آصف زرداری کے حامد میر کو دیے گئے انٹرویو کو سُن کر بہت کچھ یاد آگیا۔ بلاول بارے زرداری صاحب کا کہنا تھا کہ آج کل کے نوجوان بچے سیدھا منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ آپ کو کیا پتہ ہے۔
پہلے تو جنید مہار یاد آئے جو اکثر رات گئے میرے ساتھ آوارہ گردی میں ایک بات بڑے دُکھ بھرے انداز میں دہراتے ہیں کہ یار ہم کیسی نسل ہیں‘ اپنے باپ سے بھی ہم ڈرتے تھے اور اب اپنے بچوں سے بھی ڈرتے ہیں۔ جنید مہار ایک ذہین انسان ہیں جن سے گفتگو کرکے میرے بہت سے concepts کلیئر ہوتے رہتے ہیں۔ ہم دونوں کچھ چیزوں کے بہت شوقین ہیں۔ کتابوں کی دکان پر ہر ہفتے وزٹ کرنا‘کتابیں خریدنا‘ پڑھنا اور پھر ان کتابوں پر سیر حاصل گفتگو کرنا۔ دوسرے‘ آوارہ گردی کرنا کیونکہ خوش قسمتی سے ہمارے پاس ضائع کرنے کو جو چیز وافر مقدار میں میسر ہے وہ وقت ہے۔ آخری شوق ہے رات گئے پٹھان بھائیوں کے کیفے پر بیٹھ کر چائے پینا اور خاموش رہنا اور اچانک کوئی موضوع چھیڑ دینا جس پر کچھ دیر گفتگو جاری رہتی ہے اور پھر مکمل خاموشی۔
خیر ایک دن میرے ساتھ تھے تو ان کے ہینڈسم بیٹے موسیٰ کا میسج آیا کہ رات گھر واپسی پر فلاں کھانے کی چیز لیتے آئیے گا۔ جنید مہار کہنے لگے: اب ذرا اس کا حال دیکھو مجھے کہہ رہا تھا برو Bro۔ کہتا ہے‘ پہلے بھی ایک دن مجھے اس نے برو کہہ کر مخاطب کیا تو میں نے اسے پوری سنجیدگی سے کہا‘ موسیٰ میں تمہارا باپ ہوں‘ پروٹوکول کا خیال رکھا کرو۔ میں تو سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ اپنے باپ اور تمہارے دادا کے سامنے انہیں بابا کہہ سکتا اور تم ہو کہ بڑے آرام سے برو کہہ رہے ہو۔ احترام کا خیال رکھا کرو۔ موسیٰ آگے سے مسکرایا اور بولا: اوکے برو۔ اب جنید مہار کہنے لگا کہ اس اولاد کا کیا کریں کہ جنہیں ہم سے ڈر ہی نہیں لگتا۔ ہمارا بابا تو تھوڑی سی بات پر بھڑک کر اماں کو کہتا تھا‘ جنید ابراہیم کی ماں‘ بیٹے کی بات سنی ہے اور لہجہ ایسا سخت ہوتا کہ کئی دن تک جرأت نہ ہوتی کہ بابا ناراض ہی نہ ہو جائے۔اپنے داجل کے ایک دوست کے والد کا بتانے لگے کہ وہ دونوں گائوں کے دوست اکٹھے ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ایک ماہ وہ گھر نہ جا سکا اور اس نے جنید کو خط لکھ کر دیا کہ یار گھر جا کر میرے والد کو دے دینا اور ان سے میرا خرچہ لیتے آنا۔ ویک اینڈ پر جنید مہار گھر گیا تو وہ اپنے دوست کے گھر گیا۔ وہاں اس کا باپ موجود تھا۔ جنید نے انہیں بیٹے کا خط دیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ہے‘ بتایا کہ ان کے بیٹے نے خط بھیجا ہے وہ خود نہیں آسکا۔ جنید کے بقول اسے آج تک یاد ہے کہ خط کا سنتے ہی وہ بھڑک اُٹھے اوراپنی بیوی کو دیکھ کر زور سے بولے: سنتی ہو۔ تمہارا بیٹا اب جوان ہوگیا ہے‘ اس کی جرأت دیکھو کہ مجھے خط لکھا ہے۔ وہ خط لکھنے لگ گیا ہے۔ کل کو وہ میری داڑھی پکڑے گا۔ اب جنید مہار جو اُس وقت کالج سٹوڈنٹ تھا ہکا بکا کھڑا ان کا منہ دیکھ رہا تھا۔ جنید کو اور کچھ سمجھ نہ آئی تو وہ گھر سے بھاگ کر نکل گیا کہ کہیں چاچا اس پر ہی چڑھائی نہ کر دے کہ وہ کیوں وہ خط لایا۔ جنید کے بقول جب وہ گھر سے نکلا تو وہ ابھی تک اس دوست کی ماں کو کوسنے دے رہے تھے کہ تمہارا بیٹا گستاخ نکلا ہے‘ باپ کو خط لکھتا ہے۔ جنید ہنس کر کہنے لگا: آج میرا وہ دوست اور میں خود اپنے بچوں سے ڈرتے ہیں۔ پہلے ساری عمر باپ سے ڈرتے گزری‘ اب بچوں سے ڈر کر گزرتی ہے کہ وہ فوراً کسی بات پر ردعمل دیتے ہیں‘ جیسے کبھی باپ دیا کرتا تھا۔
