حکمران کوئی بھی ہو‘ آپ کو عوام سے ہمیشہ ایک ہی بات سننے کو ملے گی۔ اب کیا ہو گا‘ ہمارا کیا بنے گا‘ پاکستان کا کیا بنے گا؟ آپ کوئی مثبت بات کرنے کی کوشش کریں تو آگے سے لوگ آپ کے گلے کو آئیں گے۔ وہ منفی بات سننا چاہتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی کچھ مثبت کہنا چاہا ہو اور اُسے آگے سے سراہا گیا ہو۔ پھر مجھے اندازہ ہوا کہ ہم اینکرز‘ صحافی‘ سیاستدان اور دانشور کیوں ہر وقت یہ رونا پیٹنا جاری رکھتے ہیں کہ ملک پر آسمان گرنے والا ہے‘ کیونکہ لوگ یہی سننا چاہتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ اعلیٰ زندگی گزار سکتے ہیں لیکن نہیں گزار پا رہے‘ بھلے وہ اس کے لیے محنت بھی نہ کر رہے ہوں کیونکہ انہیں ہر سہولت مفت میں مطلوب ہے۔ اکثر امیر لوگ زیادہ غیر مطمئن ہوتے ہیں۔ انہیں ہر وقت خطرہ رہتا ہے کہ اگر ان کی دولت میں کوئی کمی آ گئی تو ان کی کوالٹی آف لائف متاثر ہوگی۔ غریب ہمیشہ آپ کو اللہ کا شکر ادا کرتا ملے گا‘ امیر آدمی بہت کم۔
میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں گاؤں گیا تو لوگ بزدار اور عمران حکومت سے تنگ تھے اور مجھ سے ناراض کہ میں دبا کر کیوں ان کے خلاف گفتگو نہیں کر رہا۔ بعد میں جب شہباز شریف آئے تب بھی وہ لوگ مجھ سے خفا تھے کہ ہاتھ کیوں ہولا رکھا ہوا ہے۔ میں اُن سے کہتا کہ آپ نے ہی ان لوگوں کو سر پر بٹھایا ہے‘ میں نے تو عمران خان یا شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیا‘ نہ انہیں سلیکٹ یا الیکٹ کیا ہے۔ آپ خود انہیں ووٹ ڈالتے اور انہیں سر پر بٹھاتے ہیں اور کچھ عرصے بعد سیاپا شروع ہو جاتا ہے۔ حکمران طبقات میں سے کون ہے جو آپ کے خیال میں معمولی نوکری کرکے پیسے کماتا ہے؟ ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے جیب سے بجلی‘ گیس اور پٹرول کے بل بھرنے ہیں یا بچوں کی فیسیں دینی ہیں۔ ان سب کا کام قوم کو مسلسل ہیجان میں مبتلا رکھنا ہے۔ ان پر ہر وقت یہ خوف طاری رکھنا ہے کہ اگر انہیں اس ملک کا سربراہ نہ بنایا گیا تو ملک برباد ہو جائے گا۔ اچھے خاصے لوگوں کو میں نے پریشان دیکھا ہے کہ پتا نہیں رات تک کیا ہو جائے۔ صبح اٹھ کر دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر وہ ٹی وی لگاتے ہیں یا ٹویٹر و فیس بک کھولتے ہیں تو پتا چلتا ہے جو آسمان کل گرنا تھا‘ وہ آج شام تک گرے گا۔ یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔ ابھی تک تو کوئی آسمان نہیں گرا۔
اگلے روز میں رؤف حسن کا ایک بیان پڑھ رہا تھا۔ انہیں لگتا ہے کہ پاکستان کے نام پر صرف پنجاب اور سندھ ہی رہ جائیں گے۔ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور دیگر علاقوں کو وہ پاکستان سے مائنس کیے بیٹھے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر فوری طور پر عمران خان کو وزیراعظم نہ بنایا گیا تو پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ خیبرپختونخوا کے حوالے سے ڈرایا جاتا ہے۔ ویسے اتنے برسوں میں خیبرپختوانخوا سے کتنے لوگوں نے افغانستان ہجرت کی یا افغانستان کا پاسپورٹ بنوانے کی کوشش کی یا کبھی کہا ہو کہ ڈیورنڈ لائن ختم کرکے انہیں افغانستان کے ساتھ ملا دیا جائے؟ میں نے تو ولی خان جیسے قوم پرست پشتونوں کی بھی جو وڈیوز دیکھی ہیں اُن میں وہ افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کی بات کررہے ہیں کہ اس سے پشتون معاشرے پر برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ ہمارے دوست میجر (ر) عامر‘ جو پشتون ہیں‘ اکثر کہتے ہیں کہ یہ شوشا چھوڑنے والے کبھی خیبرپختونخوا میں ریفرنڈم کرا کے دیکھ لیں کہ کتنے لوگ افغانستان کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں؟ ان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔رؤف حسن یا اُن جیسے دیگر لوگوں کو کیوں لگتا ہے کہ پاکستان صرف پنجاب اور سندھ تک سکڑ جائے گا؟
