معاملات یقینا اب خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ مجھے تو کوئی شک نہیں رہا کہ جو صورتحال بھٹو اور جنرل ضیا کے درمیان پیدا ہو گئی تھی اور اس کے بھیانک نتائج نکلے تھے‘ وہی حالت اب ہو چکی ہے۔ پہلے اشارے کنایوں میں بات کی جاتی تھی لیکن اب کھل کر باتیں ہونے لگی ہیں۔ پہلے بشریٰ صاحبہ تو اب عمران خان نے کھل کر نام لینا شروع کر دیے ہیں۔ نہ عمران خان پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں اور نہ ہی مقتدرہ رعایت دینے کو تیار ہے۔ عمران خان اور مقتدرہ کی ایک دوسرے سے توقعات بھی ایسی ہیں کہ دونوں کوشش بھی کریں تو پوری نہیں کر سکتے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہم سب اندھی گلی میں پھنس گئے ہیں۔ آگے دیوار ہے تو پیچھے سانپ پھن پھیلائے بیٹھا ہے۔ عمران خان یہ توقع رکھتے ہیں کہ مقتدرہ سارے مقدمات ختم کرکے انہیں سیدھا وزیراعظم ہاؤس میں جا بٹھائے اور باقی سب سیاستدانوں کو جیل میں ڈال دے۔ اس سے کم پر وہ راضی نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جمہوریت وہی ہے جس میں وہ وزیراعظم ہیں۔ اگر وہ وزیراعظم نہیں تو پھر ان کی بلا سے کوئی جیے یا مرے‘ انہیں پروا نہیں۔ وہ صرف خود کو حکمرانی کیلئے موزوں سمجھتے ہیں‘ باقی سب نااہل ہیں۔
خان صاحب صرف سوچتے نہیں بلکہ عملی اقدامات بھی کرتے ہیں۔ وہ ہر حکومت کے خلاف احتجاج اور جدوجہد کرنے نکل پڑتے ہیں۔ وہ تلوار پر فیصلہ چاہتے ہیں جیسے 1857ء سے پہلے افغان‘ ایرانی‘ ترک اور عرب سردار سلطنتِ دلّی پر نئے بادشاہ کا فیصلہ کرتے تھے۔ خان صاحب اس صدیوں پرانے مائنڈ سیٹ سے باہر نہیں نکل سکے۔ اگرچہ سب کہیں گے کہ ان کی حکومت زبردستی ہٹائی گئی‘ ان کا غصہ جائز ہے لیکن یہ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائی گئی‘ جو آئینی طور پر درست ہے۔ اب خان صاحب کو اس کا آئین کے تحت ہی مقابلہ کرنا چاہیے تھا‘ چاہے جو بھی طاقتیں ان کے خلاف تھیں۔ پاکستان کا کمزور سیاسی اور ہائبرڈ نظام وہ بوجھ نہیں اُٹھا سکتا تھا جو عمران خان نے اس پر ڈالنے کی کوشش کی۔ نتیجہ سامنے ہے۔ دو سال کی مسلسل ہڑتالوں‘ احتجاج اور دھرنوں کے باوجود وہ اقتدار میں لوٹنے کے بجائے جیل جا بیٹھے ہیں وہ بھی اپنی اہلیہ سمیت۔
دوسری طرف مقتدرہ بھی اپنی کشتیاں جلا کر سارے انڈے زرداری اور شریفوں کی ٹوکری میں ڈال کر بیٹھی ہے۔ ان کی بات سنو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے خان صاحب کے کہنے پر شریفوں اور زرداری کو جیلوں میں ڈالا۔ شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال سب کو جیل میں ڈالا۔ خان صاحب کو سب کچھ سنبھال کر دیا کہ اب ملک چلاؤ اور پاکستان میں بزنس اور سرمایہ کاری لاؤ۔ ڈالرز لاؤ۔ خان صاحب نے کہا کہ ڈالرز اور سرمایہ بعد میں دیکھیں گے پہلے میں ذرا پاکستان کے دوستوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کر لوں۔ زرداری اور شریفوں کو سیدھا کرنے کے بعد وہ سعودی عرب‘ چین‘ امریکہ‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات‘ یورپی یونین اور برطانیہ کے حکمرانوں کو سیدھا کرنے کے مشن پر نکل پڑے۔ ہر ایک سے لڑائی کی۔ وہ ممالک جو پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکتے تھے یا مشکل وقت میں کام آتے تھے ان سب سے لڑائی کی یہ کہہ کر کہ ہم غلام تھوڑی ہیں۔ دنیا میں ہر ملک اپنے مفاد پر چلتا ہے‘ غلامی یا سرداری پر نہیں۔ اگر عمران خان کو لگتا تھا کہ وہ سعودی عرب‘ امریکہ اور چین کے بغیر پاکستان کو آزاد ملک بنا سکتے تھے اور کسی سے کوئی دبنے کی ضرورت نہیں تھی تو یہ ان کی خام خیالی تھی۔ مقتدرہ کا ماننا ہے کہ جو کام بھارت دہائیوں میں نہ کر سکا تھا وہ عمران خان نے دو برس میں کردیا جب پاکستان کے سب دوستوں سے لڑائی کرکے پوچھا کوئی رہ تو نہیں گیا؟
