یہ بات طے ہے کہ سیاستدان اور میڈیا کبھی انسانوں اور معاشروں کو متحد نہیں کرتے۔ وہ انہیں تقسیم کرتے ہیں اور اس تقسیم کے ذریعے ہی ان کا اقتدار کی طرف راستہ نکلتا ہے۔یہ بات صرف پاکستان بارے نہیں ہے بلکہ ابھی امریکہ کو دیکھ لیں کہ وہاں ٹرمپ نے کیسے پورے امریکہ کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ بھارت میں مودی کو دیکھ لیں۔ پاکستان بارے کچھ بھی کہنے کی ضرورت ہے ؟ آپ سب جانتے ہیں۔
یہ انسانی مزاج ہے کہ ہمارے خیالات اور اپروچ ایک دوسرے سے نہیں ملتے بلکہ یہ ہماری فطری مینوفیکچرنگ ہے کہ ہم انسان مختلف ہوتے ہیں۔ ایک تو ہم ایک دوسرے سے مختلف اور اوپر سے پھر آپ کو ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو آپ کو مزید تقسیم کر کے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور آپ کو سمجھا دیا جاتا ہے کہ یہ کتنا نیک کام ہے۔چاہے لندن کے حالیہ فسادات ہوں یا امریکہ میں جاری لڑائیاں یا پاکستان میں سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلے لوگ ‘ یہ طے ہے انسان کو سکون کسی صورت نہیں۔ انسان بہتر سے بہتر کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے۔اپنی موجودہ حالت سے کوئی مطمئن نہیں ہوتا۔ اسے لگتا ہے کہ وہ جو زندگی گزار رہا ہے دوسرے اس سے اچھی زندگی گزار رہے ہیں یا ماضی کی زندگی بہتر تھی۔
میں نے اپنے جاننے والوں میں ایک چیز نوٹ کی ہے کہ ان سب کی زندگیاں پچھلے دس بیس برسوں میں ڈرامائی طور پر بدل گئی ہیں۔ وہ جو دس سال پہلے سڑک پر پیدل تھے وہ اب اچھی جاب اور گاڑیاں رکھ کر کے بھی مطمئن نہیں۔ ان کے نیچے گاڑی ہے‘ بچے پرائیوئٹ سکولز میں پڑھتے ہیں پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی کمی انہیں محسوس ہوتی ہے۔ میں نے چند دوستوں سے پوچھا جن کا برا وقت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے کہ ان کی زندگی آج بہتر ہے یا دس سال پہلے بہتر تھی؟ وہ جھجک کر کہتے ہیں: اب ہماری زندگی بہت بہتر ہے اور ساتھ ہی انہیں لگتا ہے کہ وہ یہ بات کر کے کوئی گناہ کر بیٹھے ہیں لہٰذا فوراً شکایات کا پلندہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ ثابت کر سکیں کہ ان کی موجودہ زندگی کتنی بدتر ہے۔ اس زندگی سے جب اُن کے پاس ویگن کے کرائے کے پیسے تک نہ تھے اور وہ پیدل چل پڑتے تھے۔
