ہوسکتا ہے آصف زرداری حامد میر کے ساتھ اپنے دو گھنٹے کے طویل انٹرویو میں روایتی حسِ مزاح کا مظاہرہ کررہے ہوں یا پھر اپنے مشہور زمانہ غرور اور تکبر کا مظاہرہ کررہے ہوں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان کی اس بات یا کمنٹ کو کس انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں جو انہوں نے اپنی پارٹی کے راہنما ندیم افضل چن کے بارے میں ٹی وی پر کہے۔ زرداری کا کہنا تھا کہ ابھی تو کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہورہا ہے اور جب حامد میر نے ندیم افضل چن کا نام لیا کہ وہ یہ بات کہتے ہیں تو زرداری نے ان کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا: ندیم افضل چن کو تو بالکل کسی بات کا پتہ نہیں ہے۔
اس کاٹ ڈار جملے کے کئی معنی نکلتے ہیں۔ آپ چاہیں تو اسے ایک مزاحیہ جملہ سمجھ لیں یا پھر ندیم افضل چن پر سخت زبانی حملہ۔ خیر اس معاملے پر رائے دینے سے پہلے میں ہمارے پنڈی کے نوجوان سیاستدان مصطفی نواز کھوکھر کے ٹوئٹس کا حوالہ دینا چاہوں گا۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر زرداری نے یہ جملہ مذاق میں بھی کہا توبڑا غلط موقع چنا ہے کہ اس وقت ملک میں الیکشن ہونے والے ہیں اور ندیم افضل چن نے بہت جلد کمپین پر نکلنا ہے اور ایسے جملے کسی بھی سیاستدان کو سیاسی طور پر ہرٹ کرتے ہیں۔
اگرچہ میری ندیم افضل چن سے بات نہیں ہوئی لیکن کچھ ان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ زرداری کے اس جملے سے خاصے ہرٹ ہوئے ہیں۔ ان کا بھی یہی خیال تھا کہ بغیر نام لیے بات کی جاسکتی تھی۔ ایک پرائم ٹائم شو میں نام لے کر اپنی ہی پارٹی کے بندے کو یوں سرعام ایسی بات کہنا سیاسی طور پر انہیں شاید نقصان دے۔وہی بات کہ حلقے کے لوگ کیا کہیں گے کہ چن صاحب کی زرداری کی آنکھوں میں اتنی اہمیت ہے ؟ خیر میرا اس مشترکہ دوست کو کہنا تھا کہ ندیم افضل چن کو کہیں دل چھوٹا نہ کرے۔ اسی سانس میں زرداری نے اپنے بیٹے بلاول کو بھی رگڑ دیا کہ وہ ابھی پورا سمجھدار نہیں ہوا۔جو بندہ اپنے بیٹے کو ٹی وی پر بیٹھ کر کہہ سکتا ہے کہ وہ ابھی میچور نہیں تو ندیم افضل چن کس کیٹیگری میں آتا ہے۔ حالانکہ جس بیٹے کو امیچور کہا ہے وہ سولہ ماہ اس ملک کا وزیرخارجہ رہا ہے اور وہ نوجوان ابھی چند دن پہلے خود کو بطور وزیراعظم کے امیدوار پیش کر چکا ہے۔ ہوسکتا ہے زرداری صاحب اپنے بیٹے کی ان باتوں سے خوش نہ ہوں جب بلاول نے کہا تھا کہ اب ستر سال والے بابے سیاست چھوڑ کر نوجوان نسل کو موقع دیں۔ سمجھا گیا کہ شاید بلاول کا ٹارگٹ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن تھے۔خیر ندیم افضل چن ایک حساس دل کے مالک ہیں جن کے اندر دیہاتیوں والا کھلا پن صاف نظر آتا ہے۔ میں جن تین سیاستدانوں کی کسی نہ کسی خوبی کا قائل رہا ہوں ان میں اسحاق خاکوانی‘ نواب یوسف تالپور اور ندیم افضل چن شامل ہیں۔ برسوں تک میں خاکوانی صاحب اور نواب صاحب کا فین رہا تو ایک دن خاکوانی صاحب نے پوچھا تو جواب دیا اس لسٹ میں اب جا کر ندیم افضل چن کا اضافہ ہوا ہے۔ میرے پاس ان تینوں کو پسند کرنے کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ ان کی ایسی خوبیوں کا قائل ہوں جو بہت کم سیاسی لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔
ندیم افضل چن سے میرا تعارف اُس وقت ہوا جب اسمبلی میں وہ پہلی دفعہ ایم این اے بن کر آئے اور انہوں نے کھل کر اپنے تقریری جوہر دکھانے شروع کئے۔ ان کی تقریروں نے پارلیمنٹ کے اندر نیا جوش پیدا کیا۔ کھل کر بات کرتے‘ لگی لپٹی کے وہ قائل نہیں ہیں۔ اگر ان کے اندر انقلابی میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو انہوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا ممبر بن کر اپنے جوہر مزید دکھائے۔ ان دنوں چوہدری نثارعلی خان کا طوطی بولتا تھا جو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ چوہدری نثار کو ایک دبنگ چیئرمین سمجھا جاتا تھا جو خوب چڑھائی کرتے تھے اور بیوروکریسی ان سے ڈرتی تھی۔ اور تو اور‘ جو ایم این ایز اس کمیٹی کے ممبر تھے وہ بھی چوہدری نثار علی خان کے دبائو میں رہتے اور انہیں جرأت نہ ہوتی کہ اگر چوہدری نثار نے کوئی بات کہہ دی ہے تو اس کو رد کریں یا اس کا جوابی جواز پیش کریں۔ حتیٰ کہ خواجہ آصف جیسا بندہ بھی چوہدری نثار کو اگنور کر جاتا۔ لیکن اس معاملے میں ندیم افضل چن نے ہمیشہ کھل کر بات کی اور ڈٹ کر چوہدری نثار علی خان کی کمیٹی میں ہمیشہ وہی بات کی جو ان کا خیال تھا کرنی چاہیے۔ جب چوہدری نثار علی خان نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو چھوڑا تو ان کی جگہ چیئرمین ندیم افضل چن کو بنایا گیا تو انہوں نے کمیٹی کو خوب چلایا۔ اگرچہ چوہدری نثار علی خان جیسے دبنگ چیئرمین کے بعد مشکل لگ رہا تھا کہ کوئی کمیٹی کو چلا پائے کیونکہ انہوں نے جو رفتار اور ٹیمپو سیٹ کیا تھا وہ کسی کا اس کے برابر مقابلہ کرنا مشکل تھا۔ لیکن ندیم افضل چن نے وہ بھاری پتھر اٹھایا اور خوب اٹھایا۔
تاہم 2013ء کا الیکشن وہ نہ جیت سکے جس کی وجہ شاید پیپلز پارٹی کی وہ مفاہمتی پالیسی بنی جس نے پنجاب میں پارٹی کو نقصان پہنچایا۔ پنجاب میں پارٹی کا ووٹ بینک کم ہونے سے پارٹی کے بڑے رہنما الیکشن ہار گئے جن کے پاس اب سیاسی آپشن ختم ہورہے تھے۔ ڈاکٹر بابر اعوان سمجھدار تھے۔ انہیں پہلے سے اندازہ ہورہا تھا کہ ہوا کا رُخ بدل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اب نواز شریف کے ساتھ ڈیل کر چکی تھی کہ پنجاب تمہارا اور سندھ ہمارا۔ زرداری اب پنجاب میں وہ رول ادا کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اُن کے نزدیک اٹھارہویں ترمیم کے بعد سندھ ہی کافی تھی جہاں وہ برسوں سے حکمرانی کررہے تھے۔ لہٰذا پہلے بابر اعوان تو پھر ندیم افضل چن نے اپنا سیاسی مستقبل بچانے کے لیے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ ابھی حال ہی میں لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن بھی اسی راہ پر چلے تاکہ پنجاب میں relevant رہ سکیں۔
ندیم افضل چن نے عمران خان کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا لیکن چند خفیہ ہاتھ ان کی چند پارلیمانی تقریروں اور ٹی وی پر کی گئی باتوں سے ناخوش تھے‘ لہٰذا الیکشن ہارے یا ہرائے گئے۔ عمران خان نے خیر انہیں اپنا ترجمان مقرر کیا اور ساتھ ہی وزیر کا درجہ دے دیا۔ ندیم افضل چن تحریک انصاف کے وزیر ہوتے ہوئے بھی پی ٹی آئی کے ہجوم میں خود کو ایڈجسٹ نہ کرسکے۔ وہ پیپلز پارٹی کے کلچر کے دیوانے تھے۔ سیاسی مجبوری انہیں عمران خان تک لے آئی تھی جس پر انہیں کبھی خوش نہ دیکھا۔ وہ پی ٹی آئی کابینہ میں وزیر ہو کر بھی اپوزیشن کا رول ادا کررہے تھے۔ کابینہ کے کئی اجلاسوں میں ان کی حقیقت پر مبنی باتوں پر وزیراعظم عمران خان خود کئی دفعہ ناخوش ہوئے‘ لیکن ندیم افضل چن نے ہمیشہ اجلاس میں کھل کر بات کی۔ وہ سیاسی طور پر میچور انسان ہیں اور عمران خان کو اپوزیشن سے لڑائی جھگڑے سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے ۔کابینہ کے اجلاسوں میں ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔ آخر ایک دن عمران خان نے سب وزیروں کو کہا کہ جائیں اور پارٹی پالیسی کے تحت عثمان بزدار کا دفاع کریں۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب عمران خان نے کوئٹہ میں مظلوم ہزارہ لوگوں کی دادرسی کے لیے جانے سے انکار کر دیا کہ وہ لاشوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔ ندیم افضل چن نے اس ایشو پر آواز اٹھائی تو کا بینہ اجلاس میں ہی وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جس وزیر کو ان کی باتوں سے اختلاف ہے وہ بے شک چھوڑ دے۔
پوری کابینہ میں پن ڈراپ خاموشی تھی۔ اب کون وزیراعظم کو جواب دے اور اپنی وزارت سے ہاتھ دھوئے۔ سب چپ تھے۔ ندیم افضل چن نے آخری دفعہ وزیراعظم عمران خان کو دیکھااور وہیں بیٹھے بیٹھے فورا ً فیصلہ کیا جس نے چند گھنٹے بعد اُن کی قسمت بدل دینی تھی‘ جس کا اندازہ وہاں بیٹھے وزیروں میں سے کسی کو نہ تھا کہ چن کیا نیا چن چڑھانے والا ہے۔(جاری)