الیکشن کی تاریخ قریب آتے ہی سیاست میں ہنگامہ خیزی تیز ہونا شروع ہو گئی ہے۔ جہاں سائفر کیس میں عمران خان کو غیر متوقع طور پر ضمانت مل گئی وہیں تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان بلے سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ ابھی یہ انتخابی نشان والا معاملہ عدالت جائے گا ‘ ممکن ہے عدالت الیکشن کمیشن کا فیصلہ بدل دے۔ اگرچہ کہا جارہا ہے کہ جو سائفر پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سزا دلوانا چاہتے تھے وہ اس ضمانت کے فیصلے سے خاصے غصے میں ہیں یوں سپریم کورٹ کے دوپہر کے فیصلے کا بدلہ شام کو الیکشن کمیشن کے ذریعے لے لیا گیا۔ آنے والے دنوں میں لڑائی مزید بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ نامزدگی کے پیپرز جمع کرانے کی تاریخ ختم ہونے کے بعد سکروٹنی کا عمل شروع ہوگا اور جو امیدوار بچ گئے ہیں ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ آزاد الیکشن لڑیں۔ اگر وہ جیت گئے تو وہ چاہے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ہوں‘ انہیں کنٹرول کرنا آسان رہے گا۔ بطور آزاد امیدوار وہ اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے‘ چاہے وہ الیکشن مہم میں لاکھ کہتے رہیں کہ سیٹیں جیت کر خان کے قدموں میں ڈال دیں گے۔ ان آزاد لوگوں پر جہاں اداروں کا دبائو ہوگا وہیں انہیں بھی علم ہوگا کہ عمران خان تو اب وزیراعظم بننے سے رہے‘ وہ کیوں اپنے اقتدار کے پانچ سال ضائع کریں؟ آزاد ارکان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا وہ کسی جماعت کو جوائن کر لیں انہیں کوئی لوٹا نہیں کہے گا اور یوں وہ اپنی اچھی قیمت لگوا سکیں گے۔ دوسری طرف جو قوتیں عمران خان کو باہر کرنا اور نواز شریف کو اقتدار میں لانا چاہتی ہیں ان کاکام آسان ہو جائے گا۔ اس لیے آزاد امیدواروں کی جہاں بڑی تعداد آپ کو اس الیکشن میں نظر آئے گی وہاں پی ٹی آئی کے ووٹر کے لیے بڑی کنفیوژن پیدا ہونے والی ہے۔ بلے کا نشان اگر نہ ملا تو پی ٹی آئی کا ہر امیدوار مختلف نشان پر لڑے گا اور آپ سب لوگوں کو نہیں سمجھا سکیں گے کہ ان کا نشان کون سا ہے اور پندرہ بیس امیدواروں اور ان کے نشانات میں سے اپنے پسندیدہ بندے کا نشان ڈھونڈ کر اس پر مہر لگانا اچھا خاصا مشکل کام ہوگا۔ خصوصاً اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ہر حلقے میں نشانات مختلف ملے تو سب سے زیادہ پی ٹی آئی کی خواتین ہی اس کی زد میں آئیں گی کیونکہ انہیں مہر لگاتے وقت بیس پچیس نشانات میں سے پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ ڈھونڈنا ہوگا۔ دیہات میں یہ کا م مزید مشکل ہوگا کیونکہ وہاں خواتین اتنی دلچسپی سے الیکشن پراسس میں حصہ نہیں لیتیں۔ اکثر جو ووٹ ضائع ہوتے ہیں دیکھنے میں آیا ہے وہ خواتین یا بزرگوں کے ووٹ ہوتے ہیں۔
اگرچہ اب یہ بحث پرانی ہوچکی کہ جو حالات یہاں تک پہنچے ہیں اس میں کون زیادہ قصور وار ہے ؟ پی ٹی آئی یا مقتدر حلقے؟ صاف ظاہر ہے جس کا جس طرف رجحان ہے وہ اُسے سچا سمجھے گا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 22اپریل 2022ء کے اپنے ایک پروگرام میں فواد چوہدری صاحب میرے ساتھ موجود تھے اور خاصی سخت باتیں کررہے تھے کہ عوام یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ مجھے ان کی باتوں سے کچھ خطرہ سا محسوس ہوا اور میں نے کہا‘ بھائی جان کہیں آپ کی پارٹی اور ورکر کو جان بوجھ کر ڈھیل تو نہیں دی جا رہی اور آپ کو لگ رہا ہے کہ سب آپ سے ڈر گئے ہیں۔ آپ کے حوصلے بڑھتے جائیں گے اور بات لانگ مارچ اور مظاہروں سے آگے بڑھتی جائے گی اور ایک دن آپ بم کو لات ماریں گے اور مقتدر حلقے آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ یہ نو مئی 2023ء سے ایک سال پہلے کا پروگرام ہے جس کا کلپ موجود ہے۔ کوئی بھی بندہ یہ ریڈنگ کر سکتا تھا کہ حالات اس طرف جارہے تھے جہاں پی ٹی آئی پھنس جائے گی اور mob violenceہو گا۔ عمران خان کی وزیراعظم ہاؤس سے نکلنے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مقبولیت نے پی ٹی آئی کو نیکسٹ لیول پر پہنچا دیا تھا۔