مجھے ناول نگار قرۃ العین حیدر کا ایک جملہ یاد آتا ہے‘ شاید اُن کے کسی ناول یا افسانے میں پڑھا تھا کہ انسان جب مشکل وقت سے گزر رہا ہوتو اسے لگتا ہے اس نے کبھی خوشی دیکھی تک نہیں۔ وہ پیدا ہی مشکلات میں ہوا تھا۔ وہ ہر وقت ان مسائل کو سوچتا ہے‘ خود کو کوستا ہے کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے لیکن جب وہ مشکل سے نکل جاتا ہے تو اسے لگتا ہے ایسے ہی بلاوجہ پریشان تھا‘ یہ بھی کوئی مسئلہ تھا۔ ویسے بھی دیکھا گیا ہے کہ ہم انسان ماضی کو زیادہ پسند کرتے ہیں لہٰذا ماضی کے قصے کہانیاں لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمارے بزرگ انگریزوں کے دور کو یاد کرتے تھے اور اسے سنہرا دور سمجھتے تھے حالانکہ اُس دور میں جلیانوالہ باغ جیسے واقعات بھی ہوئے جن میں سینکڑوں لوگوں کو بھون دیا گیا تھا۔ اگر اس انگریز دور کو پڑھیں تو لگتا تھا کہ ہر وقت ہڑتالیں اور گولیاں اور تحریکیں چل رہی تھیں چاہے وہ کانگریس کے لیڈرز چلا رہے تھے یا مسلم لیگ کے ۔ روز کوئی نہ کوئی جلسہ جلوس‘ ڈانگ سوٹا چلتا تھا۔ تقسیم کے وقت دس بارہ لاکھ بندے مارے گئے اور ایک کروڑ در بدر ہوئے لیکن ہمارے بزرگوں کو وہ دور اچھا لگتا ہے اور یاد ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ دور واپس نہیں آسکتا لہٰذا وہ ہمیں جسمانی یا ذہنی طور پر ڈسٹرب نہیں کرسکتا۔ ہم جس لمحے میں زندہ ہوتے ہیں وہ لمحے ہمیں لائف کو اچھا یا برا سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں اپنا وہ دور بھی اچھا لگتا ہے جب ہمارے گھر بجلی نہ تھی‘ گیس کا تو نام تک نہیں سنا تھا‘ لوگ اس وقت اونٹوں پر سفر کرتے تھے‘ اونٹوں پر بارات جاتی تھی (میں نے گائوں میں ایسی درجنوں شادیاں اپنے بچپن میں اونٹ پر سفر کر کے اٹینڈ کی ہوئی ہیں)۔ بلکہ یاد آیا دولہا دلہن کے لیے خصوصی طور پر اونٹ یا اونٹنی تیار کی جاتی تھی جس پر مختلف رنگوں کے کپڑے سجائے جاتے اور دور سے پتا چلتا تھا کہ دلہن کی سواری آرہی ہے۔ دولہا اونٹ پر دلہن کے ساتھ نہیں بیٹھتا تھا بلکہ وہ اس اونٹ کے ساتھ ساتھ دلہن والی سائیڈ پر پیدل چلتا تھا جیسے اس کا تحفظ کررہا ہو۔ اکثر دولہے تو ہاتھ سے اونٹ پر رکھے کجاوے(سواریوں کے بیٹھنے کے لیے اونٹ کی کمر کے دونوں طرف لٹکی ہوئی ہودے کی وضع کی نشستیں جن میں ایک ایک یا دو دو سواریاں بیٹھ سکیں )کو ہاتھ اونچا کر کے پکڑ کے چلتا تھا۔ پھر گائوں میں جس کے پاس سامان کی ٹرانسپورٹ کے لیے گدھا گاڑی ہوتی وہ بھی اپنا ایک الگ سٹیٹس رکھتا تھا۔ہمارے گائوں میں کسی کے پاس گھوڑا نہ تھا۔ ہمارے گائوں سے کچھ دور جناب اللہ بخش اچلانہ العمروف بکو کے پاس ایک گھوڑا تھا جس کی الگ شان تھی۔ اکثر سور کے شکار کے لیے وہ اپنے گھوڑے پر سوار فلمی ہیرو کی طرح ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے ہاتھ میں بندوق پکڑے آتے تو مجمع میں نعرے لگتے۔ میں چھوٹا تھا اور ہم سب بچے اس ہجوم میں شامل ہوتے تھے۔ سور جو کھیتوں کو خراب کرتے تھے ان کے پیچھے جس طرح وہ گھوڑا دوڑاتے یا شکاری کتے چھوڑے جاتے وہ الگ ہی منظر ہوتا تھا۔ مجھے خیر اُن جانوروں پر ترس بھی آتا تھا کہ وہ کیا کریں اگر کھیتوں سے اپنا کھانا نہ کھائیں۔ اس شکار کی منظر کشی ابوالفضل صدیقی جیسا بڑا لکھاری ہی کرسکتا ہے جن کی ان موضوعات پر درجنوں کہانیاں سب رنگ میں چھپتی تھیں۔ میں آج بھی اُس دور کو اپنی زندگی کا سنہرا وقت سمجھتا ہوں جب گائوں میں نہ بجلی تھی نہ گیس نہ گاڑیاں نہ سڑکیں نہ جدیدیت۔ وجہ ؟ وہی ہے کہ وہ دور میرے حال میں مجھ پر اثر نہیں رکھتا۔ ان مسائل کو مجھے اس طرح ہینڈل نہیں کرنا پڑتا جیسے آج کے دن کے مسائل کو ایڈریس کرنا پڑتا ہے۔ اُس وقت سہولتیں نہ تھیں پھر بھی وہ رومانس دل سے نہیں جاتا۔ آج آپ کے پاس سب جدید سہولتیں ہونے کے باوجود آپ ہر وقت سب سے ناراض ہیں۔ خود سے ناراض ہیں‘ معاشرے سے ناراض ہیں‘ اپنے حالات سے ناراض ہیں‘ حکومتوں سے ناراض ہیں‘ سیاستدانوں سے خفا ہیں‘ بیوروکریسی کو برا بھلا کہتے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں سے تنگ ہیں‘ بچوں کی سکول کی فیسیں آپ کو تنگ کرتی ہیں کیونکہ وہ سرکاری کے بجائے پرائیوٹ سکولز میں پڑھتے ہیں۔ میرے اپنے گائوں میں وہ سرکاری سکول‘ جس کے ٹاٹ اور مٹی پر بیٹھ کر بشمول میرے ہمارا پورا گائوں 1970-80 ء کی دہائی میں پڑھا تھا اور وہیں سے ڈاکٹر‘ انجینئرز ‘ بینکرز‘ سرکاری افسراور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نکلے‘ آج گائوں کے کسی بندے کا بچہ وہاں نہیں پڑھتا حالانکہ سکول کی حالت بھی بدل گئی ہے‘ نیا سکول بن گیا ہے‘ نیا سامان‘ نئے بینچز۔ اب اس سکول میں ان مزدوروں کے بچے پڑھتے ہیں جو پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں افورڈ نہیں کرسکتے ورنہ پورے گائوں کے بچے اب سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھتے۔ وہ لوگ جو بسوں پر دھکے کھا کر‘ بسوں کے پیچھے لٹک کر شہر کے ہائی سکول جاتے تھے‘ آج ان کے بچوں کے لیے پہلے تو ذاتی کار ہے‘ کار نہیں ہے تو موٹر سائیکل ہے‘ اگر کسی کے پاس وہ بھی نہیں تو اس نے کرائے پر ویگن لگوائی ہوئی ہے۔
سب کچھ بدل گیا۔ انسانی زندگیاں بدل گئیں۔ لائف کوالٹی بدل گئی لیکن صدیوں سے انسانی نفسیات نہیں بدلی کہ انسان اپنے حال سے مطمئن اور خوش نہیں رہتا۔ وہ بار بار حال کا موازنہ اپنے ماضی سے کرتا ہے۔ ماضی اسے اچھا اور اپنا حال اسے برُا لگتا ہے۔ وہ جس ماضی کو یاد کرتا ہے اسے اچھا سمجھتا ہے حالانکہ اُس وقت بھی وہ مطمئن اور خوش نہیں تھا۔ اُس وقت وہ مزید پیچھے کے ماضی کو یاد کرتا تھا اور اسے اچھا سمجھا تھا۔ کچھ برسوں بعد اسے آج کا دور اچھا لگے گا۔ انسان کبھی مطمئن نہیں ہوا۔ شاید انسان کی یہی خامی کہیں یا خوبی‘ اس کی ترقی کا سبب بنی ہے کہ انسان کبھی مطمئن نہیں رہا۔