ہم انسانوں کے بنائے محاورے بھی دلچسپ اور معنی خیز ہوتے ہیں۔ ہمیں تو بنے بنائے پڑھنے یا سننے کو مل جاتے ہیں لیکن ان کے پیچھے صدیوں کے نہیں تو برسوں یا دہائیوں کے انسانی تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے۔ ایسا نچوڑ کہ آپ ان باتوں کو جھٹلا نہیں سکتے۔ جب سے پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ سے ملنے والے غیرمعمولی ریلیف پر اس پارٹی کے حامیوں اور خود عمران خان کا خوشی سے لبریز ٹویٹ پڑھاہے تو یہی محاورہ ذہن میں ابھرا۔ آپ پوچھیں گے اس محاورے کا بھلا عمران خان‘ پی ٹی آئی یا مخصوص سیٹوں سے کیا تعلق ہے؟ بالکل تعلق ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو دو سال پہلے سب لوگ عمران خان کو کہہ رہے تھے کہ آپ تحریک عدم اعتماد کے بعد پارلیمنٹ کو برطرف نہ کریں۔ اگر وزیراعظم سیٹ سے ہٹ گئے یا ہٹا دیے گئے ہیں تو بہتر ہے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپوزیشن کریں۔ پی ڈی ایم حکومت ایک دو ووٹوں پر کھڑی ہے‘ یہ تیرہ جماعتوں کا بھان متی کا کنبہ کسی وقت بھی لڑ پڑے گا۔ بھلا کیسے ایک وزیراعظم تیرہ پارٹیوں کو خوش رکھ سکے گا؟ سب سے پہلے تو پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ دست و گریباں ہوں گے۔ اگر زرداری اور شہباز شریف نے شرافت اور سمجھداری دکھا بھی دی تو مولانا فضل الرحمن کب تک صبر کا دامن پکڑ کر بیٹھیں گے؟ اگر مولانا بھی کچھ نظر انداز کر گئے تو ایم کیو ایم اُچھل پڑے گی۔ اگر ایم کیو ایم کو اداروں نے سمجھا دیا تو بلوچ قوم پرست جماعت آسمان پر سر اٹھالے گی۔ مطلب یہ پی ڈی ایم کی دکان چلتی نظر نہیں آتی۔ اس دوران عمران خان کا دائو لگ سکتا ہے اور وہ دوبارہ ہاؤس کے اندر سے تبدیلی لاکر وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ سیاست نام ہی صبر کر کے دائو لگانے کا ہے۔ لیکن اُس وقت عمران خان بہت غصے میں تھے اور ان کے غصے کا فائدہ زرداری اور شریفوں نے اٹھایا۔ یوں عمران خان نے قومی اسمبلی چھوڑدی۔ چلیں قومی اسمبلی چھوڑی تو پنجاب اور کے پی حکومتیں تو رہنے دیتے۔ لیکن اگلا حملہ پنجاب پر ہوا۔چودھری پرویز الٰہی منتیں کرتے رہ گئے کہ ان سے حکومت مت تڑوائیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ عمران خان وزیراعظم نہ رہیں لیکن پرویز الٰہی اور محمود خان وزیراعلیٰ بن کر مزے کرتے رہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی توڑ دی گئی‘ کچھ ہی روز میں پنجاب میں محسن نقوی نگران وزیراعلیٰ لگ چکے تھے۔ پرویز الٰہی جو چند دن پہلے تک وزیراعلیٰ تھے ان کے گھر پر پولیس نے ریڈ کیا ‘ کچھ دن بعد وہ گرفتار ہو کر جیل میں تھے۔ چند ہفتے پہلے جو وہ رہا ہوئے ہیں‘ سنا ہے کہ منت ترلے اور کئی شخصی ضمانتوں کے بعد رہا ہوئے ہیں۔
وہی پارٹی جس نے قومی اسمبلی سے اپنے ڈیڑھ سو ارکان کو استعفیٰ دلوا کر گھر بھیج دیا تھا وہ آج خواتین کی چند مخصوص سیٹیں واپس ملنے پر شادیانے بجا رہی ہے۔ جس کے پاس پورا پنجاب تھا وہ وہاں خواتین کی درجن بھر سیٹوں پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی۔ آپ اندازہ کر لیں کہ غصے میں کیے گئے فیصلے کتنا برا اثر رکھتے ہیں کہ آپ منزل سے میلوں دور جا نکلتے ہیں۔اگرچہ عمران خان سرعام اپنی غلطیاں نہیں مانتے لیکن وہ جیل جانے سے پہلے نجی محفلوں میں یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ ان کے دو تین وزیروں نے انہیں مروا دیا ‘جنہوں نے ان سے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دلوائے‘ پھر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی تڑوائی اور آخر میں ساتھیوں سمیت جیل جا پہنچایا اور آج تک وہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہی سابق وزیر اور مشیر جنہوں نے خان کو اس طرف دھکیلا تھا وہ آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ خان کا یہ فیصلہ ٹھیک تھا۔ اس فیصلے کی وجہ سے تو خان اتنا مقبول ہوگیا ہے کہ اب مقتدرہ سے بھی بڑا ہوگیا ہے اور پاکستان کا مقبول ترین لیڈر ہے۔ ان کا خیال ہے خان کا جیل جانا پارٹی کے لیے بہت مفید ثابت ہوا۔ اس لیے پی ٹی آئی میں دو‘ تین سمجھدار لوگوں کا کہنا ہے کہ لگتا ہے پی ٹی آئی قیادت بھی نہیں چاہتی کہ خان جیل سے باہر نکلے۔ جب تک وہ جیل میں ہے پارٹی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اس مقبولیت کو آپ نے کیش کرا کے اقتدار میں بھی آنا ہوتا ہے۔ جیل میں رہنا آپ کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند ہوسکتا ہے لیکن آپ کی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔
