جوں جوں سابق وزیراعظم عمران خان کا جیل میں وقت زیادہ ہو رہا ہے ان کی پارٹی پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ خان کو جلدی جیل سے نکلوائیں۔ لیکن اس سوال کا جواب پی ٹی آئی میں کسی کے پاس نہیں کہ وہ خان صاحب کو کیسے جیل سے باہر نکلوائیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ خود خان صاحب کو بھی یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ ان کا باہر آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بار بار خان کے قریبی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کوئی ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ حکومت مجبور ہو کر انہیں رہا کر دے اور وہ دوبارہ اپنا احتجاجی محاذ کھول لیں۔
لگتا ہے کہ خان کو اب آصف زرداری کی یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ دو سال تو جیل کو سمجھنے میں لگ جاتے ہیں اور دو سال بعد جیل آپ سے پہلی دفعہ پوچھتی ہے کہ ہاں سائیں! کیا حال ہے‘ کیسی گزر رہی ہے؟ ابھی تو عمران خان کو جیل میں ایک سال ہوا ہے۔ اگر پاکستان میں کوئی جیل لائف پر کمنٹ کرنے کا استحقاق رکھتا ہے تو وہ آصف زرداری ہیں۔ وہ اب تک مختلف مقدمات میں تقریباً چودہ برس جیل میں گزار چکے ہیں۔ ان کی یہ بات درست لگ رہی ہے کہ خان اگلا سال جیل میں گزارنے کو تیار نہیں۔ بشریٰ بیگم کی بہن مریم وٹو صاحبہ‘ جو پاکستان سے باہر ہیں‘ انہوں نے پہلے اس پہلو پر توجہ دلائی کہ پارٹی لیڈرز نے عمران خان سے جو فوائد لینا تھے وہ لے لیے اور اب وہ سب خان صاحب اور بشریٰ بیگم کو جیل میں اکیلا چھوڑ کر مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ ٹکٹس لے کر ایم این اے اور سینیٹرز بن گئے‘ اور اس کے بعد وہ اب کہیں نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی لیڈران کو عمران خان اور بشریٰ بیگم کو جیل سے باہر لانے کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی اور اس جدوجہد سے ان کی مراد یہ تھی کہ وہ لوگوں کو باہر نکالیں‘ احتجاج کریں اور حکومت کو مجبور کر دیں کہ وہ خان کو باہر نکالے۔ مریم وٹو صاحبہ نے تو بشریٰ بیگم صاحبہ کی صحت کے حوالے سے بھی کافی تشویش بھری ٹویٹس کی تھیں جب یہ کہا گیا تھا کہ انہیں کھانے میں زہر دیا گیا ہے۔ اس پر بھی پارٹی نے بہت رولا ڈالا تھا۔ اس پر میڈیکل بورڈ بنے لیکن یہ الزام ثابت نہ ہوا کہ انہیں کھانے میں زہر دیا گیا تھا۔ اگر حکومت یا مقتدرہ عمران خان اور بشریٰ بیگم کے حوالے سے اپنا مؤقف سافٹ کرنے کا سوچ بھی رہی ہوتی ہے تو وہ آرمی چیف اور دیگر سینئر افسران کے خلاف سخت زبان کا استعمال کر کے اس ماحول کو دوبارہ وہیں لے جاتے ہیں جہاں نو مئی کو تھے۔ خان صاحب ایک طرف سمجھتے ہیں کہ بات چیت صرف مقتدرہ سے ہو سکتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ مقتدرہ کے خلاف سخت زبان بھی استعمال کرتے ہیں۔ عالمی اخبارات اور جریدوں میں سخت مضامین لکھ کر اپنا غصہ نکالتے رہتے ہیں‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب تک مقتدرہ اور عمران خان کے درمیان کوئی بریک تھرو نہیں ہو سکا۔ اگرچہ عمران خان نے کئی دفعہ کہا ہے کہ وہ مقتدرہ سے بات چیت کو تیار ہیں لیکن مقتدر حلقوں کی طرف سے کوئی جواب نہ ملنے پر وہ یا تو بیرونی اخبار میں کالم لکھ دیتے ہیں یا پھر ان کی سوشل میڈیا ٹیم نئے ٹرینڈز چلانا شروع کر دیتی ہے۔ عمران خان مقتدرہ سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہتے کہ وہ جیل میں رہ کر کمزور ہو گئے ہیں اور مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ جیل میں بیٹھے عمران خان جتنے بھی مضبوط ہوں‘ وہ پھر بھی کمزور پوزیشن پر کھڑے ہیں مگر وہ کسی صورت یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ اگرچہ ان کی ہمت اُس وقت بندھ جاتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی پارٹی نے آٹھ فروری کے الیکشن جیت لیے ہیں۔ پارٹی اراکین کے خلاف بدترین اقدامات کے باوجود ان کا ووٹ بینک بڑھ گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی پارٹی کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے۔ دن رات سوشل میڈیا پر وہ خود اور ان کی پارٹی ڈسکس ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ عالمی میڈیا جیسے لندن کے ٹیلی گراف اخبار اور دی اکانومسٹ جیسے جریدے‘ مقتدرہ کے خلاف خان کے آرٹیکلز چھاپتے ہیں۔ امریکن سینیٹ کمیٹی ڈونلڈ لُو کو بلا کر سائفر پر سماعت کرتی ہے۔ امریکی کانگریس حیران کن طور پر 368 ممبران کے ووٹ سے پاکستان کے حالیہ انتخابات پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ رہی سہی کسر اب یو این او کے ورکنگ گروپ کی فائنڈنگ نے پوری کر دی ہے۔ خان کو احساس ہے کہ ملک کا نوجوان طبقہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان کی پوزیشن مقتدرہ کے مقابلے میں بہت مضبوط ہے لہٰذا مقتدرہ کو ان کی شرائط پر مذاکرات کرنے چاہئیں۔ اور جب جواباً مقتدرہ خاموشی اختیار کرتی ہے تو خان صاحب جھنجھلا کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں کہ جس سے فضا پھر گرم ہو جاتی ہے اور ان کے مخالفین کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ ان پر مزید نئے کیسز بنواسکیں۔ جیسے اب ہوا ہے کہ 24 جون کے کابینہ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے عمران خان اور بیرسٹر گوہر کے خلاف بغاوت کے مقدمے کی منظوری دی ہے۔ عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے واقعات کو دہرا دہرا کر تاثر دیا جیسے وہ ملک کو توڑنا چاہتے ہیں اور نوجوان نسل کو مسلسل 1971ء کے واقعات کا حوالہ دے کر اُکساتے رہتے ہیں کہ وہ بھی یہی روٹ لیں۔ اس نئے مقدمے کا مطلب ہے اگر عدت کیس ختم بھی ہو جائے تو عمران خان باہر نہیں آسکیں گے۔
اب عمران خان کے پاس اپنی رہائی کا ایک ہی حل ہے کہ عوام ان کے لیے سڑکوں پر نکلیں اور انہیں جیل سے ریلیز کرائیں۔ اس سوچ کا شکار ہو کر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے‘ اور وہاں قبضہ کرکے عمران خان کو جیل سے رہا کرا لیں گے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ اگر ان کی پارٹی جلسے‘ جلوس اور مظاہرے کرے تو ان کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ اس لیے ان کی پارٹی کے اندر بھی لڑائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ اور مبینہ طور پر کئی گروپس بن چکے ہیں۔ ایک گروپ لڑنے کے حق میں ہے جبکہ دوسرا صلح صفائی کا قائل ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو پارٹی کے اندر صلح یا درمیانی راستے کی بات کرتا ہے اس کو فوراً غدار کہہ دیا جاتا ہے۔
نئی پی ٹی آئی کے اندر پہلے بھی مختلف گروپس کی لڑائی چل رہی تھی۔ وہ سب خود کو غیر محفوظ سمجھتے تھے۔ اب اوپر سے پرانی پی ٹی آئی والے دوبارہ پارٹی میں اپنی واپسی چاہتے ہیں جس میں فواد چودھری‘ عمران اسماعیل اور علی زیدی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن نئی پی ٹی آئی ان سب کو واپس نہیں آنے دینا چاہتی کہ وہ پارٹی پر حاوی ہو جائیں گے۔ یوں ایک دنگل لگا ہوا ہے۔ اس موقع پر‘ جب عمران خان حکومت اور اداروں پر دباؤ بڑھانے کے لیے عوامی مظاہرے چاہتے ہیں‘ اس وقت وہ سب ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ عمران خان کسی کو بھی غلط نہیں کہہ رہے۔ انہوں نے اب تک دونوں گروپس کی لڑائی ختم کرانے کے لیے کوئی واضح بات نہیں کی جس سے لڑائی میں مزید شدت آگئی ہے۔ ان کی اس بات سے مزید کنفیوژن پھیلی کہ جب وہ جیل سے باہر آئیں گے تو فیصلہ کریں گے کہ کس کس کو واپس لینا ہے۔ اس بیان سے لڑائی مزید بڑھ گئی ہے۔ لگتا ہے اس لڑائی میں عمران خان نیوٹرل ہیں اور وہ نہ فواد چودھری کے ساتھ ہیں نہ ہی شیر افضل مروت یا رؤف حسن یا عمر ایوب کے ساتھ ہیں۔
خان صاحب چاہتے تو اپنی پارٹی کے اندر جاری لڑائی ختم کرا سکتے تھے تاکہ سارا فوکس ان کی رہائی اور عوامی دباؤ پر رہے لیکن اس وقت وہ ایک نیوٹرل امپائر کی طرح پاپ کارن تھامے اپنی پارٹی میں جاری لڑائی‘ مارکٹائی اور ایکشن سے بھرپور فلم ''دنگل 2024ء‘‘ کو پوری طرح انجوائے کررہے ہیں۔