"RKC" (space) message & send to 7575

اعظم خان اور سہیل محمود کا فرق

سائفر کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں جاری ہے۔ آئے دن وہاں سے کوئی نہ کوئی ایسا بیان آجاتا ہے جس پر پی ٹی آئی کے دوست کچھ دن ٹویٹر پر طوفان اُٹھا دیتے ہیں کہ دیکھا ہمارا خان سچا نکلا۔ کبھی مخالفین یہ نعرے لگاتے نظر آتے ہیں کہ دیکھا خان بری طرح پھنس گیا ہے۔ ابھی سابق فارن سیکرٹری سہیل محمود کا عدالت میں دیا گیا بیان پڑھا۔ وہ اس وقت فارن آفس چلا رہے تھے جب سائفر سامنے آیا تھا۔ اُنکے بیان کو پڑھ کر پی ٹی آئی والے اس پر یقینا نعرے نہیں ماریں گے کیونکہ جو کچھ انہوں نے عدالت کو بتایا ہے وہ عمران خان کو شاید لے ڈوبے گا۔ اس سے پہلے عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے جو بیان ریکارڈ کرایا تھا‘ اس پر پی ٹی آئی کے دوستوں نے اسے خان کی جیت قرار دے کر اپنے تئیں سارا مقدمہ جیت لیا تھا۔ اعظم خان کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ انہوں نے ایف آئی اے کو دیے گئے بیان سے مختلف بیان عدالت میں دیا ہے جس سے خان کی جان اس کیس سے چھوٹ جائے گی۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی سے میری بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ اعظم خان کی گواہی سے پراسیکیوشن کا کیس کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوا ہے۔
اب سائفر کیس کے ایک اور اہم گواہ سہیل محمود نے بھی عدالت میں اپنا بیان قلمبند کروا دیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ مارچ 2022ء میں مَیں بطور سیکرٹری خارجہ تعینات تھا اور میرا آٹھ مارچ 2022ء کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ سفیر نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوب و وسطی ایشیا سے ہونیوالی ملاقات کا احوال بتایا۔ سفیر اسد مجید نے بتایا کہ انہوں نے اس ملاقات میں ہونیوالی بات چیت کے حوالے سے وزارتِ خارجہ کو ایک سائفر بھجوایا ہے۔ میں نے دفتر جاکر سائفر کی کاپی وصول کی اور اس سائفر کوکیٹیگرائز کیا کہ اس کی سرکولیشن نہیں کرنی‘ یہ صرف سیکرٹری خارجہ کیلئے ہے۔ ان ہدایات کیساتھ سائفر کی کاپی کی تقسیم کی منظوری دی اور اس کی کاپی وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو سربمہر لفافے میں بھجوانے کی ہدایت کی۔ پھر 27 مارچ 2022ء کے جلسۂ عام میں سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک خط لہرایا۔ اگلے روز 28 مارچ کو مجھے ایڈیشنل سیکرٹری امریکہ کی جانب سے ایک انٹرنل نوٹ موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکام نے وزیراعظم عمران خان کی پبلک سٹیٹمنٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ میں نے اس نوٹ کو اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھیجتے ہوئے مشورہ دیا کہ امریکہ سے منسلک رہنا ہی سمجھداری ہو گی۔ اس مشورے کا مقصد امریکہ جیسے اہم ملک کیساتھ پاکستان کے تعلقات کا تحفظ اور خفیہ معاملات پر عوامی سطح پر بحث سے گریز کرنا تھا۔ ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی مشکلات ہو سکتی تھیں۔
29مارچ 2022 ء کو مجھے ایک ملاقات کیلئے بنی گالہ بلایا گیا جو پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔ اس میٹنگ میں سابق وزیراعظم کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اعظم خان بھی موجود تھے۔ بقول فارن سیکرٹری انہیں سائفر پڑھنے کا کہا گیا۔ اس دوران شرکا نے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ اور واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے درمیان ہونیوالی بات چیت پر کمنٹس کیے‘ تاہم یہ مختصر میٹنگ بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئی۔ سہیل محمود کا کہنا تھا کہ میں سائفر کی کاپی اپنے ساتھ لے گیا تھا اور سائفر محفوظ رکھنے کیلئے ڈائریکٹر ایف ایس او کے حوالہ کردیا۔ آٹھ اپریل 2022ء کو ایک کابینہ میٹنگ ہوئی جس میں سیکرٹری کابینہ‘ سیکرٹری قانون و انصاف اور میں بطور سیکرٹری خارجہ موجود تھے۔ میٹنگ میں مجھے اپنے خیالات شیئر کرنے کا کہا گیا۔ میں نے اپنی بریفنگ میں سائفر کی ڈی کلاسیفکیشن‘ سائفر سیکیورٹی گائیڈ لائنز‘ قانونی پوزیشن اور خارجہ پالیسی کے مضمرات کے حوالہ سے بریف کیا۔ میں نے عمران خان اور باقی شرکا کو بتایا کہ سائفر سکیورٹی گائیڈ لائنز سائفر کوصرف مجاز افراد کیساتھ شیئر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بقول سہیل محمود انہوں نے عمران خان کو یہ بھی بتایاکہ ماضی میں سائفر کی ڈی کلاسیفکیشن کی کوئی مثال نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سائفر کی ڈی کلاسیفکیشن سے سفارتی مشن کے کام پر اثر پڑ سکتاہے کیونکہ اس سے امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک کیساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ میٹنگ کے بعد فیصلہ ہوا کہ پارلیمنٹ کے اِن کیمرہ اجلاس میں سائفر کی صداقت اور نمایاں خصوصیات کے حوالے سے بریفنگ دی جائے۔ اس دوران 29 ستمبر 2022ء کو میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہو گیا۔ تب تک وزیراعظم ہاؤس سے سائفرکی کاپی دفترِ خارجہ کو واپس موصول نہیں ہوئی تھی۔
ذرا یہاں رُک کر ان دو افسران کی گفتگو کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جو عمران خان کا سب سے زیادہ قریبی یعنی پرنسپل سیکرٹری اعظم خان تھا‘ اس نے اپنے وزیراعظم کو درست گائیڈ نہیں کیا۔ ایک پرنسپل سیکرٹری کا اور کیا کام ہوتا ہے۔ اس نے وزیراعظم کو تمام قوانین سے آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ آپ فلاں کام کر سکتے ہیں اور فلاں نہیں۔ وزیراعظم کو ہر قانون کا علم نہیں ہوتا۔ عام الفاظ میں پرنسپل سیکرٹری ہی اصل وزیراعظم ہوتا ہے‘ وزیراعظم نے تو صرف دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ پرنسپل سیکرٹری نے دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سی بات یا فیصلہ پہلے تو پاکستان اور پھر اسکے وزیراعظم کے مفاد میں ہے۔ آپ اعظم خان کی لیک آڈیو گفتگو سنیں جو وہ وزیراعظم عمران خان کیساتھ سائفر پر کر رہے ہیں جس میں عمران خان انہیں کہتے ہیں کہ اب ہم اس سائفر پر کھلیں گے۔ اس موقع پر اپنے وزیراعظم کو یہ مشورہ دینے کے بجائے کہ ایسا کرنا نہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا اور نہ خود وزیراعظم کے‘ اعظم خان اُلٹا خان کو پورا پلان سمجھا رہے ہیں کہ کیسے وہ سیکرٹری خارجہ کو اجلاس میں بلوا کر سائفر پڑھوا دیتے ہیں اور پھر وہ اپنی مرضی کے منٹس خود تیار کرکے اسے وہ رنگ دیں گے جو عمران خان چاہتے تھے۔جو کام اعظم خان کو کرنا چاہیے تھا‘ وہ سہیل محمود نے کیا۔ اعظم خان وزیراعظم کو اپنا مشورہ دیتے چاہے وہ اس کو مانتے یا نہ مانتے جس طرح کا مشورہ سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دیا کہ سائفر پر ''کھیلنا‘‘ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ اس سے نہ صرف پاکستان کے امریکہ سے تعلقات خراب ہوں گے بلکہ وہ عالمی ادارے‘ جن سے پاکستان قرضہ یا گرانٹ لیتا ہے اور انہیں امریکہ کنٹرول کرتا ہے‘ وہ بھی ہم سے دور ہو جائیں گے۔ اس کا پاکستانی معیشت کو نقصان ہوگا اور وہی ہوا۔ اب اس پورے ایشو میں عمران خان کا مزاج بھی دیکھیں کہ فارن سیکرٹری انہیں ایک پروفیشنل رائے دے رہا ہے کہ ایسا کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ اگرچہ اس سائفر سے عمران خان کو لگا ہو گا کہ یہ ان کے پاس اپنی حکومت بچانے کا بہترین موقع ہے۔ دوسری طرف اعظم خان نے سوچا ہوگا کہ مجھے کیا پڑی کہ میں ملکی مفاد کے چکر میں عمران خان کو ناراض کروں اور اپنی سیٹ کو خطرے میں ڈالوں۔
اکبر بادشاہ اَن پڑھ ہو کر بھی پچاس سال سے زائد ہندوستان کا بادشاہ رہا کیونکہ اسے علم تھا کہ وہ اَن پڑھ ہے لہٰذا اس نے پڑھے لکھے نو ذہین لوگوں کی کونسل بنا دی جنہیں دنیا نورَتنوں کے نام سے جانتی ہے۔ یہ بادشاہ پر منحصر ہوتا ہے وہ کیسے رَتن اپنے ارد گرد اکٹھے کرتا ہے۔ کچھ رَتن اَن پڑھ بادشاہ کی حکومت کو بھی پچاس سال چلا لیتے ہیں اورکچھ اعظم خان جیسے رَتن ساڑھے تین سال بعد اپنے بادشاہ کو اڈیالہ جیل پہنچا کر ان کے خلاف گواہی بھی دیتے ہیں۔ اعظم خان دراصل عمران خان سے زیادہ سمجھدار نکلا۔ وہ اس اصول پر چلا کہ Boss is always right۔ خان کی ہاں میں ہاں ملا کر اس وقت طاقتور نوکری بھی بچائی اور اب اس سائفر کیس سے اپنی جان بچانے کیلئے اسی خان کے خلاف گواہی بھی دے آیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں