں ہمارے سفیر ہیں۔ انہیں عزت دی جاتی ہے۔ ہمارے بچے انہیں آئیڈل مانتے ہیں۔ ان کی باتوں اور کردار سے ہمارے ملک کی باہر شناخت بنتی ہے۔ جب ڈیڑھ ارب آبادی کے ملک انڈیا نے رزاق کا وہ بیہودہ کمنٹ سنا ہوگا جس پر دیگر کھلاڑی قہقہے مار رہے ہیں ان کا ہمارے بار ے کیا تصور بنا ہوگا کہ یہ ان کے ہیروز ہیں۔ اس طرح جب شعیب اختر کو دانش کنیریا کے لیے لڑتے سنا ہو گا ‘جسے دیگر ٹیم ممبرز کھانا تک ساتھ نہیں کھانے دیتے تھے تو ہمارے بارے عالمی سطح پر کیا سوچا جاتا ہوگا کہ عام لوگ تو چھوڑیں ان کے ہیروز کی یہ حالت ہے۔ رمیز راجہ کے قہقہوں نے لیجنڈ رچرڈز اور اس کی بیٹی کو کتنا دکھ دیا ہوگا۔ ویسٹ انڈیز‘ جہاں کرکٹ کو پوجا جاتا ہے اور رچرڈز ان کے دیوتا جیسا ہے‘ ان کی کیا رائے بنی ہوگی؟ ان کی رنگت جس کا مذاق اڑایا جارہا تھا‘ جس پر راجہ قہقہے لگائے جا رہے تھے ‘ ہوسکتا ہے اس رنگت کے لوگوں نے کبھی رمیز راجہ کی بیٹنگ پر انہیں داد دی ہو جب وہ وہاں کھیلنے گئے ہوں۔
ان چند مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیں بچپن سے‘ گھر سے محلہ‘ معاشرہ‘ سکول‘ کالج اور یونیورسٹی تک کیا سکھایا اور پڑھایا جا رہا ہے۔ کیسے ہمیں دیگر مذاہب اور مختلف رنگ کی قوموں سے نفرت سکھائی جارہی ہے کہ ہمارے کھلاڑی ٹی وی پر بیٹھ کر یہ جملے کستے ہیں اور ساتھی کھلاڑی داد دیتے ہیں۔ میرے دوست جنید مہار نے پچھلے ماہ انڈیا میں جاری ورلڈ کپ میں چند پاکستانی کھلاڑیوں کی باتیں سُن کر کہا تھا کہ ٹیم میں چند پڑھے لکھے کھلاڑیوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے بڑی گہری بات کی تھی جو اب رزاق کی گفتگو سن کر سمجھ آرہی ہے۔ لیکن رمیز راجہ سے زیادہ پڑھا لکھا کون ہوگا جو پوری دنیا پھرنے کے بعد بھی رچرڈز پر لگنے والی نسل پرستی اور رنگت پر مبنی جگت پر قہقہے مار کر بے حال ہورہا تھا۔