باپ گھر میں داخل ہوتا تھا تو یوں لگتا جیسے ایک جابر حکمران آیا ہے۔ ماں سارا دن بچوں کو ڈراتی رہتی کہ ذرا باپ کو آنے دو پھر دیکھنا تمہارا کیا حشر ہوتا ہے۔ یوں بچپن سے ہی بچوں کو پتہ تھا کہ باپ کوئی ایسی مخلوق ہے جس سے انہیں ڈرنا ہے‘ اس کے قریب نہیں جانا۔ شاید ہی کوئی باپ ہو جو بچے کو قریب آنے دیتا ہو۔ شاید گپیں لگاتا ہو۔ اگر کسی میلے ٹھیلے پر بھی لے جاتا تو بھی حدِ احترام سامنے رکھی جاتی۔ بچہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ باپ کے سامنے کوئی بات کر سکے اور باپ بھی سنجیدہ رہتا۔ اگر بچوں کو بھی بات سمجھانی ہوتی تو بھی وہ اپنی بیوی کو کہتا ‘ بشیرے کی ماں ذرا پتر کے لچھن دیکھ رہی ہے۔ اس کو زبان لگ رہی ہے۔ اسے ذرا خود سمجھا دینا ورنہ مجھے تو تم جانتی ہی ہو۔ یوں باپ کا رعب دبدبہ تھا جو بچپن سے جوانی تک قائم رہتا تھا۔ ویسے اس عمر میں پہنچ کر اگر میں نے کسی باپ کا ویسا رعب دبدبہ اپنے بچوں پر دیکھا تو وہ میرے مرحوم دوست انور بیگ کا تھا۔ انور بیگ کے ماشاء اللہ چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ سب جوان اور شادی شدہ ہیں بلکہ نجیب بیگ کے بچوں کی بھی شادی ہو گئی ہے۔ لیکن جتنا میں نے انور بیگ کے بچوں کو اپنے باپ کا احترام کرتے اور ان سے ڈرتے دیکھا وہ کسی کو نہیں دیکھا۔ لیکن اس رعب کے باوجود جتنا پیار بچوں نے اپنے باپ کو دیا وہ اس دور میں حیران کن ہے۔ انور بیگ بیمار ہوئے تو پانچ سال تک کینسر سے لڑائی میں جو خیال ان کے بیٹوں اور بیٹیوں نے رکھا میں نے ان پر رشک کیا۔ وہ اپنے باپ کو ہتھیلیوں پر لیے پھرے اور ایسا خیال رکھا کہ میں نے انور بیگ کو کہا‘ آپ سے زیادہ خوش قسمت انسان شاید ہی کوئی ہوگا جس کے بچوں نے اس کا اتنا خیال رکھا۔ میں نے کہا :آپ ایک سخت باپ ہیں‘اگرچہ آپ نے اپنے بچوں پر بہت انویسٹ کیا‘ انہیں اعلیٰ تعلیم دلوائی اور ہر طرح کا خیال رکھا‘ اب تو وہ خود بال بچوں والے ہوگئے ہیں‘ اب تو انہیں مت ڈانٹا کریں۔ ان کی بیگمات انہیں طعنے دیتی ہوں گی کہ تمہارا باپ اب بھی تم لوگوں کو سب کے سامنے ڈانٹ دیتا ہے۔ بیگ صاحب ہنس کر بولے :چندہ اگر میں انہیں کچھ نہ کہوں تو یہ سب پریشان ہو جاتے ہیں کہ میری طبیعت تو ٹھیک ہے۔ لہٰذا انہیں مطمئن رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ ڈوز دینی پڑتی ہے۔ اور مجال ہے ان کے بچوں نے کبھی آگے سے جواب دیا ہو۔ اکثر ہمارے دوست وسیم حقی بھی انور بیگ کو کہتے: یار اب بچے بڑے ہوگئے ہیں اب تو ڈانٹ ڈپٹ سے باز آ جائو۔ بچے بھی اب اتنے عادی تھے کہ انہیں انور بیگ صاحب کے دوستوں کے سامنے ڈانٹ پڑ رہی ہوتی تو وہ ہنستے ہوئے ہمیں آنکھ مار کر نکل جاتے کہ سنبھالیں اپنے دوست کو۔ انور بیگ جیسا خوش قسمت انسان شاید ہی ہو جس نے بھرپور زندگی گزاری‘ یارو ں کے یار تھے اور ہر مشکل وقت میں آپ کے لیے حاضر۔ ہمارے دوست ڈاکٹر شاہد مسعود نے ارشد شریف کے گھر سالانہ برسی پر گلہ کیا کہ جب میں نے ڈاکٹر ظفر الطاف‘ ارشد شریف اور میجر عامر جیسے سخی دل لوگوں کا ذکر کیا جو دوسروں کو گھر بلا کر کھانا کھلاکر خوش ہوتے تھے تو میں کیسے انور بیگ کو بھول گیا جس کے ہاں ہر ہفتے دوستوں کی پارٹیاں اور کھانا پینا چلتا رہتا تھا۔
اب جب آصف زرداری بھی سر عام کہہ رہے تھے کہ آج کل کے بچے کب باپ کی بات سنتے ہیں۔ وہ اُلٹا کہتے ہیں کہ آپ کو کیا پتہ۔ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ ہمارے بچے بھی ہمیں یہی کہتے ہیں۔ وہی جنید مہار والی بات کہ ہم وہ اداس نسل ہیں جو پہلے اپنے باپ سے ڈرتی تھی‘ جن کی اتنی دہشت ہوتی تھی کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں اور اب ہم اپنے بچوں سے ڈرتے ہیں۔