بعض دفعہ انسانوں کو خود سمجھ نہیں آتی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے‘ انہیں کیونکر کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے‘ خصوصاً ان لوگوں کی طرف سے کیوں ایسے شک کا اظہار کیا جا رہا ہے جن کے ساتھ انہوں نے مشکل وقت میں اچھائی کی تھی۔ مجھے اس وقت تین لوگ یاد آ رہے ہیں جنہیں کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ حیران ہوئے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف‘ سابق سینیٹر ظفرعلی شاہ اور سابق سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کی کہانیاں بڑی دلچسپ ہیں۔
جنرل مشرف دور کے ابتدائی برس تھے‘ ڈاکٹر ظفر الطاف ایک رات میرے گھر آئے تو غصے سے ان کی حالت بہت خراب تھی۔ ان کا سٹار Leo تھا۔ ویسے وہ محبت بھرے انسان تھے مگر جب غصہ کرتے تو بہت کرتے لیکن فوراً ٹھنڈے بھی ہو جاتے اور بہت جلد لوگوں کو معاف کر دیتے۔ خیر میں انہیں دیکھ کر پریشان ہوا تو بولے: جو کچھ پکا ہے لے آئو‘ بہت بھوک لگی ہے۔ کچھ دیر بعد ٹھنڈے ہوئے تو پوچھا: سر! خیریت ہے‘ کیا ہوا؟ ایک گالی دے کر کہنے لگے: یار! یہ کون لوگ ہیں‘ یہ کیسی بدنسل ہے۔ میں چپ رہا۔ کہنے لگے: طارق سعید ہارون سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ‘ کچھ دیر پہلے ان کے گھر آئے کہ چلو کہیں کھانا کھاتے ہیں۔ ان کے ساتھ مرسیڈیز پر ایک بندہ تھا۔ وہ بولا: ڈاکٹر صاحب آپ نے مجھے پہچانا؟ میں نے کہا: نہیں۔ اس شخص نے کہا: آج سے چھ سال پہلے جب آپ بینظیر بھٹو دور میں سیکرٹری زراعت تھے تو میں آپ کے گھر آیا تھا اور رو رہا تھا۔ گندم کے سٹاکس پر دیمک سپرے کا کنٹریکٹ تھا۔ میں نے اپلائی کیا تھا‘ اپنا گھر گروی رکھ کر قرضہ لیا‘ بیوی کا زیور بیچا لیکن وہ کنٹریکٹ کوئی اور لے گیا۔ میں سڑک پر آ گیا تھا۔ کسی نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب رحم دل انسان ہیں‘ ان سے جا کر مل لو۔ آپ نے مجھے اپنے گھر بٹھایا اور اس بندے کو کراچی فون کیا جسے کنٹریکٹ ملا تھا کہ آدھا اس بندے کو دے دو۔ آپ کی مہربانی سے میں آج کروڑ پتی ہوں۔
ڈاکٹر صاحب پر ان دنوں نیب کا دبائو تھا کہ بینظیر‘ زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ انکار پر ان کے خلاف نیب نے آڈٹ پیروں پر جھوٹے مقدمے بنا دیے۔ طارق سعید ہارون‘ ڈاکٹر صاحب اور وہ شخص ریسٹورنٹ پر بیٹھے یہ کیسز ڈسکس کر رہے تھے۔ وہ بزنس مین اب تک چپ کر کے سن رہا تھا۔ اچانک وہ بولا: ڈاکٹر صاحب آپ پر نیب نے کرپشن کیسز بنائے ہیں‘ کچھ نہ کچھ تو آپ نے بھی کیا ہو گا؟ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے اسے جی بھر کر گالیاں دیں اورکہا: مجھے تو یاد ہی نہ تھا ہم کبھی ملے تھے۔ تم سے میں نے کتنے پیسے لیے تھے؟ ڈاکٹر صاحب نے وہیں کھانے کی میز اس بندے پر الٹ دی اور اب میرے گھر کے ڈرائنگ روم میں افسردہ بیٹھے تھے کہ یار یہ کون لوگ ہیں جو اپنے محسن کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں؟