مان لیا آپ ایک غیرت مند پٹھان ہیں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ بطور حکمران دوسرے ملکوں سے ذاتی اَنا کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی نہیں کی جاتی۔ خان صاحب اپنی پہاڑ جتنی اَنا سے مار کھا گئے۔ ہر ایک سے وہ لڑے جس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان اکیلا رہ گیا۔ جاتے جاتے آئی ایم ایف سے ڈیل توڑ دی‘ بقول شیخ رشید خان صاحب باردوی سرنگیں بچھا گئے تھے جس کے نتیجے میں ڈالر تین سو روپے سے اوپر چلا گیا۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کو نہیں ہٹانا چاہیے تھا۔ میں بھی انہی لوگوں میں سے ہوں کہ خان کو حکومت کرنے دینی چاہیے تھی۔ ایک دفعہ وہ کھل کر اپنے جوہرِ حکمرانی دکھا لیتے تاکہ عوام کو کوئی ارمان نہ رہتا۔ لیکن ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ اگر وہ رہ جاتے تو خدانخواستہ پاکستان بڑے مسائل میں گھر جاتا کہ سب ملکوں سے خان صاحب لڑ چکے تھے۔ اگر ایک طرف آئی ایم ایف سے ڈیل ٹوٹ چکی تھی تو دوسری طرف فیٹف بھی ہمیں بلیک لسٹ میں شامل کرنے والا تھا۔ لیکن پھر جو کچھ 16ماہ میں شہباز شریف کے دورِ حکومت میں ہوا‘ اس سے لوگوں کو لگا ان کی زندگیاں مزید مشکل ہوئیں۔ وہ ڈالر کو تین سو روپے تک لے جانے کا ذمہ دار عمران خان کی بارودی سرنگوں کو نہیں بلکہ پی ڈی ایم حکومت کو سمجھتے ہیں۔ اگر ان 16 ماہ میں شہباز شریف حکومت عوام کو ریلیف دے پاتی تو وہ عمران خان کو بھول جاتے۔ شریفوں اور زرداریوں نے ملک اور عوام سے زیادہ اپنے کرپشن مقدمات ختم کرنے پر دن رات کام کیا۔ ان کا خیال تھا‘ جو کہ ٹھیک تھا کہ مقتدرہ اور عمران خان کے درمیان لڑائی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ مقتدرہ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں کہ وہ عمران خان کو وزیراعظم نہ بننے دے اور نواز شریف وزیراعظم اور آصف زرداری صدر بن جائیں۔ ان سب کی توقعات پوری ہوئیں۔ بس نواز شریف کی جگہ شہباز شریف وزیراعظم بن گئے اور مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب۔
جیسے نواز شریف اور آصف زرداری کا عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی تک لانے میں بڑا کردارتھا‘ اسی طرح عمران خان نے بھی بڑی محنت سے اپنی کرسی شہباز شریف کو پیش کی اور خود جیل جا بیٹھے۔ اگر آج زرداری اور شریف ایک دفعہ پھر مقتدرہ کی مجبوری بن گئے ہیں تو اس میں عمران خان کا بھی قصور ہے۔ انہوں نے کبھی خود کو ریسٹ نہیں دیا کہ کچھ دن وہ خاموش رہ کر بھی دیکھیں۔ زرداری اور شریفوں کی حکومت میں اتنے فالٹ لائنز ہیں کہ اگر انہیں عمران خان کا خوف نہ ہو تو یہ ایک دن بھی اکٹھے نہ بیٹھ سکیں۔ اب تو خان نے مقتدرہ‘ زرداری اور شریفوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے حامی اس خوشی سے بے حال ہو جائیں کہ خان نے سب کو ایکسپوز کر دیا ہے لیکن سیاست اقتدار کیلئے کی جاتی ہے اور خان بھی یہی کرتا آیا ہے۔ عوام میں مقبولیت کس کام کی اگر آپ کو الیکشن ہرا دیا جائے اور آپ بس جیل سے دھمکیاں دیتے رہ جائیں۔ جہاں مقتدرہ نے کوئی رعایت روا نہیں رکھی وہیں عمران خان نے بھی مسلسل دھمکی آمیز گفتگو سے پہلے عالمی سطح پر دشمن پیدا کیے تو پھر مقامی سطح پر دشمنیاں بنائیں۔ یہ شاید عمران خان کے اپنے مزاج کا اثر ہے جو انہیں کہیں ٹکنے نہیں دیتا۔
دنیا کے کسی ملک نے عمران خان کو دی گئی سزاؤں اور نااہلی پر ایک لفظ ہمدردی کا نہیں کہا۔ اور تو اور روسی صدر پوتن تک نے بھی ایک بیان جاری نہیں کیا جن سے ماسکو میں ایک طویل ملاقات کے بعد خان صاحب یہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ اگر مجھ پر برا وقت آیا تو اور کوئی میرے حق میں آواز اٹھائے یا نہ اٹھائے‘ پوتن ضرور اٹھائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم بنے تو مبارکبار دینے والوں میں پوتن سرِ فہرست تھے۔ خان صاحب بھول گئے تھے کہ عالمی سیاست اور تعلقات میں دوستیاں دشمنیاں ملکوں اور اس ملک کے عہدوں پر بیٹھے لوگوں سے ہوتی ہیں۔ سابق وزیراعظم یا جیل میں بیٹھے حکمرانوں سے نہیں۔یہ بات خان صاحب کو اب کون سمجھائے جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ میں کلا ای کافی آں۔ کوئی ملک یا ادارہ بچ تو نہیں گیا جس سے میں نہیں لڑا؟