ندیم افضل چن کافی عرصے سے خود کو اس پورے منظر میں مِس فٹ محسوس کر رہے تھے۔ عمران خان کی کابینہ میں شامل وزیروں میں جب خوشامد کا مقابلہ ہوتا تو انہیں لگتا کہ وہ غلط جگہ پھنس گئے ہیں۔ ہر سیاسی لیڈر اپنے ورکرز اور پارٹی رہنماؤں سے جن تین چیزوں کی توقع رکھتا ہے ان میں خوشامد‘ وفاداری اور قربانی شامل ہیں۔ چلیں وفاداری اور قربانی تک تو ٹھیک ہے لیکن کون روز روز خوشامد کرے۔ تب مگر عالم یہ ہو چکا تھا کہ کابینہ اجلاس سے پہلے بھی خوشامد کا دور چلتا‘ پھر پارٹی کے چند سرکردہ رہنما وزیراعظم آفس میں اکٹھے ہوتے تو وہاں خوشامد کا ایک اور سیشن چلتا اور پھر اس کے بعد سب ترجمانوں کو اجلاس کے نام پر شام کو بنی گالا بلا لیا جاتا جہاں ایک دفعہ پھر وہ خوشامدی طبلے پر سنگت دیتے۔ عقل اور سمجھ کی سیاسی باتوں سے سب کو بیر تھا۔ عقل اور سمجھ کی باتیں کرنا ان اعلیٰ سطحی محفلوں میں سختی سے ممنوع تھا۔ صرف ان ترجمانوں یا پارٹی رہنمائوں کی بات پر توجہ دی جاتی جو سیاسی مخالفین کو تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے یا پھر ٹویٹر پر اور ٹی وی شوز میں مخالفین کو اگر تھپڑ مکے نہیں مار سکتے تھے تو کم از کم ایسی گفتگو ضرور کرتے تھے کہ مخالف پارٹی کا بندہ یا اینکر اور صحافی کئی دن تک اس درد کو محسوس کرتا رہتا۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا ٹیمیں پوری کر دیتی تھیں۔ پارٹی کے وٹس ایپ گروپس میں اور ٹویٹر پر سارا دن پارٹی کے وزیر اور دیگر اہم لوگ اپنی وفاداری‘ خوشامد اور قربانی کے ثبوت کے طور پر اپنے پروگرامز میں شرکت کے کلپس‘ جن میں دوسروں کو رگڑا لگایا جاتا تھا‘ شیئر کرتے اور داد پاتے تھے۔ دیگر لیڈرز‘ جو شرم و حیا پر یقین رکھتے تھے‘ وہ نہ صرف بیک بینچرز بن چکے تھے بلکہ پارٹی کے اہم معاملات میں ان کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔
ندیم افضل چن کے ساتھ دو تین مسائل تھے۔ ایک تو وہ پی ٹی آئی کے بانی اراکین میں شامل نہیں تھے۔ وہ پیپلز پارٹی سے آئے تھے لہٰذا لوگ ان کو پی ٹی آئی جوائن کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی کا حصہ سمجھتے تھے۔ پھر وہ پی ٹی آئی ٹکٹ پر الیکشن بھی نہ جیت سکے تھے حالانکہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی جوائن کرنے کی وجہ یہی تھی کہ پیپلز پارٹی نے جب سے (ن) لیگ کیساتھ مفاہمت کی تھی‘ اس کے بعد ان کی پارٹی کا ووٹ بینک پنجاب میں کم ہوگیا تھا اور اب پیپلز پارٹی کے ووٹ پر سیٹ نکالنا مشکل تھا۔ پیپلز پارٹی کے جن چند لوگوں نے پنجاب سے سیٹیں جیتی تھیں‘ پارٹی سے زیادہ ان کا ذاتی ووٹ تھا۔ اس لیے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے اکثر لیڈرز نے دیگر پارٹیوں کا رُخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ نوجوان نسل عمران خان کی گرویدہ ہو چکی تھی‘ بلاول اور مریم نواز کے پاس اس نسل کو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اپنے حلقے کی سیاست نے ندیم افضل چن کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر عمران خان کو جوائن کریں۔ اگرچہ ان کے قریبی لوگوں نے ان کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی لیکن پاور پالیٹکس اور نظریاتی سیاست میں پاور پالیٹکس کا پلڑا بھاری رہا اور ندیم افضل چن نے خان کو جوائن کر لیا۔ چن کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ اب پیپلز پارٹی میں نظریات کی گنجائش نہیں رہی‘ اس کی قیادت کے نزدیک سیاست کا مطلب محض اقتدار تھا۔ اگر آپ قومی اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں تو آپ کی بات میں وزن پیدا ہو جاتا ہے اور لوگ آپ کو توجہ سے سنتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ بڑے فلاسفر اور انقلابی ہیں لیکن اپنا حلقہ نہیں جیت سکتے تو پھر آپ کی بات کتنی ہی اہم اور کام کی ہو‘ اس پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔ چن صاحب کو بھی اس صورتحال کا سامنا تھا کہ وہ ایک سیاسی گھرانے سے تھے۔ ان کے والد صاحب کی علاقے میں بڑی عزت تھی۔ پھر پیپلز پارٹی میں بڑا عرصہ گزارنے کے بعد ان کا ذہن سیاسی تھا اور وہ عمران خان کو اکثر سیاسی مشورے دینے کی کوشش کرتے کہ آپ کو سیاسی مخالفین کے ساتھ بات چیت کرتے رہنا چاہیے۔ آپ اپنے اوپر سب دروازے بند نہ کریں۔ اس وقت طاقتور آپ کو سپورٹ کررہے ہیں تاکہ آپ سیاسی مخالفین کو رگڑا دیں لیکن کل کو اگر آپ کے سیاسی مخالفین کو بھی ان کی سپورٹ مل گئی تو وہ آپ کو رگڑا دیں گے۔ لہٰذا سیاست میں اتنا زہر بھرنے اور ذاتی دشمنیاں پالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسحاق خاکوانی بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے اردگرد موجود لوگ حتیٰ کہ ان کے وزیر بھی سیاسی ذہن کے مالک نہ تھے۔ اسحاق خاکوانی کو یہ علم نہ تھا کہ ندیم افضل چن جیسے ایک‘ دو سمجھدار لوگ اگر عمران خان کو سمجھاتے بھی تھے کہ وہ اتنی دور نہ جائیں جہاں وہ اکیلے رہ جائیں تو وہ ان کی بات نہیں سنتے تھے۔
اس نقار خانے میں ندیم افضل چن کی آواز کو کبھی سیریس نہیں لیا گیا۔ وجوہات وہی تھیں کہ ایک تو وہ خوشامدی نہ تھے‘ دوسرے ان کی وفاداری پر بھی شک تھا کہ وہ نئے نئے پی پی پی سے آئے تھے اوراپنی سیٹ بھی نہیں جیت پائے تھے‘ پھر ان کا عہدہ بھی وفاقی وزیر کے بجائے وزیراعظم کے مشیر کا تھا۔ ایک منتخب وزیر اور ایک سیاسی مشیر کے درمیان بہت فرق تھا۔ لہٰذا اگر کبھی ندیم افضل چن نے یہ فرق دور کرنا بھی چاہا تو انہیں سپیس نہ ملی‘ ان کی باتوں کو کبھی سیریس نہ لیا گیا یا انہیں وہی طعنہ سننے کو ملا کہ ان کے اندر کا جیالا ابھی زندہ ہے اور وہ تحریک انصاف کے کلچر سے ابھی واقف نہیں ہیں۔ یوں خوشامد کے مقابلے میں‘ جو خان کو 'مارو یا مر جاؤ‘ کی طرف لے کر جا رہی تھی‘ ندیم افضل چن کی صلح صفائی والی باتیں خان کو ناگوار گزرتی تھیں۔ اوپر سے ندیم افضل چن ایک کسان ہے اور دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا اسے اپنے علاقے کے غریبوں‘ مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کا علم تھا۔ کابینہ میں کئی دفعہ طاقتور مافیاز اور گروپس سے کابینہ اجلاسوں میں چن کی لڑائی اور پھڈے بھی ہوئے۔ وہ کسانوں کے لیے آواز اٹھاتے‘ چاہے گندم اور گنے کی سپورٹ پرائس ہو یا پھر پھُٹی کا ریٹ۔ پھر ندیم افضل چن کی بیوروکریسی سے زیادہ نہ بن سکی کیونکہ وہ ان کے ساتھ بھی کسانوں اور دیہاتیوں کے ایشوز پر سینگ پھنسا بیٹھتے تھے۔ یوں عمران خان کی کابینہ میں وہ اگر کسانوں اور مظلوموں کی اکیلی آواز نہیں تھے تو کم از کم طاقتور آواز ضرور تھے اور کئی طاقتور لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔ ان کا سادہ اور سیدھا انداز بھی بہت ساروں کو ناگوار گزر رہا تھا۔
ندیم افضل چن لیکن ان تمام باتوں سے بے پروا ہو کر سب سے سینگ پھنسا لیتا تھا۔ اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو عمران خان نے اپنے وزیروں کو یہ کہہ کر پوری کر دی کہ وہ کوئی اور کام کریں یا نہ کریں لیکن ٹی وی شوز میں جا کر پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی خوب تعریف کیا کریں۔ اُس کی وہ خوبیاں بیان کریں جن کا خود بزدار تک کو علم نہ تھا۔ ندیم افضل چن‘ جو پہلے ہی اس پارٹی میں اپنا مستقبل نہیں دیکھ رہے تھے‘ اب انہیں پیپلز پارٹی کے پرانے دوستوں کی یاد ستانے لگ گئی تھی جو اکثر شام کو ان کے فلیٹ پر پائے جاتے تھے۔ وہ عثمان بزدار کی تعریف کرنے سے انکاری ہو گئے کہ ان کے نزدیک بزدار نے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا تھا جس پر انہیں داد دی جاتی۔ پھر ایک دن ندیم افضل چن نے اپنی فیملی کے ساتھ اپنا راز شیئر کرنے کا فیصلہ کر ہی کیا‘ لیکن چن کو اندازہ نہ تھا کہ ان کی اس بات پر گھر سے اتنا بڑا ردِعمل آئے گا کہ گھر میں دارڑ ہی پڑ جائے گی۔ (جاری)