رانا اشرف کا فون تھا۔ امی جی چلی گئیں۔ رانا روتا رہا۔ میں فون پر اُس کے رونے کی آواز سنتا رہا۔
رانا اشرف ابھی چھوٹا سا تھا کہ باپ فوت ہوگیا۔ والدین کا اکلوتا بچہ۔ماں نے یتیم بچے کو گلے لگا لیا اور قسم کھائی کہ اب ساری عمر اس بچے کے سہارے گزارنی ہے۔اُس وقت نوجوان تھیں۔ اپنے آخری وقت بھی اپنے بچے کو گلے سے لگایا ہوا تھا جب ہسپتال میں اچانک سانسیں ساتھ چھوڑ گئیں۔
میں فوراً پمزہسپتال گیا۔ وہاں سفید چادر میں بیڈ پر اماں لپٹی پڑی تھیں۔ ان کا اکلوتا بیٹا کھڑارو رہا تھا۔ میں نے رانا اشرف کو گلے لگایا۔ مجھے بیڈ پراماں کی میت دیکھ کر اُن سے نو برس قبل ہونے والی پہلی ملاقات یاد آگئی جب 2015ء میں دسمبر کی ایک سرد رات میں اور رانا لیہ سے طویل سفر کر کے ان کے لاہور والے گھر پہنچے تھے۔ کتنے پیار اور محبت سے ہمارے بستر لگوائے تھے۔ اگلی صبح ایسا خالص پنجابی ناشتہ کرایا جس کا نشہ میں آج تک نہیں بھولا۔ ناشتے پر وہ مجھے اپنی خوبصورت پنجابی میں اپنی زندگی کی باتیں سناتی رہیں۔ رانا محمد اشرف سے ذاتی تعلق بیس‘ بائیس برس قبل قائم ہوا تھا۔ رانے کا تعلق پنجاب کے علاقے نارووال سے تھا۔ ویسے بھی میرے راجپوتوں اور آرائیوں سے مختلف وجوہات کی بنیاد پر زیادہ تعلقات رہے ہیں اوران دونوں قوموں کی زیادہ عزت کرتا ہوں۔ عزت تو سب قوموں کی کرتا ہوں لیکن ان دونوں قوموں کی عزت زیادہ کرنے کی کچھ وجوہات ذاتی بھی ہیں۔ ہمارے لیہ کا رانا اعجاز محمود ایسا راجپوت تھا جسے پہلا انٹلیکچوئل گُرو مانتا ہوں۔ 1990ء کی دہائی میں وہ لیہ میں انفارمیشن افسر تھے۔ چند سال پہلے انتقال ہوا۔ اس کا دکھ دل سے نہیں جاتا۔ رانا اعجاز محمود جیسا بندہ زندگی میں کم ہی ملا ہوگا۔ کیا دانشور تھا۔ گفتگو کا حیران کن فن۔ ایک بڑا انسان۔ یاروں‘ دوستوں اور رشتوں پر جان دینے والا۔ میری ابتدائی ذہنی گروتھ میں ان کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ جب سوچتا ہوں کہ اب رانا اعجاز سے کبھی ملاقات نہیں ہوگی تو آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔
آرائیوں کی عزت کرنے کی پہلی وجہ ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔ بعد میں ٹالسٹائی کے عظیم ناول وار اینڈ پیس اور دوستووسکی کے ''برادرز کرامازوف‘‘ جیسے بڑے ناولز کے مترجم شاہد حمید اور دیگر کچھ آرائیں دوست وجہ بنے۔ مجھے کہنے دیں کہ ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے لوگ واقعی برسوں میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ کیسا بڑا انسان اور دماغ تھا۔ انسان دوست اور بہادر ۔