پاکستانی سیاست‘ سیاستدان اور مقتدرہ تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلے جب کوئی کہتا تھا کہ ہم سنگین بحران سے گزر رہے ہیں تو مجھے عجیب سا لگتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اب سنگین بحران کہنا فیشن بن گیا ہے۔ میں نے کبھی اس لفظ کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا کیونکہ روزانہ کوئی نہ کوئی بحران ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔ یقین کریں کہ اب پہلی دفعہ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ یہ بحران کس بلا کا نام ہوتا ہے اور اس کی سنگینی کتنی خطرناک ہوتی ہے۔ میں پہلی دفعہ نروس محسوس کررہا ہوں۔ میرے نروس ہونے کی وجہ ہماری سیاسی قیادت کی امیچورٹی اور اقتدار کا اندھا لالچ ہے جس نے ہمیں اس دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگرچہ اکثر لوگ مقتدرہ کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یا دیگر الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ یہ سب ذمہ دار ہیں۔
اس وقت ہمیں جس خطرناک بحران کا سامنا ہے‘ قوم کو کیا کوئی ایسا شخص نظر آتا ہے جو ہمیں اس سے نکال سکے؟ میں ان تمام کرداروں سے بخوبی واقف ہوں جو اس وقت ملکی سیاست پر حاوی ہیں۔ ان سب سے میری ذاتی ملاقاتیں رہی ہیں۔ اگر اِن میں سے کسی نے مجھے اپنی باتوں یا اپنی اداکاری سے وقتی طور پر متاثر کیا بھی تو جب اقتدار میں آیا تو اس کا کھوکھلا پن اس برُی طرح کھلا کہ دل ہی ٹوٹ گیا۔ ایک دوست اکثر کہا کرتا تھا کہ تم بہت جلدی اپنا دل دے بیٹھتے ہو اور جلدی مایوس بھی ہو جاتے ہو۔ جن کو آپ دل دیتے ہیں ان کا بھلا اس میں کیا قصور ہے۔ انہوں نے آپ کو کہا تھا کہ آپ انہیں دل دیں؟ آپ خود ہی دل دے دیتے ہیں اور خود ہی مایوس ہوئے پھرتے ہیں۔ ان کی اس بات میں وزن تھا۔ پھر میں نے اپنی کاؤنسلنگ کی‘ خصوصاً سیاسی لوگوں کے حوالے سے کہ انہیں دل نہ دیا جائے۔ یہ سب اداکار ہوتے ہیں۔ فلمی اداکاروں سے بھی بڑے اداکار۔
خیر بات بحران کی چل رہی تھی تو مجھے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی ایک شاہکار کتاب: Profiles in Courage یاد آئی جس کا تذکرہ میں پہلے بھی اپنے کالموں میں کر چکا ہوں۔ آج یہ کتاب یاد آنے کی وجہ موجودہ سیاسی بحران ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس کتاب کا ایک نیا ایڈیشن شائع ہوا ہے جس کا دیباچہ کینیڈی کی بیٹی کیرولین کینیڈی نے لکھا ہے۔ یہ کتاب ان امریکی سیاستدانوں یا فوجیوں کے بارے ہے جنہوں نے اپنے عروج پر ایسے فیصلے کئے جن کے حوالے سے انہیں علم تھا کہ ان کا انہیں سیاسی نقصان ہوگا۔ ان کے کیریئر تباہ ہوں گے‘ عوام انہیں برُا سمجھیں گے۔ ایک سینیٹر‘ جو پہلی دفعہ منتخب ہوا تھا‘ ایک ایسا فیصلہ کر بیٹھا جو اُس کے خیال میں امریکہ کیلئے ضروری تھا۔ اس نے ایک بل پر اپنی پارٹی لائن کے برعکس ووٹ دیا جس پر اس کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا‘ اُسے دھمکیاں دی گئیں۔ اُسے علم تھا کہ یہ اس کا آخری الیکشن ہے لیکن اس نے اس بل کے حق میں ووٹ ڈالا کیونکہ وہ قائل ہوگیا تھا کہ یہ بل امریکہ کیلئے بہت اہم تھا۔ یوں اس نے اپنا سارا کیریئر تباہ کر لیا۔ کینیڈی کے نزدیک وہ سینیٹر ایک بہادر انسان تھا جس نے عوامی رائے عامہ کے برعکس جاکر ایک سٹینڈ لیا جو اُس کے خیال میں امریکہ کیلئے ضروری تھا۔ اسی طرح کے کئی دیگر کرداروں کا بھی انہوں نے اپنی اس کتاب میں ذکر کیا ہے جو اپنے مستقبل اور کیریئر کو داؤ پر لگا کر امریکی مفادات کیلئے کھڑے ہو گئے اور انہیں اس بات کا ملال تک نہیں تھا۔
