گزرے ہفتے میں پھر ڈیل کی خبروں کی بھرمار رہی۔ بعض حلقوں کا خیال تھا کہ عمران خان سے جیل میں ڈیل کی بات چل رہی ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ شاید یہ کوششیں برطانیہ سے کی جا رہی ہیں۔ کچھ کا کہنا تھا کہ بعض مقامی طاقتوں کی طرف سے بات چیت جاری ہے۔ آپ کو یاد ہو تو بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے درمیان 2007ء میں ہونے والی ڈیل کے پیچھے بھی پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر مارک رائل گرانٹ تھے اور اُن کے پیچھے امریکی ‘ خصوصاً اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس۔ اب صاف ظاہر ہے کہ کنڈولیزا رائس یہ کام اس وقت تک نہیں کر سکتی تھیں جب تک انہیں صدر جارج بش کی طرف سے گرین سگنل نہ ملتا اور صدر بش اس وقت تک یہ گرین سگنل نہیں دے سکتے تھے جب تک وہ اپنی کابینہ کے اہم وزیروں کے ساتھ ایک اجلاس میں پوری تفصیل کے ساتھ پرویز مشرف کے مستقبل کا فیصلہ نہ کر لیتے۔
2006ء کے آخر میں وائٹ ہاؤس میں ایک اہم اجلاس ہوا جس کا وَن پوائنٹ ایجنڈاپرویز مشرف تھے۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ پرویز مشرف سے جتنا کام لینا تھا وہ لے چکے‘ اب مشرف پاکستان میں غیرمقبول ہو رہے ہیں‘ انہیں پاکستان کا صدر رکھنے کی مزید ضرورت نہیں‘ لہٰذا پاکستان میں ایسے سیاسی حکمران لانے کا فیصلہ ہوا جن کی کچھ سیاسی ساکھ ہو اور وہ طالبان کے خلاف بیانیہ بنا سکیں۔ ان کا خیال تھا کہ پرویز مشرف ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔ وہ امریکہ اور طالبان دونوں کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔ اُس وقت صدر بش اور کنڈولیزا رائس پرویز مشرف کو اس امیدپر وردی اتارنے پر راضی کرنا چاہتے تھے کہ بینظیر بھٹو وزیراعظم اور پرویز مشرف سویلین صدر بنائے جا سکتے ہیں۔ امریکی پرویز مشرف کو اس لیے بھی اگلے سیٹ اَپ میں رکھنا چاہتے تھے کیونکہ ایک تو اُن پر طالبان حملے کر چکے تھے اور ایوان صدر میں وہ محفوظ رہ سکتے تھے۔ دوسرے‘ امریکی اس بات پر بھی برسوں سے پاکستانی عوام اور پالیسی میکرز یا حکمرانوں سے یہ طعنہ مسلسل سُن رہے تھے کہ امریکی پاکستان میں آمروں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے بعد ڈمپ کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں صدر ایوب خان کی مثال دی جاتی تھی جنہوں نے امریکہ کو روس اور چین کے خلاف جاسوسی کیلئے پشاور اور چٹاگانگ میں اڈے فراہم کیے تھے‘ لیکن صدر ایوب اتنے ناخوش تھے کہ انہوں نے Friends Not Masters نامی کتاب لکھ ڈالی۔ اس کتاب کا ٹائٹل ہی یہ بتانے کیلئے کافی تھا کہ ایوب خاں کس سے کیا گلہ کررہے تھے۔ اس طرح ضیا الحق کے جہاز کا ملبہ بھی امریکیوں کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے کہ ضیاکا کام ختم ہوچکا تھا۔ وہ بوجھ بن گئے تھے تو امریکہ نے اس بوجھ سے جان چھڑا لی۔ اب پرویز مشرف کا فیصلہ ہونا تھا اور اس اجلاس میں سب شرکاکے ذہنوں میں یہ تاریخی حقائق تھے کہ امریکہ پر الزام لگتا ہے کہ وہ بس دوسروں سے اپنے کام تک وفادار رہتا ہے۔ کام نکل جائے تو مڑ کر نہیں دیکھتا۔ لہٰذا اس دفعہ امریکہ کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا تاکہ اس پر سے الزام دُھل سکے۔ اس لیے پرویز مشرف کیلئے راستہ نکالنے کیلئے یہ اجلاس بلایا گیا تھا۔ تاہم اس اجلاس میں صرف ایک آواز ایسی تھی جس نے اجلاس کے دیگر شرکاکی رائے کی مخالفت کی کہ مشرف اب سویلین لباس پہن لیں۔ وہ آواز تھی امریکہ کے وزیردفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ کی۔ رمز فیلڈ نے اجلاس کے شرکاکو کہا کہ ایسا مت کریں‘ مشرف کو وردی کے ساتھ صدر رہنے دیں۔ امریکی مفاد اسی میں ہے کہ مشرف وردی میں رہے۔ وردی اُتر گئی تو وہ ہمارے کسی کام کا نہیں رہے گا ۔