مقتدرہ بڑے عرصے سے دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور عمران خان کی تقریروں خصوصاً سائفر ایشو نے پورے ملک میں نوجوانوں کو آگ لگائی ہوئی تھی۔ وہ چنگاری سلگ رہی تھی اور کسی وقت بھڑکنے کو تیار تھی۔ ہمارا ایک دوست ہمارے ایک اور سرکاری دوست بارے کہا کرتا تھا کہ وہ سپیڈ بریکر پر آہستہ نہیں ہوتا‘ کسی دن بڑے حادثے سے دوچار ہوگا اور بعد میں وہی ہوا۔
بعض دفعہ دور بیٹھے بندے کو سب نظر آرہا ہوتا ہے کہ آپ غلط سائڈ پر چل نکلے ہیں لیکن خود آپ کو پتہ نہیں چلتا کہ آپ کہاں گرنے والے ہیں اور کہاں سپیڈ بریکر ہے اور گاڑی آہستہ کرنی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں سیاسی جماعتوں‘ لیڈروں اور ورکرز کو زیادہ احتیاط کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ ریاستی ادارے ان سے بہت طاقتور ہیں۔ شاید یہ ریاستی ادارے ان سیاستدانوں پر حاوی نہ ہوتے اگرسیاستدان کچھ رولز آف گیم طے کر لیتے اور خود کو کلین رکھتے‘ خاندانوں یا یار دوستوں سمیت لٹ مار نہ شروع کرتے۔ کہیں پڑھا تھا کہ ایک دفعہ 50ء کی دہائی میں دو ججوں کی سینارٹی کا مسئلہ کھڑا ہوا تو دونوں آپس میں لڑنے لگے‘ دونوں کا معاملہ اُس وقت کے وزیرقانون کے پاس گیا‘ دونوں کو وزیرقانون نے بلایا تاکہ ان کا مؤقف سُن کر فیصلہ کرے کہ ان میں سے سینئر جج کون ہے۔ جب وہ وزیرکے دفتر پہنچے تو انہیں باہر طویل انتظار کرایا گیا۔ کافی دیر گزر گئی اور وزیر نے اندر نہیں بلایا۔ ان میں سے ایک جج اٹھا اور اپنے ساتھی جج کو کہا کہ میں آپ کو اپنا سینئر مانتا ہوں۔ میں آپ کا جونیئر ہوں۔ یہ وزیر ہمیں اس لیے انتظار کرا رہا ہے کہ ہم آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اسے علم ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ہم اپنے عہدے یا سینارٹی کے لالچ میں شام تک بھی بیٹھے رہیں گے۔ آئیں مسئلہ خود ہی حل کر لیتے ہیں۔ چلیں اب کہیں چل کر کافی پیتے ہیں۔ ایک لمحے میں دونوں جج صاحبان ریلکس ہوگئے۔ صرف ایک جج کو یہ ہمت کرنی پڑی اور وزیر کا ان پر سے کنٹرول ختم ہوگیا اور وہ آزاد ہوگئے۔ جونہی سینارٹی اور عہدے کی لالچ پر عزتِ نفس نے غلبہ پایا تو ساتھ ہی کایا پلٹ گئی۔
لیکن یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔ یہاں تو ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ یہ لوگ با ریاں لے کر بھی رولز آف گیم طے کرنے کو تیار نہیں۔2008 ء میں زرداری نے پانچ سال باری لی تو2013 ء میں نواز شریف کی تیسری باری لگی جبکہ2018 ء میں عمران خان کو پہلی دفعہ باری دی گئی۔ اب نواز شریف چوتھی باری چاہتے ہیں جبکہ زرداری اس وقت بلاول کا کھاتہ کھلوانے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں اور انہیں سارا کھیل ہاتھ سے نکلتا لگ رہا ہے۔ جبکہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اُن کی مقبولیت کا جو عالم ہے اگر وہ اس وقت اپنے ووٹ کوکیش نہ کرا سکے تو پھر یہ کام کبھی نہیں ہوگا۔ اب یہ تینوں اس وقت desperate ہیں۔ وہ کوئی بھی ڈیل کرنے کو تیار ہیں۔ جمہوریت‘ آئین‘ قانون یا ملک کی سلامتی اور سیاسی استحکام ان کی ترجیح نہیں ہے۔ ترجیح اس وقت وزیراعظم بننا ہے‘ چاہے اس کے لیے ڈاکٹر فاؤسسٹس کی طرح اپنی روح کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ وزیراعظم کی سیٹ ایک ہے اور امیدوار تین۔اب یہ تینوں اپنی اپنی عرضیاں لے کر طاقتوروں کے دفتر کے باہر بیٹھے ہیں۔ ان تینوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اُس جج کی طرح اُٹھ کر دوسرے کو کہے تم سینئر ہو‘ چلو کہیں چل کر کافی پیتے ہیں۔