اس کتاب کے تعارف میں کیرولین لکھتی ہیں کہ اُن کے باپ کے نزدیک وہ لوگ بہادر تھے جو عوامی رائے عامہ کے خلاف جا کر اپنے بیانیے پر کھڑے ہونے کی سکت رکھتے تھے۔ جنہیں عوامی پذیرائی کی پروا نہیں تھی۔ کیرولین ایک واقعہ بیان کرتی ہیں کہ جب امریکن صدر رچرڈ نکسن کا واٹر گیٹ سکینڈل سامنے آیا تو امریکی عوام بہت غصے میں تھے۔ انہیں لگا کہ امریکی صدر نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ وہ ان کا سر چاہتے تھے۔ آخر کار نکسن کو عوام اور میڈیا کے دباؤ پر صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ رچرڈ نکسن کی جگہ ان کے نائب صدر جیرالڈ فورڈ نے صدارت سنبھال لی‘ لیکن امریکی چاہتے تھے کہ رچرڈ نکسن کا ٹرائل ہونا چاہیے۔ اسے سزا ملنی چاہیے۔ پورا ملک شور مچا رہا تھا۔ ان حالات میں جیرالڈ فورڈ بڑی مشکل میں پھنس گیا۔ اُس کے صدر بنتے ہی جو پہلی فائل اس کی میز پر لائی گئی وہ صدر نکسن کے ٹرائل کے حوالے سے تھی۔ صدر فورڈ کے پاس تیس دن تھے اس فائل پر فیصلہ کرنے کیلئے کہ اس نے صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے صدر نکسن کو معاف کرنا ہے یا عوامی جذبات کا پاس رکھتے ہوئے ان کے ٹرائل کی منظوری دینی ہے۔ صدر فورڈ ایک سیاستدان تھا‘ اُسے علم تھا کہ اس کا ابھی لمبا کیریئر باقی ہے۔ اگر اُس نے صدر نکسن کو معاف کر دیا تو امریکی عوام اور میڈیا اسے نہیں چھوڑیں گے۔ وہ اگلا صدارتی الیکشن نہیں جیت سکے گا۔ اس کا کیریئر تباہ ہو جائے گا لیکن دوسری طرف اسے علم تھا کہ اگر اس نے صدر نکسن کو صدارتی معافی نہ دی تو وہ زخم نہیں بھرے گا جس کا درد امریکی عوام محسوس کررہے تھے۔ امریکی قوم جس طرح واٹر گیٹ سکینڈل میں پھنس کر رہ گئی ہے‘ وہ آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ ٹرائل کا مطلب ہو گا کہ یہ ایشو میڈیا‘ عوام اور اداروں میں ابھی مزید ڈسکس ہو گا اور امریکی عوام اس دلدل میں پھنستے جائیں گے۔ اگر امریکہ کو آگے بڑھنا ہے تو رچرڈ نکسن کو صدارتی معافی دینا ہو گی‘ لیکن وہی بات کہ معافی کا مطلب امریکی عوام اور میڈیا کا غصہ اور صدر فورڈ کا اپنا کیریئر تباہ ہونا تھا۔
جس دن صدر جیرالڈ فورڈ نے رچرڈ نکسن کی فائل پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا تو انہیں علم تھا کہ وہ اپنی سیاست اور اقتدار کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کر رہے ہیں۔ وہ پہلی اور آخری دفعہ صدر بن رہے تھے۔ اس تمام خوف اور ڈر کے باوجود صدر فورڈ نے نکسن کو معاف کیا کیونکہ انہیں لگا کہ اس کے بغیر امریکہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اور وہی ہوا کہ اگلے صدارتی الیکشن میں صدر فورڈ ہار گئے اور جمی کارٹر صدر بن گئے۔ کیرولین کے نزدیک صدر فورڈ کی یہ بہادری تھی جس کا تذکرہ اس کا باپ بھی کرتا تھا۔ بہادر وہ نہیں ہوتے جو عوام سے ووٹ لینے اور بلے بلے کرانے کے چکر میں اپنا ملک تباہ کر لیتے ہیں۔ وہ کمزور لوگ ہوتے ہیں جو لہروں کے اُلٹ تیرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ جو صرف عوام سے اپنی تعریف چاہتے ہیں‘ چاہے پورا ملک ہی تباہ ہو جائے۔
اکثر لوگ آج تک حیران ہوتے ہیں کہ امریکہ میں ایک شخص صرف دو بار ہی صدر کیوں بن سکتا ہے۔ برطانیہ میں تو مارگریٹ تھیچر تین دفعہ وزیراعظم بنی تھیں‘ بھارت میں اندرا گاندھی بھی تین دفعہ وزیراعظم بنیں اور پاکستان میں نواز شریف تین دفعہ وزیراعظم بن چکے ہیں۔ پھر امریکہ میں ایک ہی شخص تیسری دفعہ صدر کیوں نہیں بن سکتا؟ اس کے پیچھے پہلے امریکی صدر کا ہاتھ ہے جن کا نام جارج واشنگٹن ہے۔ جب تیسری دفعہ انہیں کہا گیا کہ وہ صدر کا الیکشن لڑیں تو انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بس بہت ہوگیا۔ اب کسی نئے بندے کو موقع دیں۔ یوں جارج واشنگٹن نے ایک ایسی روایت قائم کی جو آج تک چلی آرہی ہے۔ امریکہ کی حالیہ تاریخ میں کئی صدر ایسے تھے جوتیسری دفعہ منتخب ہو سکتے تھے جن میں رونالڈ ریگن‘ بل کلنٹن اور براک اوبامہ سرفہرست ہیں۔ لیکن وہی بات کہ پہلے امریکی صدر نے تیسری دفعہ صدارت لینے سے انکار کر دیا تھا اور آج تک امریکی اپنے پہلے صدر کی اس روایت کا احترام کرتے ہیں۔
اب جن حالات میں ہم پھنس گئے ہیں‘ آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے درمیان جیرالڈ فورڈ جیسا کوئی بندہ ہے یا جارج واشنگٹن جیسا‘ جو اپنے عہدے یا کیریئر کی قربانی دینے پر تیار ہو جائے تاکہ پاکستان اس خطرناک بحران سے نکل کر آگے بڑھ سکے؟