لگتا ہے اب چین کی بھی بس ہو گئی ہے۔ پاکستان میں جس طرح چینی ماہرین کو چند برس سے مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ اس کے بعد چینی سفیر نے جو گفتگو کی ہے اس سے لگتا ہے اب وہ بھی شاید ہمارے ہاں سی پیک پر مزید کام جاری نہ رکھنے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔ اگرچہ فوری طور پر پاکستان فارن آفس کی ترجمان نے اس بیان پر ردعمل دیا ہے اور وہی پرانا رٹا رٹایا‘ روایتی بیان دیا ہے مگر اس سے چین کی تسلی نہیں ہونے والی۔
اب دو سوالات پیدا ہوتے ہیں؛ یا تو چین کو پاکستان کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارے راستوں سے عالمی مارکیٹ تک پہنچ کر اپنی معیشت کو مضبوط سے مضبوط کرنا چاہتا ہے‘ لہٰذا وہ پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کے جو بھی اچھے برے حالات ہوں‘ چین کبھی پاکستان سے ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور اپنے مفادات کیلئے ہمارے ہاں اسی طرح کام کرتا رہے گا۔ وہ دہشت گردی پر بیان بازی اور تشویش کا اظہار بھی کرتا رہے گا لیکن کام بھی جاری رکھے گا‘ وجہ وہی چین کی مجبوری ہے لہٰذا ہم نے کبھی چین کی تشویش اور وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہمیں علم ہے کہ دنیا مفادات پر چلتی ہے‘ اس وقت چین کا مفاد اس میں ہے کہ وہ پاکستان کے راستے عالمی منڈی تک جلد از جلد پہنچے اور اس کیلئے چین کو جو بھی مالی اور انسانی قربانیاں دینا پڑیں گی وہ دے گا۔ چین کے ذہن میں جو مفادات ہیں وہ ان چھوٹی قربانیوں کی نسبت بہت اہم ہیں۔ چین جو کچھ ہمارے ہاں کر رہا ہے‘ اس میں اس کا اپنا مفاد زیادہ ہے لہٰذا ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ شاید اس لیے ہم چین کی تشویش کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ سفارتی طور پر دونوں ممالک اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے بیانات دیتے رہتے ہیں مگر ان پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
اب اس تصویر کا ایک اور پہلو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ چین اور پاکستان کا تعلق بہت پرانا ہے اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات ہمیشہ نہایت اچھے رہے ہیں۔ چین شاید پاکستان کا اکیلا وہ دوست ہے جس کے بارے ہم پاکستانیوں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ ہمارے تعلقات اس سے خراب ہیں یا خراب رہے ہیں۔ ہمارے مسلم ملکوں تک سے تعلقات خراب رہے اور تو اور پاکستان کے دیرینہ اور آزمودہ دوست سعودی عرب سے بھی تعلقات کشیدہ رہے۔ ایران‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر تک سے تعلقات میں خرابی آتی رہی۔ امریکہ سے تو ہمارے تعلقات بگڑتے بنتے رہتے ہیں لیکن چین واحد ملک ہے جس سے ہمارے تعلقات میں کبھی رخنہ نہیں پڑا۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ اگرچہ درمیان میں سی پیک کی وجہ سے کچھ مسائل ہوئے لیکن ان مسائل کو اندر خانے حل کرنے پر زور دیا گیا اور باتیں اس طرح باہر نہیں نکلیں جیسے دوسرے ملکوں کے کیس میں ہوتا ہے۔ ایک تو اس میں چین کی اپنی پالیسی ہے جس کے تحت وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ کسی دوست ملک کے حوالے سے اپنے فارن آفس یا ترجمان کے ذریعے کوئی سخت بیان جاری نہیں کرتے تاکہ غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔ چینی حکام ایسے معاملات کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ جب پوری دنیا پاکستان کو قرض دینے کو تیار نہ تھی‘ چین نے اپنے بینکوں کے ذریعے اربوں ڈالرز ادھار پر پاکستان میں پروجیکٹ شروع کیے اور یوں یہاں ترقیاتی کام شروع ہوئے۔ ہمیں چین کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ہاں ڈیم‘ سڑکیں‘ موٹر ویز اور بجلی گھر بن سکیں اور ہمیں جہاں چینی ماہرین کی حفاظت کرنی ہے وہیں اپنے دوستوں کو گلہ کرنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہیے۔
