ہر سیاستدان میں ایک خوبی کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنا۔ آپ میں یہ خوبی نہیں ہے تو آپ سیاستدان نہیں اور نہ لوگوں کو اپنے پیچھے لگا سکتے ہیں۔ عمران خان سے پہلے سیاستدان بھی دھیرے دھیرے یہ کام سیکھ گئے تھے۔ عمران خان کو یہ آرٹ سیکھنے میں بیس بائیس برس لگے کیونکہ اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔شروع میں وہ شرمیلے تھے اور سیاستدانوں والے جھوٹ بولنا یا سنہرے خواب دکھانا آسان نہ تھالیکن پھر اسی رنگ میں رنگے گئے۔
انسانی مزاج ہے کہ جب مشکل اور تکلیف سے گزر رہا ہو تو اسے وہ وقت سب سے زیادہ اذیت ناک لگتا ہے۔ عمران خان نے جیل سے جو ٹوئٹس کیے ہیں ان سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انسان پر ذاتی تجربے اور ذاتی تکالیف کا اثر دوسروں کی تکلیف سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ جب انسان خود مشکل سے گزرتا ہے تو اسے دوسروں کی مشکلات کا بہتر اندازہ ہوتا ہے اور وہ ان کے دکھ درد اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ لیکن مجھے عمران خان کے وہ ٹوئٹس پڑھ کر حیرانی ہوئی جب انہوں نے جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے مارشل لاء کو آج کے حالات سے بہتر بتایا۔ ان کے ٹوئٹس سے لگ رہا تھا کہ جنرل ضیا اور مشرف کا دور آج سے بہتر تھا کیونکہ اب عمران خان اور ان کی پارٹی مشکلات کا شکار ہے۔ عمران خان کے دونوں سابقہ فوجی حکمرانوں کو بہتر سمجھنے کی چند وجوہات ہیں۔ جنرل ضیا کے دس سالہ دور میں عمران خان کرکٹ کھیل رہے تھے اور عروج پر تھے۔ انہیں نہ پتہ تھا نہ پروا کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ جنرل ضیا ان کی قدر کرتے تھے۔ وہ کرکٹ کو کھیل کے طور پر پورے ملک کے لیے پسند کرتے تھے تاکہ مارشل لاء کی گھٹن لوگوں کو محسوس نہ ہو۔ لوگ کرکٹ اور پی ٹی وی پر چلنے والے زمینداروں اور جاگیرداروں کے خلاف ڈرامے دیکھنے میں مصروف رہے۔ کرکٹ کا کھیل ملک کو نارمل شکل دیتا تھا اور لوگ بھول جاتے تھے کہ پاکستان میں کس قسم کی سفاکی اور بربریت سے کام لیا جا رہا ہے۔ عمران خان اپنے عروج پر تھے۔ یہ جنرل ضیا ہی تھے جنہوں نے عمران خان سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ تبدیل کرایا ‘ جس پر پوری قوم بڑی خوش ہوئی۔ وجہ وہی تھی کہ جنرل ضیا اپنے دور میں کرکٹ کے ذریعے قوم کو خوش رکھنا چاہتے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک مشہور اور ہر دل عزیز کرکٹر ان کے دور میں ریٹائر ہو جائے اور لوگوں کا دھیان ان کے جبرکی طرف نہ ہو جائے۔ چلیں اب تو خان صاحب بڑے ہو گئے ہیں۔ وہ بہت سارا وقت گزار آئے ہیں لیکن انہیں اب بھی جنرل ضیا کا دور کیوں اچھا لگتا ہے؟ کیا واقعی عمران خان کو علم نہیں ہے کہ جنرل ضیا دور میں ان کی طرح کے ایک وزیراعظم کو برطرف کرکے پھانسی لگا دی گئی تھی۔ عمران خان کی طرح بھٹو بھی دو سال تک جیل میں رہے۔ ان کا بھی ٹرائل کیا گیا جیسا آج کل عمران خان کا ہورہا ہے۔ اس دور میں بھی سینکڑوں پی پی پی ورکرز‘ صحافی اور سول سوسائٹی کے دانشور جیلوں میں ڈالے گئے بلکہ شاہی قلعہ میں بدترین تشدد کیا گیا اور وہ حواس کھو بیٹھے۔ کئی خاندان تباہ ہوئے۔ بھٹو کی پھانسی پر کئی نوجوان ورکرز نے خود کو احتجاجاً آگ لگا لی تھی۔ بھٹو کا پورا خاندان اس عذاب سے گزرا۔ مرتضیٰ اور شاہ نواز پاکستان چھوڑ کر کابل چلے گئے‘ مسلح مزاحمت کا راستہ چنا اور بعد میں مارے گئے۔ سینکڑوں ورکرز کی جوانیاں شاہی قلعہ میں ضائع ہو گئیں۔ کئی سیاستدانوں اور دانشوروں نے پاکستان چھوڑ کر بیرونِ ملک سیاسی پناہ لی۔ سندھ میں احتجاجی جلسوسوں پر ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی گئی جس میں کئی لوگ مارے گئے۔ یہ وہ دور تھا جس میں وی سی آر پر فلم دیکھنا تک جرم تھا اور پولیس گاؤں میں چھاپے مارتی پھرتی تھی۔ اکثر سیاستدان جیلوں میں تھے۔ ایک وزیراعظم کو پھانسی چڑھا دیا گیا لیکن خان صاحب کو اب بھی وہ دور نسبتاً بہتر لگتا ہے۔