افغانستان میں 1979ء کے بعد روس نے جنگ لڑی اور وہاں قبضہ کیا مگر وہاں صوبے الگ ہوئے‘ نہ الگ ملک بنا۔ ازبک‘ تاجک‘ ہزارہ اور پشتون ایک دوسرے کے ساتھ خانہ جنگی میں مصروف رہے ‘ پھر بھی وہ ملک نہیں ٹوٹا۔ امریکہ 20سال تک افغانستان میں رہا۔ جنگ لڑی تو بھی افغانستان قائم رہا۔ بے چارے ہزاروں‘ لاکھوں لوگ اس دوران مارے گئے‘ دربدر ہوئے مگر افغانستان قائم رہا تو پی ٹی آئی رہنماؤں کو کیوں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان صرف سندھ اور پنجاب تک محدود رہ جائے گا۔ عراق اور ایران کے درمیان بھی دس سال جنگ ہوئی لیکن دونوں ملک قائم رہے۔ عراق پر امریکیوں نے قبضہ کر لیا تو بھی وہاں کوئی نیا ملک نہیں بنا۔ اس طرح لیبیا اور شام میں بھی خانہ جنگی رہی اور اب بھی ہے لیکن وہاں کسی نے نیا ملک نہیں بنایا لیکن ہمیں لگتا ہے کہ بس آج کل میں ہمارے ہاں کچھ ہونے والا ہے۔ یہ Chaos جان بوجھ کر پھیلایا گیا ہے کہ ہمارا لیڈر یا ہماری مرضی کا لٹیرا حکمران ہے تو ملک سلامت ہے ورنہ ملک ڈوبنے چلا ہے۔
یقینا اس خوف کی وجہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کا الگ ہونا بھی ہے۔ 53 برسوں کے دوران کئی لوگ یہ پیش گوئی کرتے دکھائی دیے کہ موجودہ پاکستان بھی تقسیم ہو گا۔ آپ کو بیشتر دانشور‘ سیاستدان‘ حکمران‘ بیوروکریٹ یا اینکر یہی کہتے ملیں گے کہ ہم نے 1971ء سے سبق نہیں سیکھا۔ مزے کی بات ہے کہ یہ بات وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو اس ملک کے حکمران رہے ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان کو اکثر کہتے سنا گیا ہے کہ ہم نے 1971ء سے سبق نہیں سیکھا۔ سبق اُن لوگوں نے سیکھنا تھا جو حکومت میں تھے یا عوام نے؟ مشرقی پاکستان کے حالات شروع سے مختلف تھے۔ بعض مورخین کے نزدیک جلد یا بدیر مشرقی پاکستان نے الگ ہونا ہی تھا۔ بعض بنگالیوں کے بقول‘ قراردادِ پاکستان میں دو مسلم ملکوں کا مطالبہ ہونا تھا لیکن پھر آخری وقت پر سوچا گیا کہ پہلے ایک ملک مل جل کر حاصل کر لیں‘ باقی بعد میں دیکھ لیں گے۔ عقل کا تقاضا تھا کہ پہلے دن سے مشرقی پاکستان کے ساتھ کنفیڈریشن بنالی جاتی یا آزاد کشمیر ٹائپ وہاں کا نظام ہوتا‘ تاکہ بنگالیوں کا اپنا وزیراعظم اور اپنی پارلیمنٹ ہوتی۔ مشرقی پاکستان کی سرحدیں مغربی پاکستان سے نہیں ملتی تھیں۔ درمیان میں بھارت تھا۔ جغرافیائی طور پر مشرقی پاکستان پہلے دن ہی سے ایک الگ ملک تھا۔ رہی سہی کسر ہمارے حکمرانوں نے پوری کر دی۔ ہم چاہتے تو محبت و پیار کے ساتھ یہ سب کر سکتے تھے جو بنگالیوں نے خود کر لیا اور بنگلہ دیش بن گیا۔
کیا بھارت میں ہم سے کم مسائل ہیں؟ وہاں اس وقت جو دنگل چل رہا ہے آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ دہلی کا وزیراعلیٰ چند دن پہلے جیل سے حکومت چلا رہا تھا اور اب پھر وہ جیل جانے لگا ہے۔ وہاں کسی کو نہیں لگتا کہ دہلی بھارت سے الگ ہونے جا رہا ہے کیونکہ دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ بھارت میں درجنوں علیحدگی پسند تحریکیں چلتی رہی ہیں اور اب بھی چل رہی ہیں لیکن وہ ابھی تک نہیں ٹوٹا۔ ہاں‘ ان کے حکمران اور پارلیمنٹرینز آتے جاتے پاکستان بارے یہ پیش گوئی ضرور کرتے رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلی صدی میں ایک غیرملکی تھنک ٹینک کی رپورٹ بہت مشہور ہوئی تھی کہ پاکستان کے درجن بھر ٹکڑے ہو جائیں گے‘ بلکہ نقشے تک بنا دیے گئے تھے۔ رپورٹ میں جو ڈیڈ لائن دی گئی تھی‘ اسے گزرے اتنے برس بیت چکے کہ اب تو کسی کو وہ رپورٹ یاد تک نہیں ہوگی جس پر کبھی اتنا رولا پڑا تھا۔ پاکستان کے عوام پر خوف اور لالچ سے حکمرانی کی جا سکتی ہے اور پاکستانی سیاستدان یہ دونوں ہتھیار عوام پر آزماتے رہے ہیں۔ یہ سیاستدان اور لیڈران ہر صبح اٹھ کر عوام کو بتاتے ہیں کہ کل رات جو آسمان گرنا تھا‘ وہ آج شام تک گرے گا۔ اور پوری قوم سب کچھ چھوڑ کر آسمان کو تکنا شروع کر دیتی ہے کہ کب گرے گا تاکہ گرتے آسمان کی وڈیو بنا کر فوراً سوشل میڈیا پر ڈال کر ڈالرز کما سکیں۔