کچھ لوگ ہیں جو چینی سرمایہ کاری پر سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو پی ٹی آئی حکومت کے وزیر تجارت عبد الرزاق دائود نے ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو میں کہا تھا کہ سی پیک قرضے بہت مہنگے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر مواصلات مراد سعید بھی سی پیک منصوبوں میں کرپشن پر آواز اٹھاتے رہے‘ جس پر کئی دفعہ چینی سفیر نے پاکستانی حکام سے احتجاج بھی کیا۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال بھی سی پیک منصوبوں کی وجہ سے تنقید یا الزامات کی زد میں رہے اور مراد سعید کے ساتھ بیان بازی بھی کرتے رہے۔
چین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے الزامات سے اقوام عالم میں چین کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ یوں ایک مرحلے پر سی پیک پر کام تقریباً روک دیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف اور امریکہ کو بھی سی پیک کے حوالے سے اعتراضات رہے ہیں۔ آئی ایم ایف حکام کا کہنا تھا کہ ڈالروں میں جو قرض پاکستان لیتا ہے وہ سارا چین کے سی پیک قرضوں کی واپسی اور سود میں چلا جاتا ہے۔ اُس وقت یہ رپورٹس بھی آئی تھیں کہ آئی ایم ایف نے مذاکرات کے دوران پاکستان سے سی پیک معاہدوں کی تفصیلات مانگی تھیں جو پاکستان دینے کو تیار نہ تھا۔
سی پیک کا کریڈٹ اگرچہ سب لیتے ہیں لیکن غیر ملکی قرضوں کی مد میں ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ سود کی مد میں جا رہا ہے۔ اس دفعہ بجٹ میں بتایا گیا کہ 3200 ارب روپے صرف سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے‘ جن میں دونوں مقامی اور بیرونی قرضے شامل ہیں۔ سی پیک شروع ہونے سے پہلے پاکستان کے قرضے 40‘ 50ارب ڈالرز تک تھے جو اَب 130 ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں اور ان میں سے اکثر قرضے کمرشل ہیں‘ جن کا مارک اپ بہت زیادہ ہے۔ مہنگے قرضوں کی بات چل نکلی ہے تو جان لیجیے کہ نواز لیگ اس کام میں ہمیشہ آگے رہی ہے اور ڈالروں میں مہنگے ترین قرضے لینے کا ریکارڈ نواز لیگ ہی کے پاس ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو نواز شریف کی تیسری حکومت میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پانچ سو ملین یورو بانڈز کا قرضہ 8.25 فیصد پر لیا تھا‘ جس پر ہر طرف شور مچ گیا تھا کہ یہ مہنگا ترین قرضہ تھا۔ ہم اُس وقت سوا آٹھ فیصد سود پر قرضے کو رو رہے تھے اور موجودہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ایک پرائیویٹ بینک سے آٹھ سو ملین ڈالر کا قرضہ 11 فیصد مارک اپ پر لے کر آئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہم جو کچھ کما رہے ہیں‘ وہ سب قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں جا رہا ہے۔
سی پیک کے حامی کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ آپ کے پاس کیا حل ہے؟ اگر آپ سی پیک شروع نہ کرتے تو شاید آپ کے ہاں بجلی گھر‘ ڈیم اور موٹر وے نہ بنتے۔ لیکن پھر وہی بات کہ بجلی گھروں کے منصوبے اتنے مہنگے لگے کہ لوگوں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ لوگ اب بجلی کے بل دینے کے قابل نہیں رہے۔ حکومت میں شامل جماعتوں کے لیڈروں کے اپنے 50کے قریب بجلی گھر ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ڈیڑھ سو سے زائد آئی پی پیز پلانٹ ملک میں لگ چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو 26 ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے اور بجلی گھر 42 ہزار میگاواٹ کے لگا دیے گئے ہیں اور سب کو ڈالروں کے حساب سے ادائیگی ہو رہی ہے۔ یہ سب کام بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں ہوا۔ کسی کو اس ملک اور عوام پر رحم نہ آیا کہ آپ 17‘ 18 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی کے پلانٹ لگا کر کیپسٹی چارجز کے نام پر انہیں اربوں روپے بغیر بجلی خریدے کیوں دے رہے ہیں؟
اس وقت جب بجلی گھروں سے معاہدے دوبارہ ہو رہے ہیں‘ یہ سوال کوئی نہیں پوچھ رہا کہ یہ 20 ہزار میگاواٹ‘ ڈالروں کے ریٹ پر اضافی بجلی گھر کس نے لگوائے اور کیوں منظوری دی گئی؟ ہم چین کے سی پیک ایشو کو رو رہے ہیں لیکن اپنے اپنے پسندیدہ لٹیروں کا نام کوئی نہیں لے رہا کہ وہ کون سے سیاسی حکمران اور بیورو کریٹس تھے جنہوں نے اپنے ایک ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ہی ذبح کر دیا اور الٹا ہم پر آج کل احسان کر رہے ہیں کہ اب ہم چند ارب روپے بچا کر دے رہے ہیں۔ یہ وہ ظالم ہیں جنہوں نے بجلی گھروں سے کمائی کے نام پر ایک پائو گوشت چھوڑیں‘ پورا اونٹ ہی ذبح کر کے خود رکھ لیا۔