پھر وہی الیکشن اور وہی پرانے کھلاڑی اور پرانا ماحول۔ مزے کی بات ہے کہ اعتراضات بھی وہی پرانے ہیں جنہیں سُن اور پڑھ کر پہلے ہنسی اور پھر رونا آتا ہے۔ہر پانچ سال بعد اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ الیکشن کون کرائے گا۔ فوج‘ عدلیہ یا ڈپٹی کمشنر۔جو بھی الیکشن کرائے سیاستدانوں نے اعتراض ہی کرنا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔
2013ء کے الیکشن میں جب نواز شریف جیتے تھے تو عمران خان نے ایک بڑی تحریک چلائی تھی کہ ان کے خلاف دھاندلی ہوئی اور دھاندلی کرانے کا الزام انہوں نے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری پر لگایا کیونکہ الیکشن عدلیہ نے کرائے تھے۔ عدلیہ کے الیکشن کرانے کا مطلب تھا کہ لوئر جوڈیشری سے ججز کو یہ رول دیا گیا تھا۔ اُس وقت عمران خان کو اعتراض تھا کہ عدلیہ کی نگرانی میں الیکشن نہیں ہونے چاہئیں تھے۔ اُس وقت وہ فوج کی نگرانی میں الیکشن چاہتے تھے۔ جب 2002ء میں مشرف تھے تو ایک طرح سے انتخابات اُن کی سربراہی میں ہورہے تھے کیونکہ آرمی کی براہ راست حکومت تھی۔ اُن انتخابات پر بڑا اعتراض نواز شریف کوتھا اور انہوں نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ نواز شریف کو اس وقت دو بڑے سیاسی نقصان ہوئے ۔ ایک تو ان کی پارٹی توڑ کر اس میں سے (ق) لیگ نکالی گئی‘ دوسرے ان کی پارٹی جسے 1997ء میں دو تہائی اکثریت ملی تھی‘سترہ‘ اٹھارہ سیٹوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اس کا الزام انہوں نے مشرف پر لگایا کہ انہوں نے دھاندلی کی۔ اور تو اور 2008ء کے الیکشن میں چوہدری پرویز الٰہی جو مشرف کی وجہ سے پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے‘ وہ بھی مشرف پر الیکشن ہرانے کا الزام لگاتے تھے۔ چوہدری پرویز الٰہی کا دعویٰ تھا کہ وہ الیکشن جیت رہے تھے انہیں مشرف نے امریکہ کے کہنے پر ہرایا کیونکہ ان کی بینظیر بھٹو اور زرداری سے ڈیل ہوگئی‘ جنہوں نے انہیں صدر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ بات چوہدری پرویز الٰہی ہم صحافیوں کو بتاتے تھے۔ ایک دور تھا جب مشرف کی وجہ سے چوہدری صاحبان‘جو مشرف دور میں نیب کے ملزم تھے‘ پاکستان کے سیاسی گاڈ فادر بن گئے۔ ایک وزیراعلیٰ تو دوسرا نگران وزیراعظم بن گیا‘ لیکن مشرف کے زوال کے ساتھ ہی چوہدری پرویز الٰہی صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں مشرف بارے وہ گفتگو کرتے کہ اللہ کی پناہ۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ سیاستدانوں کے اندر کسی کے لیے شکر گزاری کے جذبات نہیں ہوتے۔ مشرف ہوسکتا ہے دوسروں کے لیے برے ہوں لیکن چوہدریوں کے ساتھ تو اچھے رہے تھے۔ اب وہ اپنے سروائیول کیلئے بینظیر بھٹو سے ہاتھ ملا رہے تھے تو چوہدری صاحبان نے ان کا کچا چٹھاکھول دیا قبل ازیں چوہدری پرویز الٰہی مشرف کو دس دفعہ وردی میں صدر بنوانے کی قسمیں کھاتے تھے۔ یہ باتیں بتانے کا مقصد سیاستدانوں کے مزاج بارے آگاہی دینا ہے کہ جو بھی قریب آئے اسے استعمال کرنا اورپھر ڈسٹ بن میں پھینک دینا۔
اس طرح آپ کو یاد ہوگا2018 ء کے الیکشن رزلٹ پر نواز شریف اور زرداری کو اعتراض تھاجب عمران خان کو جتوایا گیا اور الزام لگا کہ RTS سسٹم بٹھا دیا گیا تھا۔ اُس وقت ایک سابق جج صاحب الیکشن کمشنر تھے۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض اُس وقت الیکشن کرا رہے تھے۔اُس وقت عمران خان کو جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا کرایا گیا انتخاب اچھا لگ رہا تھا کیونکہ وہ جیت رہے تھے۔ اس پر بلاول نے عمران خان پر سلیکٹڈ کا الزام لگایا تھا۔اب کیونکہ نواز شریف کی اوپر ''گل ہوگئی اے‘‘لہٰذا ابھی سے کہا جارہا ہے کہ الیکشن انہوں نے جیتنا ہے۔ اس پرپی ٹی آئی خفا ہے۔ خوش تو پیپلز پارٹی بھی نہیں۔ وہ بھی یہی بات کہہ رہے ہیں کہ انہیں لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہی۔ اب کی دفعہ عدلیہ کی بجائے الیکشن ایگزیکٹو کرا رہے ہیں اور عمران خان کی پارٹی جو2013 ء میں عدلیہ کے تحت الیکشن کرانے کے خلاف تھی‘ چاہتی ہے کہ ججز ہی الیکشن ڈیوٹی دیں۔ان کا کہنا ہے کہ جو ڈپٹی کمشنر ایم پی او کے تحت ان کی پارٹی کے لوگوں کی گرفتاری کے احکامات دے رہے ہیں وہ کیسے فری اینڈ فیئر الیکشن کرا سکتے ہیں؟ انہیں یہ بھی خوف ہے کہ شریف خاندان اچھی طرح جانتا ہے کہ کیسے بیوروکریسی کو اپنے حق میں استعمال کرنا ہے۔یہ تاثر بھی گہرا ہے کہ اگلا الیکشن نواز لیگ جیت رہی ہے‘ لہٰذا بیوروکریسی کبھی بھی کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جس سے انہیں لگے کہ کل کلاں پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت بننے سے ان کی ٹرانسفر پوسٹنگ اور پروموشن کو مسائل ہوں گے۔ ویسے بھی پنجاب میں سب بیوروکریٹ ن لیگ کے ساتھ ہی کمفرٹ ایبل محسوس کرتے ہیں یا وہ جانتے ہیں کہ ان ساتھ ہی چلنا ہے‘ لہٰذا ان کے ساتھ تعاون کرو۔ ان بیورو کریٹس کو علم ہے کہ طاقتور ادارے فیصلہ کر چکے ہیں کہ نوازشریف کو لانا ہے تو پھر وہ کہاں تک مزاحمت کرسکتے ہیں اور مزاحمت کریں بھی تو کس کے لیے۔عثمان بزدار کو واپس وزیراعلیٰ بنوانے کیلئے جو الیکشن جیتنے کی شکل میں عمران خان کا دوبارہ پہلا چوائس ہوں گے چاہے وہ پارٹی چھوڑ ہی کیوں نہ چکاہو۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ سے الیکشن کمیشن کے خلاف سٹے لے لیا تھا‘ اس خطرے کے پیش نظر کہ ڈپٹی کمشنرز نے الیکشن کرائے تو ان کی پارٹی کے ساتھ دھاندلی ہوگی۔عمران خان کو 2013ء میں عدلیہ کی نگرانی پر اعتراض تھا بلکہ دھاندلی کا سارا الزام اُن پر لگایا تھا‘جس پر بعد میں لانگ مارچ بھی ہوئے‘ دھرنے بھی دیے گئے‘ درجن بھر لوگ مارے گئے‘ سینکڑوں زخمی ہوئے اور کئی گھر اجڑگئے‘ لیکن آج خان کی پارٹی اس عدلیہ سے کہہ رہی ہے کہ آپ الیکشن کرائیں۔2018ء کے الیکشن میں عمران خان کو فوج کی زیرنگرانی الیکشن کرانے پر اعتراض نہیں تھا کیونکہ اس وقت کی فوجی قیادت سے معاملات طے ہوچکے تھے کہ وہ وزیراعظم بنیں گے اور پھر وزیراعظم بن کر جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع دیں گے اور ان کی ریٹائرمنٹ پر نومبر 2022ء میں جنرل فیض آرمی چیف ہوں گے۔ شاید انہیں یہ بھی لگتا تھا کہ 2023 ء کا الیکشن جنرل فیض جتوا دیں گے اور 2028ء تک وہ وزیراعظم رہیں گے۔ اس پورے کھیل میں زیادہ خوش قسمت جنرل باجوہ ہی نکلے جنہوں نے اس ڈیل میں سے اپنا حصہ پورا لیا۔ عمران خان اور جنرل فیض ہاتھ ملتے رہ گئے۔آج وہی عمران خان فوج کی زیرنگرانی الیکشن کرانے کے حق میں نہیں جو پانچ سال پہلے فوجی قیادت پر صدقے واری ہورہے تھے۔یوں محض اپنے مفاد کی بات ہے۔ مفاد میں تھا تو عدلیہ کے نیچے الیکشن کرانے کے سخت مخالف تھے‘ آج مفاد بدلا ہے تو اسی عدلیہ کے سب سے بڑے حامی ہیں اور لاہور ہائی کورٹ سے آرڈر تک لے لیا۔
ہم عجیب منحوس سائیکل میں پھنس گئے ہیں۔ نواز شریف‘ عمران خان اور بلاول کے نزدیک کوئی ادارہ قابل بھروسا نہیں رہا جو الیکشن کرا سکے۔ ان تینوں کے نزدیک الیکشن اس وقت ہی شفاف ہوسکتے ہیں جب صرف وہ وزیراعظم بنیں۔ اگر کوئی اور وزیراعظم بنا تو پھر اداروں نے دھاندلی کی ہے۔دھاندلی کے الزامات سے اسی طرح چھٹکارا مل سکتا ہے کہ نواز شریف‘ عمران خان اور بلاول تینوں کو اکٹھے وزیراعظم بنا دیں۔ یہ تینوں روز وزیراعظم ہاؤس الگ الگ دفاتر میں بیٹھا کریں‘ محفلیں سجائیں‘ دنیا بھر سے خوشامدی اکٹھے کریں‘ اپنے اپنے شاہی درباروں کو رونق بخشیں‘ اپنے اپنے درباریوں سمیت اور مزے کریں‘ پھر ہی ملک کو سکون مل سکتا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ کیا حماقت ہے۔ حماقت سمجھیں یا بونگی لیکن اس کا یہی حل ہے ورنہ اقتدار کے بھوکے سیاستدان فروری کے بعد نیا طوفان اٹھائیں گے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔اس ملک میں جہاں روزانہ بونگیاں وج رہی ہیں وہاںاس بونگی کو بھی برداشت کر لیں۔ایک گناہ اور سہی۔ ایک بونگی اور سہی۔