ملک میں جو بھی ہو رہا ہے مجھے اس پر کوئی حیرانی نہیں اور نہ ہی میں پریشان ہوں۔ آپ کو شاید میری بات عجیب لگے کہ یہ بندہ بڑا بے حس ہے جسے اس ملک کی پروا نہیں۔ پورا ملک ڈسٹرب ہے‘ ہر بندہ پریشان ہے اور یہ اپنی مستی میں ہے۔ وہی بات کہ آگ لگے بستی میں‘ ہم اپنی مستی میں۔
لندن سے دوست ہارون طاہر اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بھائی جان 2007ء میں آپ لندن چھوڑ آئے تھے‘ کبھی افسوس نہیں ہوا؟ میں کہتا ہوں کہ ایک سکینڈ کیلئے بھی نہیں۔ باقی دوست بھی یہی سوال پوچھتے ہیں۔ اب زیادہ پوچھنے لگ گئے ہیں۔ میں انہیں بھی یہی جواب دیتا ہوں۔ میں پاکستان سے 15‘ 20دن سے زیادہ باہر نہیں رہ سکتا۔ جو سکون اور ملکیت کا احساس اس دھرتی پر ہوتا ہے وہ مجھے کہیں محسوس نہیں ہوا۔ جب لندن میں رپورٹنگ/ پڑھائی کیلئے گیا تھا تب بھی وہاں دل نہیں لگتا تھا۔ وہ تو بیوی بچے ساتھ تھے لہٰذا بیزاری اور افسردگی ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھی‘ لیکن جو سکون واپس آکر ملا وہ بیان سے باہر ہے۔ دوستوں اور اپنے خونی رشتوں سے دور رہنا ایک عذاب محسوس ہوتا تھا۔ اگرچہ لندن میں شعیب بٹھل‘ صفدر عباس زیدی‘ مظہر بھائی اور دیگر دوستوں کی صحبت میسر تھی لیکن پھر بھی پاکستان واپس کھینچتا تھا۔ میری واپسی کے اصولی فیصلے سے شعیب اور صفدر بھائی کے چہرے پر پھیلنے والی اداسی آج بھی یاد ہے۔
اب سبھی اس ملک سے مایوس لگتے ہیں‘ وہ ملک چھوڑ رہے ہیں۔ یہاں سیاستدانوں اور مقتدرہ کے درمیان جو لڑائی جاری ہے اس سے پہلے وہ کبھی نظر نہیں آئی تھی۔ اوپر سے سوشل میڈیا کے اس دور میں اب لوگ اپنے ملک کا موازنہ دوسرے ملکوں سے کرنے لگے ہیں۔ انہیں لگتا ہے یا انہیں یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ یہ ملک اب ڈوب رہا ہے لہٰذا ہر بندہ پریشان ہے۔ میں نے ان لوگوں کو بھی پریشان دیکھا ہے جو ایک دن میں ایک کروڑ روپے کماتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک دوست نے اپنے فارم ہاؤس پر دوستوں کا کھانا رکھا ہوا تھا۔ میں وہاں پہنچا تو فارم ہاؤس کے باہر قیمتی گاڑیوں کی طویل قطار دیکھ کر حیران ہوا۔ فارم ہاؤس کے اندر داخل ہوا تو مہمانوں کی خاصی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ کچھ دوستوں سے گپ شپ ہونے لگی تو سب نے ایک ہی سوال کیا کہ اس ملک کا کیا بنے گا؟ وہ سب پریشان لگ رہے تھے۔ جب میں امیر لوگوں کو پریشان دیکھتا ہوں تو مجھے قابلِ احترام کالم نگار ہارون الرشید کا فقرہ یاد آتا کہ امیر بندے کو پیسوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ ہر وقت ڈرتا رہتا ہے کہ پیسہ کم ہو گیا تو اس کا لائف سٹائل متاثر ہوگا‘ لہٰذا وہ ہر لمحہ مزید پیسہ کمانے کے چکر میں رہتا ہے۔ میں ان کروڑ پتی لوگوں کے چہرے پر پھیلی پریشانی دیکھ کر چپ رہا کہ باہر ایک ایک گاڑی آٹھ آٹھ‘ دس دس کروڑ روپے سے کم کی نہ تھی۔ بچے ان کے امریکہ اور لندن میں پڑھ رہے ہیں۔ اکثر کے پاس امریکہ‘ کینیڈا اور برطانیہ کی شہریت ہے۔ پاکستان میں بڑے بڑے گھر ہیں پھر بھی وہ غریب سے زیادہ پریشان ہیں۔ میں ایسے پریشان دوستوں کو ایک ہی بات کہتا ہوں کہ کیا ہمارے حالات یوکرین سے بھی خراب ہیں‘ جہاں لاکھوں لوگ مارے گئے ہیں۔ پورا ملک تباہ ہو گیا ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک‘ جو دو سال پہلے پوری دنیا کو گندم فراہم کررہا تھا‘ اب اس کے شہری اپنے ملک سے بھاگ کر یورپ میں پناہ لیے بیٹھے ہیں۔ امریکہ کو دیکھ لیں‘ وہاں ٹرمپ اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑ رہا ہے۔ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس میں واپس آنا ان کے مفادات کے خلاف ہے۔ امریکہ میں اب نفرت بڑھ رہی ہے۔ انڈیا کو دیکھ لیں‘ وہاں کتنی نفرت پھیل چکی ہے۔ انسانوں کو مذہب کے نام پر مارا جاتا ہے۔ وہاں تو 76برس سے جمہوریت ہے‘ وہاں فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔ اور تو اور مودی اپنے ملک کے مسلمان شہریوں کو گھس بیٹھیے قرار دے رہا ہے۔ نفرت پھیلانے کے باوجود مودی کا ووٹ بینک بڑھ رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس نفرت کے ساتھ مودی تیسری دفعہ وزیراعظم بن جائے گا۔ یورپ کو دیکھ لیں‘ وہاں ایشیائی افراد کے خلاف نسلی امتیاز بڑھ رہا ہے۔ یورپینز کا کہنا ہے کہ باہر سے ان کے ملکوں میں آنے والے کچھ عرصہ بعد ان کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کی اپنی کم ہوتی آبادی کی وجہ سے انہیں دوسرے ممالک سے لوگوں کو اپنے ہاں بسانے کی ضرورت ہے‘ لیکن بہت جلد انہیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ افرادی قوت کی کمی پوری کرنے کیلئے اوپن بارڈر پالیسی جاری رکھنی ہے یا پھر اپنا معاشرہ اور کلچر بچانا ہے۔
اس لیے اگر پاکستان بحران سے گزر رہا ہے تو تسلی رکھیں‘ دنیا کا ہر ملک کسی نہ کسی سنگین بحران کا شکار ہے۔ 'دی اکانومسٹ‘کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا کہ یورپ کو جہاں یوکرین جنگ نے بہت نقصان پہنچایا ہے وہیں چین بھی اُن کیلئے خطرے کا باعث بنا ہوا ہے جس کی مصنوعات اب یورپی مارکیٹوں کو فلڈ کرنے والی ہیں۔ بالخصوص الیکٹرک کاروں کی سستی چینی ٹیکنالوجی بہت بڑا خطرہ بن کر اُبھر رہی ہے۔ شاید یورپ میں بھی بیروزگاری بڑھ جائے گی۔ یہی خطرات امریکہ کو بھی لاحق ہیں جو اب یورپی برآمدات پر ٹیکس لگانے کا سوچ رہا ہے۔
ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ ہمارا ملک ترقی کرے‘ مگر یہ کیسے ممکن ہوگا؟ ہمارا کوئی سیاستدان صبح نو سے شام پانچ بجے تک نوکری نہیں کرتا۔ اس نے تنخواہ سے اپنا گھر نہیں چلانا۔ اسے اپنے بچوں کی فیس کی فکر نہیں ہے۔ اس نے گھر کی بجلی یا گیس کا بل نہیں دینا۔ اس نے پٹرول‘ ڈیزل گاڑیوں میں نہیں ڈلوانا۔ جب سیاستدان حکومت میں ہوتے ہیں تو ان کے یہ سب اخراجات عوام کے ٹیکس سے پورے ہوتے ہیں۔ اگر اپوزیشن میں آ جائیں تو پھر ان کے پاس بڑی بڑی پارٹیاں ہوتی ہیں جن کے وہ حکومت میں رہتے ہوئے کئی کام کر چکے ہوتے ہیں۔ وہ اربوں کے کام لے کر ان کو کروڑوں کا پارٹی فنڈ دیتے رہتے ہیں۔ پارٹی ٹکٹ بکتے رہتے ہیں۔ ان کا شغل سیاسی انتشار ہے جس پر انہیں ووٹ ملتا ہے۔ اب ہر پاکستانی سیاستدان اور حکمران بننا چاہتا ہے۔ سیاست نہ صرف کاروبار ہے بلکہ طاقت کا ہتھیار ہے۔ یہی وجہ ہے لوگ مریں گے‘ جلیں گے‘ جیلوں میں جائیں گے لیکن طاقت کے کھیل سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حالیہ الیکشن ہی دیکھ لیں جس میں پارٹی ٹکٹ کا معیار قابلیت یا ایمانداری نہیں تھا بلکہ ہر کوئی یہ گنوا رہا تھا کہ اس نے کتنے دن پولیس کی مار کھائی یا جیل میں رہا۔ آپ نوٹ کریں‘ ہر ورکر یہی کہے گا کہ اس نے پولیس کی مار کھائی ہے لہٰذا اس کا حق ہے کہ اسے الیکشن ٹکٹ ملے۔ یہی معیار پیپلز پارٹی کا تھا کہ ضیا الحق دور میں کس نے شاہی قلعہ بھگتا یا کوڑے کھائے۔ پرویز مشرف دور میں نواز شریف کے ورکرز بھی اپنا سی وی جیل قید کو قرار دیتے تھے۔ اب عمران خان کی پارٹی کے ورکرز بھی پولیس سرٹیفکیٹ لے کر پھرتے ہیں۔ میں نے کبھی کسی امیدوار کو یہ کہتے نہیں سنا کہ اسے پارٹی کا ٹکٹ دیا جائے کیونکہ وہ پڑھا لکھا ہے‘ سمجھدار ہے اور وہ اپنی ذہانت سے ملک کی خدمت کر سکتا ہے۔ سب پارٹی پارٹی لیڈرز سے وفاداری کے قصے سنائیں گے۔ کبھی نہیں بتائیں گے کہ پارٹی یا لیڈر سے وفاداری سے ہٹ کر ان کی قابلیت یا معاشرے کے لیے کیا خدمات ہیں۔
ملک مختلف گروہوں اور جتھوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ہر گروہ نے اپنا الگ سردار چن رکھا ہے اور ان سیاسی سرداروں نے ایک دوسرے سے لڑائی میں عوام کو دیوار میں چن دیا ہے کیونکہ یہی ان سب کا کاروبار ہے۔ یہی ان کی 9تا5 جاب ہے۔ یہ ان کی کمائی ہے اور یہی ان کا دھندا ہے۔انشا جی یاد آئے کہ وحشی کو سکوں سے کیا مطلب۔