اس طرح عمران خان کو جنرل مشرف کا دور لبرل لگتا ہے۔ مطلب وہ بھی بہتر فوجی حکمران تھے۔ اسی جنرل مشرف کے دور میں عمران خان کی طرح کے ایک وزیراعظم کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا۔ اس کی حکومت ختم کی گئی‘ دہشت گردی کی عدالت سے چودہ سال سزا دے کر دس سال کے لیے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف کے دور میں سینکڑوں بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو سردیوں کے موسم میں راتوں رات گھروں سے اٹھا کر تھانوں میں ٹھنڈے فرش پر ڈال دیا گیا۔ سنا ہے خان صاحب آج کل کتابیں پڑھتے ہیں تو زرا وہ سابق وفاقی وزیر انور سیف اللہ کی خودنوشت پڑھ کر دیکھیں یا نیب کا وہ بیان یاد رکھیں کہ ہم تو مرحوم صدیق الفاروق کو جیل میں ڈال کر کے بھول گئے تھے۔ اس دور میں کون کون نیب میں گرفتار نہیں تھا۔ نوے نوے دن کے لیے تو اسیران کو عدالت بھی پیش نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ یہ وہ کالا قانون تھا جو جنرل مشرف نے خود بنایا تھا۔ شاہین صہبائی صاحب نے مشرف کے خلاف لکھا تو ان کے پنڈی میں نوجوان بھتیجے اور برادر نسبتی کو کراچی سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ چھ بچیوں کا باپ تھا جس کا شاہین صہبائی کی جرنلزم سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ وہ دونوں بے گناہ تین چار ماہ جیل میں قید رہے تاکہ شاہین صہبائی کو سبق سکھایا جا سکے۔ پھر اسی دور میں یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی جیسے سیاستدان برسوں جیل میں قید رہے۔ جاوید ہاشمی نے ایک خط پارلیمنٹ کیفے میں پڑھ دیا تھا جس پر انہیں برسوں کی سزا سنا دی گئی۔ ان پر جیل میں تشدد کیا گیا۔ تہمینہ دولتانہ کے ساتھ جیل میں جو برُا سلوک کیا گیا وہ ریکارڈ پر ہے۔ کلثوم نواز اور تہمینہ دولتانہ کی گاڑی کو لاہور میں احتجاج کرنے پر لفٹر سے ہوا میں معلق رکھا گیا۔ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ فیصل صالح حیات‘ آصف زرداری‘ عابد شیر علی اور دیگر درجنوں سیاسی لوگ مشرف دور میں جیلوں میں قید رہے۔ گن پوائنٹ پر لوگوں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی جارہی تھیں۔ جو لوگ پارٹیاں چھوڑ رہے تھے انہیں نیب کلین چٹ دے کر بری کر رہا تھا اور باقی لوگوں کو سزائیں سنائی جارہی تھیں۔ کرپٹ لوگ کلین ہو کر وزیر بن رہے تھے۔
مزے کی بات ہے اس وقت عمران خان ڈٹ کر جنرل مشرف کے ساتھ کندھا ملائے کھڑے تھے۔ کھڑے کیا تھے وہ ان کے صدارتی ریفرنڈم میں نہ صرف خود ووٹ ڈال رہے تھے بلکہ وردی کے ساتھ صدر کا ووٹ ڈلوانے کے لیے مہم چلائے ہوئے تھے اور جنرل مشرف ان کے کینسر ہسپتال کو عطیہ دلوا رہے تھے۔ اسی دور میں ایک اور وزیراعظم بینظیر بھٹو کو سرعام قتل کر دیا گیا۔ اور آج عمران خان خود تکلیف میں ہیں تو سمجھتے ہیں کہ مشرف اور ضیا تو بہتر تھے کیونکہ اُس دور میں نہ وہ بھٹو کی طرح پھانسی لگے‘ نہ نواز شریف کی طرح دہشت گرد ی کی عدالت سے چودہ سال سزا سنی نہ بینظیر بھٹو والا انجام ہوا لہٰذا خان کو لگتا ہے اس وقت سب کچھ ٹھیک تھا لیکن آج جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ سب غلط ہے۔ مقتدرہ آج بری ہے کیونکہ وہ خان کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے تو جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے دور میں بھی تھی۔
عمران خان کو آج کے برے حالات پر تنقید کرنی چاہیے لیکن وہ مشرف اور ضیا کو کیسے کلین چٹ دے سکتے ہیں جن کے دور میں دو وزیراعظم جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جنرل ضیا نے تو پہلے بھٹو اور پھر محمد خاں جونیجو کی حکومتیں ختم کیں۔ انسانی نفسیات ہے کہ اپنا دکھ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ عمران خان کو ڈیڑھ سال سے اپنی قید بھی ظلم عظیم لگتی ہے لیکن بھٹو کی پھانسی‘ بینظیر بھٹو کا قتل اور نواز شریف کی سزائیں‘ یوسف رضا گیلانی‘ جاوید ہاشمی کی طویل قید چھوٹی لگتی ہے بلکہ وہ دونوں جنرل لبرل اور بہتر لگتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی کا انصاف دیکھ کر یہ آیت یاد آتی ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف ہے۔