ایک دن یونہی اکیلے بیٹھے خیال آیا اگر خدا دوبارہ زندگی دیتا اور آپشن دیتا اس نئی زندگی میں تم صرف ایک دوست رکھ سکتے ہو تو میں بلاجھجک ڈاکٹر ظفر الطاف کا نام لیتا۔ رانوں کی طرف میرا ایک ذاتی تعصب رہا ہے اور رانا اشرف بھی ان میں سے ایک ہے۔ عامر متین اکثر مجھے کہا کرتے تھے‘ ایسا ہیرا کہاں سے ڈھونڈا ہے۔ وفاداری‘ قابلیت اور ذہانت رانا اشرف پر بس ہے۔ کچھ عرصہ اس نے حکومتی نوکری کی۔اپنے راجپوت مزاج کی وجہ سے ہر جگہ پھڈا ہوا۔ نوکریوں سے نکالا گیا یا خود چھوڑ دی۔ ایک دن بیروزگار ہوکر میرے پاس آیا تو میں نے کہا رانا جی قصور آپ کا نہیں نہ آپ کے باس کا ہے‘ راجپوت خون ہی ایسا ہے۔ آپ ایک کام کریں آپ میرے ساتھ میری ٹیم میں آ جائیں۔میرا ٹی وی شو پروڈیوس کریں۔ وہ حیرانی سے بولا: سر جی مجھے کیا پتا ٹی وی شو کیا ہوتے ہیں۔ مجھے یہ کام نہیں آتا۔ میں نے کہا: اس لیے تو کہہ رہا ہوں۔ جس کو کوئی کام نہیں آتا وہ جلدی سیکھ جاتا ہے۔ ہم کون سا پیدائشی صحافی یا اینکر تھے۔ سب لوگ سیکھ جاتے ہیں۔ یہ 2014ء کی بات ہے اور دس برس سے میرا شو رانا اشرف ہی پروڈیوس کرتا ہے اور میرے ساتھ ہے۔ مجال ہے ان برسوں میں کبھی اس کی پروڈکشن سے شکایت ہوئی ہو۔ بلکہ وہ شو کے وقت ایسے ایسے آئیڈیاز دیتا ہے کہ اَش اَش کر اٹھتا ہوں۔ اگر میں نے کبھی کسی کو کہا ہے کہ وہ شو سے پہلے کچھ سوالات تیار کیا کرے تو وہ رانا اشرف ہی ہے۔ رانا اشرف سے پہلے میں راجہ عدیل سے بہت متاثر رہا ہوں جس نے مجھے اور ہمارے شہید دوست ارشد شریف کو ٹی وی سکرین کیلئے گروم اور گائیڈ کیا۔ اگر میں اور ارشد شریف ٹی وی جرنلزم سکھانے پر کسی کے شکر گزار ہوتے تھے تو وہ راجہ عدیل تھا۔ راجہ عدیل جیسا ذہین اور سمجھدارلیکن رِسک لینے والا پروڈیوسر شاید ہی پاکستان میں کسی کے پاس ہو۔ راجہ عدیل کے بعد میں نے رانا اشرف میں وہ خوبیاں دیکھیں۔
رانا اشرف کا کچھ دن پہلے رات گئے فون آیا۔ کوئی ایک‘ ڈیڑھ بجے کا وقت ہوگا۔ کہنے گا: امی جی آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔ ہسپتال میں داخل تھیں۔ بوڑھی عمر اور مسلسل بیماری کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکی تھیں۔ ان سے بولا نہیں جارہا تھا۔ میں نے ان سے فون پر بات کی۔ وہ بولتی رہیں۔ مجھے لگا وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی پارت دینا چاہتی تھیں کہ میرا بچہ میرے بعد اکیلا رہ جائے گا‘اس کا خیال رکھنا۔ میں دم بخود سنتا رہا۔ صرف اتنا کہا: آپ کو کبھی لگا ہے ان بائیس برسوں میں کہ میں اس کا خیال نہیں رکھتا۔ رانا اشرف بعد میں بتانے لگا کہ وہ اکثر اس بات پر پریشان ہوتی تھیں میرے اس دنیا سے جانے کے بعد تمہارا کیا بنے گا؟ تم تو اکیلے رہ جائو گے۔ شاید ماں کے دل میں وہ اب بھی چھوٹا‘ اکلوتا یتیم بچہ تھا جس کا کوئی بھائی بہن نہیں ۔