اب ایک اور واقعہ سنیں۔ سینیٹر ظفر علی شاہ کے داماد عسکری حسن سید سے میرا 1998ء سے یارانہ ہے۔ شاید 2009ء کی بات ہے۔ عسکری نے فیملی ڈنر پر بلایا۔ ظفر علی شاہ بھی موجود تھے۔ نواز شریف شاہ جی (میں انہیں پیار سے شاہ جی کہتا ہوں) سے لندن واپسی پر کچھ ناراض تھے۔ شاہ جی بھی سیدھے بندے ہیں‘ ڈپلومیسی ان میں نام کو نہیں۔ میں نے پوچھا: شاہ جی آپ نے سینیٹ ٹکٹ کیلئے اپلائی کیا؟ بولے: نواز شریف ناراض ہیں‘ وہ مجھے کیوں ٹکٹ دیں گے؟ میں نے کہا: شاہ جی! آپ اپلائی کریں‘ ٹکٹ مل جائے گا۔ وہ حیران ہوئے اور بولے: آپ کو کسی نے بتایا ہے؟ میں نے کہا: نہیں! پوچھا: پھر؟ میں نے کہا: شاہ جی جب آپ کو ٹکٹ ملے گا تو اس وقت بتائوں گا‘ آپ اپلائی کریں۔ وہ پھر بھی نہ مانے اور بولے: ایسے بے عزتی ہو گی ٹکٹ انہوں نے نہیں دینا۔ میں نے کہا: آپ بسم اللہ کریں۔ پھر بھی نہ مانے تو ان کی بیٹی نے کہا: رئوف بھائی کہہ رہے ہیں تو آپ اپلائی کر دیں۔ خیر شاہ جی بڑی مشکل سے مانے۔
چند دن بعد ان کا لاہورسے فون آیا۔ پُرجوش انداز میں بولے: رئوف صاحب سینیٹ کا ٹکٹ مل گیا ہے‘ کمال ہے! آپ کو کیسے پتا تھا؟ میں نے کہا: شاہ جی میں لندن میں نواز شریف اور شہباز شریف سے رپورٹنگ کے سلسلے میں ملتا رہتا تھا‘ آپ نے ان کیلئے کافی مشکل وقت کاٹا‘ مشکل میں بیگم کلثوم نواز کا ساتھ دیا‘ آپ پر نیب مقدمے بنے‘ آپ ہی کے گھر سیاسی اتحاد بنا تھا۔ بینظیر کے پاس دبئی جا کر افہام و تفہیم کا راستہ ہموار کیا۔ انسان کتنا غصے میں کیوں نہ ہو‘ وہ احسان یاد رکھتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ کا نام نواز شریف کے سامنے جائے اور انہیں یاد نہ آئے کہ آپ نے ان کیلئے کتنی مشکلیں اٹھائیں۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ایک دفعہ آپ کے احسانات کا بدلہ ضرور چکائیں گے۔ میں نے اس انسانی نفسیات کو سامنے رکھ کر آپ کو کہا تھا کہ اپلائی کریں‘ ٹکٹ مل جائے گا۔ ٹکٹ سے یاد آیا کہ نواز لیگ کے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کو اس دفعہ پھر ٹکٹ نہیں ملا۔ انہیں اپنے ٹی وی پروگرام میں پوچھا تو انہوں نے بڑا میچور اور سمجھدارنہ جواب دیا۔ بولے: پارٹی کی اس وقت کچھ مجبوریاں ہیں‘ ہمیں ان مجبوریوں کو سمجھنا چاہئے اور پارٹی جو فیصلہ کرے‘ اسے قبول کرنا چاہیے۔ اس بار وزیرداخلہ‘ وزیر خزانہ اور ڈار صاحب کو ٹکٹ دینے ہیں۔ ان کی کچھ کمٹمنٹس ہیں۔ میں نے پوچھا: آپ نے اپلائی نہیں کیا۔ بولے: اس دفعہ پارٹی نے درخواستیں ہی نہیں مانگیں۔ جنرل قیوم ان چند ریٹائرڈ فوجیوں میں سے ہیں جنہیں عمران خان ہر قیمت پر تحریک انصاف میں لانا چاہتے تھے۔ حفیظ اللہ نیازی ان کے گھر گئے۔ خود عمران خان ان سے ملے اور بہت زور دیا لیکن انہوں نے سوچ سمجھ کر 2011ء میں عمران خان کے مشہور زمانہ لاہور جلسے والے دن نواز لیگ جوائن کی۔ 2015ء میں انہیں سینیٹ کا ٹکٹ ملا اور ان کا دور اچھا رہا۔ کسی سے الجھتے نہ تھے‘ سلجھی ہوئی بات کرتے۔ سینیٹر جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی اور انہیں اکثر سیاستدانوں کا غصہ برداشت کرنا پڑتا۔ خیر اُن کیلئے مشکل وقت اس وقت آیا جب سینیٹ چیئرمین کیلئے صادق سنجرانی کے مقابلے پر نواز شریف نے حاصل بزنجو کو کھڑا کیا۔ اس وقت جنرل باجوہ اور جنرل فیض نواز شریف کے خلاف تھے اور کوشش تھی سنجرانی کو جتوایا جائے لیکن نمبر پورے نہیں تھے۔ جب سینیٹ میں حاصل بزنجو کے حامی سینیٹر کھڑے ہوئے تو 65 تھے لیکن ووٹ 45 نکلے اور سنجرانی جیت گئے۔ اس پر ہنگامہ برپا ہو گیا کہ کس کس نے ووٹ نہیں ڈالا۔ پہلا شک جنرل (ر) قیوم اور جنرل (ر) ترمذی پر گیا کہ انہوں نے ادارے کی پالیسی کو فالو کیا ہوگا۔
جنرل (ر) قیوم نے جواب دیا کہ یہ ان کیلئے ممکن نہیں۔ وہ کبھی بوجھل ضمیر کے ساتھ باقی زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ ادارے کو بھی اس حد تک مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں سینیٹر نواز شریف نے بنایا‘ ووٹ بھی ان کا ہے۔ اس پر وہ ان سے ناراض ہو گئے۔ لیکن مزے کا کام یہ ہوا کہ نواز شریف نے ایک انکوائری کمیٹی بنائی جس کا سربراہ سینیٹر رانا مقبول کو بنایا گیا جنہوں نے ایک ایک سینیٹر کو بلا کر سوال و جواب کرنے شروع کیے۔ جنرل (ر) قیوم کی زندگی کا سب سے بڑا پشیمان کرنے والا وقت وہ تھا۔ ایک طرف وہ جنرل باجوہ‘ جنرل فیض اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کو صاف انکار کر چکے تھے اور دوسری طرف پارٹی میں پہلا شک ان پر کیا جا رہا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ جنرل (ر) قیوم نے حاصل بزنجو ہی کو ووٹ ڈالا تھا اور اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔ لیکن ذرا ان لمحوں کو ذہن میں لائیں کہ آپ کی قیادت آپ سے ناراض ہے کہ آپ اُن کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے رہے اور آپ کا کولیگ سینیٹر رانا مقبول آپ کی انکوائری کر رہا ہے۔ لیکن جنرل (ر) قیوم مطمئن تھے کہ انہوں نے اُس وقت کی عسکری قیادت کے دبائو کے باوجود نواز شریف کو دھوکا نہیں دیا تھا۔
بس ہم انسان ایسے ہی ہیں۔