مان لیا عمران خان کی پلاننگ ٹھیک تھی کہ وہ اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کرا کے اگلے پانچ سال پکے کر لیں گے لیکن وہ بھول گئے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں سیاستدان اب بھی مقتدرہ کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں‘اتنا بوجھ ڈالنا بہت بڑا رسک تھا۔ یہ بوجھ موجودہ نظام نہیں اٹھا سکتا تھا۔ اس نظام اور اداروں میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ اس بوجھ کو افورڈ کرتے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ خان نے نو مئی کو عوامی پاور دکھائی تومقتدرہ کو موقع مل گیا۔وہ بڑے عرصے سے انتظار میں تھی کہ عمران خان اور ان کے فالورز کوئی لوز بال کریں تو وہ سب کچھ لپیٹ دیں۔ خان کو وہ ڈھیل دیتے گئے اورخان سمجھا سب ڈر گئے ہیں لہٰذا وہ بھی ہمت بڑھاتے گئے اور ایک دن اس اعتماد کے سہارے خان نے بم کو لات ماری اور پھر جو کچھ ہوا وہ ہم سب جانتے ہیں۔
پی ٹی آئی عوام میں مقبول ہے اور الیکشن جیتی ہے اور اس کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔ اب عمران خان اگر اپنے پیچھے لندن ‘ یورپ یا امریکہ جیسے ادارے بنا کر چھوڑ گئے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی تو پھر ان کا گلہ کرنا جائز ہے۔ جب آپ خود اس نظام کو اپنے مخالفوں کے خلاف استعمال کررہے تھے تو اپنے لیے گڑھا کھود رہے تھے۔ عمران خان کے ساتھ مخالفین نے بھی وہی کچھ کیا جو وہ اُن کے ساتھ کرتے آئے تھے یا کرنا چاہتے ہیں۔ خان اپنی جلد بازی کی وجہ سے مشکلات میں گھرا ہے۔ اس لیے کسی نے کیا خوب بات کی تھی کہ عمران خان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ وہ خوش قسمت ہے کہ بعض دفعہ اس کے غلط فیصلوں کے نتائج بھی اچھے نکل آتے ہیں‘ لیکن پھر یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ ایک دن لَک ختم بھی ہوجاتی ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے لوگوں کی قسمت کا کوٹہ ختم نہ ہوتو وہ ساری عمر بادشاہ بن کر گزاریں۔ پھر وہ جلاوطنی کی زندگی کیوں گزاریں‘ پھانسی کیوں لگیں جیسے شاہِ ایران کے ساتھ ہوا یا بھٹو کے ساتھ یانواز شریف کے ساتھ ہوا جب انہیں دہشت گردی کے الزام میں عمر قید ہوگئی تھی۔
اس لیے کہا جاتا ہے انسان اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے اور ان غلطیوں کو دہراتے ہیں۔ جو لوگ صحیح وقت پر صحیح فیصلے نہیں کرتے اپنے لیے لاتعداد مسائل پیدا کر لیتے ہیں‘ ان کے بارے ہی کہا گیا ہے کہ ہاتھوں سے دی گئی گانٹھوں کو دانتوں سے کھولنا پڑتا ہے۔ وہی عمران خان جو ڈیڑھ سو سیٹوں کو لات ما ر کر قومی اسمبلی سے نکل آئے یا دو صوبائی حکومتیں تڑوا دیںوہ آج خواتین کی چند سیٹیں ملنے پر بے پناہ خوش ہیں۔ ان سیٹوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے انہیں دو سال کا طویل سفر طے کرنا پڑا ہے‘ پارٹی کا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے بشریٰ بیگم صاحبہ کو پارٹی لیڈروں کے ساتھ جیلیں بھگتنی پڑی ہیں۔ خان صاحب کو واپس اسمبلی جانے کے لیے سات دریا اور سمندر عبور کرنے پڑے ہیں اور اب بھی لگتا ہے کہ کشتی اتنی جلد کنارے نہیں لگنے والی۔ فیصلوں کی ایک قیمت ہوتی ہے اور عمران خان نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اب یہ نہیں پتاانہوں نے ان فیصلوں سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں‘یہ تو وقت بتائے گا کیونکہ سیانے کہتے ہیں چالیس سال کی عمر کے بعد سیکھنے کا عمل اگر رک نہیں جاتا تو سست ضرور ہوجاتا ہے۔