رانا اشرف کیلئے اکلوتا بیٹا ہونا ایک مشکل لائف لایا۔ اس کا اپنا پہلا بیٹا سپیشل چائلڈ پیدا ہوا تو اس کی ماں نے اپنے پاس رکھ لیا کیونکہ میاں بیوی جاب کرتے تھے اور دونوں کیلئے سنبھالنا مشکل تھا۔ رانا اشرف اسلام آباد تو وہ لاہور رہتی تھیں اور اپنا گھر چھوڑنے کو تیار نہیں تھیں‘ جہاں ان کے سب رشتہ دار‘ بہن بھائی تھے۔ اب اکلوتے بیٹے سے دور رہنا الگ سے جذباتی طور پر مشکل تھا۔ ایک دن رانا کے اس بیٹے کا انتقال ہوگیا۔ ماں باپ کیلئے جو صدمہ تھا وہ اپنی جگہ لیکن دادی‘ جس نے اسے پالا پوسا تھا‘ اس کیلئے یہ جان لیوا مرحلہ تھا۔ خیر رانا اشرف کی بیٹی عریب پیدا ہوئی۔ لیکن رانا اشرف کی زندگی اس حوالے سے مشکل ہی رہی۔ اس کیلئے زیادہ مشکلات اس وقت بڑھیں جب والدہ بہت بوڑھی ہو گئیں اور اب ان کا خیال وہ اسلام آباد سے بیٹھ کر نہیں رکھ سکتا تھا۔ ادھر اسلام آباد نوکری تو ادھر ماں جو لاہور چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔ خیر ماں کو اسلام آباد لایا۔ جس طرح رانا اشرف نے اپنی والدہ کی خدمت کی ہے وہ میں نے بہت کم لوگوں کو دیکھا ہوگا۔ جیسے ایک ماں اپنے چھوٹے سے بچے کا خیال رکھتی ہے اس طرح ہی رانے نے اپنی ماں کا خیال رکھا۔ ہمارا شو گیارہ بجے ختم ہوتا اور رانے نے فوراً گھر یا ہسپتال کی طرف بھاگ جانا کہ اماں اکیلی ہیں۔ روز ہسپتال کے چکر لگانا‘ ٹیسٹ کرانا‘ دوائی‘ ان کے ساتھ راتیں بسر کرنا۔ مجھے اب احساس ہوا ہمارے خطے میں لوگ زیادہ بچے کیوں پیدا کرتے ہیں کہ جہاں سکیورٹی کا احساس رہتا ہے وہیں بڑھاپے میں بچے والدین کی خدمت کا کام بانٹ لیتے ہیں۔ اور کچھ نہ ہو کم از کم ہسپتال میں تو ڈیوٹی دے سکیں۔ رانے کو ان چند ماہ میں شاید ہی سونا نصیب ہوا ہو۔ سنا تھا اکلوتے بچے بگڑ جاتے ہیں‘بہت زیادہ لاڈ پیار بگاڑ دیتا ہے‘ لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے کم از کم ایک بیٹا ایسا دیکھا ہے جس نے اپنی ماں کو بڑھاپے میں وہ سب محبت‘ کئیر سود سمیت لوٹا دی جو اس کی نوجوان ماں نے اس کے باپ کے مرنے کے بعد اپنے اکلوتے بچے کیلئے قربانی دی تھی۔ اس ماں کو اپنا آخری سانس لیتے وقت بھی بیٹے کی فکر تھی کہ وہ اکیلا رہ جائے گا ‘اس کا کون خیال رکھے گا۔ پھرانہیں موت کے بستر پر اچانک میرا خیال آیا تھااور بیٹے کو رات گئے کہا‘ میری رئوف سے بات کرائو۔
عجیب سا اداس احساس ہوا۔ ایک ماں کو موت کے بستر پر بھی موت کی نہیں اپنے بعد اس بڑے جہان میں پیچھے رہ جانے والے اپنے اکلوتے بچے کی فکر تھی۔