رمز فیلڈ کی پرویز مشرف سے کئی ملاقاتیں تھیں اور ان کے ساتھ بہت تعلق بن چکا تھا۔ اتنا تعلق کہ رمز فیلڈ نے مشرف کو دو جدید‘ مہنگے پستول تحفہ کے طور پر دیے تھے۔ ان میں سے ایک پستول پرویز مشرف نے امیرمقام کو دے دیا تھا۔لیکن رمز فیلڈ کی بات نہ مانی گئی اور کنڈولیزا رائس کو کہا گیا کہ مشرف اور بینظیر کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھائیں۔ کنڈولیزا رائس کے ساتھ رائل مارک گرانٹ کی خدمات بھی لی گئیں اور پھر دبئی میں مشرف اور بینظیر کے درمیان خفیہ ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ کنڈولیزا رائس نے اپنی خودنوشت No Higher Honour میں پورا باب اس ڈیل پر لکھا اور آخر میں جب بینظیر بھٹو قتل ہوئیں تو اس پر بھی بات کی ہے۔
اس سے قبل پرویز مشرف اور نواز شریف کی ڈیل کرانے کا کام بل کلنٹن نے مارچ 2000ء میں پاکستان کے دورے پر مشرف کے ساتھ ملاقات میں کیا تھا۔ بل کلنٹن نے ہی مشرف کو کہا تھا کہ وہ جنرل ضیاوالی تاریخ نہ دہرائیں جو انہوں نے بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔ مشرف نے وعدہ کیا تھا نواز شریف کو پھانسی کی سزا نہیں دی جائے گی‘ لیکن کلنٹن نے اُس وقت کے سعودی کرائون پرنس شہزادہ عبداللہ کو بیچ میں ڈالا‘ بعد میں لبنان کے سعد حریری اور قطری بھی اس میں شامل ہوئے اور نواز شریف کو اٹک جیل سے نکال کر راتوں رات سعودی عرب پہنچا دیا گیا ۔
نواز شریف کی جدہ روانگی تو اتنی خفیہ رکھی گئی تھی کہ ساتھ والے سیل میں قید سندھ کے سابق وزیراعلیٰ غوث علی شاہ کو بھی علم نہ ہوا۔ لندن میں اکثر وہ ڈیوک سٹریٹ میں واقع دفتر میں نواز شریف کے منہ پر میرے جیسے چند صحافیوں کے سامنے گلہ کیا کرتے تھے کہ میاں صاحب اتنے بڑے جہاز میں ایک سیٹ میری نہیں تھی۔ میاں صاحب ٹال جاتے تھے۔ شاید غوث علی شاہ کو پارٹی سے نکالنے کی بڑی و جہ بھی ان کا میاں صاحب کو بار بار یہ یاد دلانا تھا کہ وہ اپنے قریبی ساتھیوں کو چھوڑ کر راتوں رات جدہ نکل گئے۔ میاں صاحب شاید اس طعنے کا بوجھ نہیں اٹھا پائے اور پاکستان لوٹ کر غوث علی شاہ سے جان چھڑا لی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی رہائی کیلئے برطانیہ یا پاکستان کے چند طاقتور حلقوں کی طرف سے کوششوں کی خبر محض افواہ ہے؟ حکومت کی گھڑی اٹکی ہوئی ہے تاکہ عمران خان اور ان کے حامیوں کو گندا کیا جا سکے کہ وہ این آر او مانگ رہے ہیں؟ اگرچہ کچھ سنجیدہ حلقے اس بات کو کنفرم کرتے ہیں کہ بات چیت چلی تھی لیکن جو سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اب عمران خان کی گارنٹی کون سا ملک دے گا‘ جیسے بینظیر بھٹو کی امریکہ اور نواز شریف کی سعودی عرب نے دی تھی۔ عمران خان تو سب سے لڑچکے ہیں۔ امریکہ کو وہ سازش کا حصہ سمجھتے ہیں بلکہ اپنا دشمن نمبر وَن سمجھتے ہیں۔ یورپین یونین کا خط تو میلسی کے جلسے میں لہرا کر کہا تھا کہ ہم غلام تھوڑی ہیں کہ آپ کے کہنے پر اقوامِ متحدہ میں روس کے یوکرین حملے پر مذمتی قراردادکے حق میں ووٹ ڈال دیں۔ چین کے ساتھ تعلقات یہاں تک بگڑے کہ وہ سی پیک کو پیک کر گئے تھے۔ سعودی شہزادے بارے جو گفتگو کابینہ اجلاسوں سے رپورٹ ہوئی اس کا کیا ذکر کریں۔ رہ گیا برطانیہ جہاں خان صاحب کے بچے رہتے ہیں تو وہ بھی ناراض تھا کہ خان صاحب ہر تقریر میں انہیں بھی رگڑا لگاتے تھے کہ انہوں نے پاکستانیوں کی کرپشن کا پیسہ منی لانڈرنگ ذریعے وہاں چھپایا ہوا ہے۔ عمران خان واحد پاکستانی وزیراعظم تھے جو ساڑھے تین سال تک برطانیہ کے دورے پر نہیں گئے۔ تین دفعہ دورے کے تاریخ طے ہوئی پھر نہیں گئے۔ پتہ چلا کہ انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ روحانی اعتبار سے ان کا برطانیہ کا دورہ ان کے اقتدار کیلئے نقصان دہ ہوگا۔ خان صاحب برطانیہ نہیں گئے کہ خدشہ تھا وہ اپنے بچوں سے نہ مل لیں۔ ساڑھے تین سال نہ بچے پاکستان آئے نہ خان صاحب برطانیہ گئے کہ روحانی شخصیت نے منع کر رکھا تھا۔
اب بتائیں خان صاحب کی ضمانت کون دے ؟