پچھلے چند دنوں میں نے یکے بعد دیگرے پہلے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی تین گھنٹے کی کارروائی دیکھی اور پھر منگل کے روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا دو گھنٹے کا اجلاس دیکھا۔ شاید یہ واحد کمیٹی ہے جس میں ایم این اے یا سینیٹرز کوشش کرتے ہیں کہ وہ اسے مِس نہ کریں۔ اس کمیٹی اجلاس میں حاضری اگر سو فیصد نہیں تو نوے فیصد ضرور ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس کو مِس کرنا افورڈ نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں وزارتِ داخلہ‘ ایف آئی اے اور ایجنسیوں کے نمائندے یا چیئرمین سی ڈی اے اور دیگر اعلیٰ افسران شریک ہوتے ہیں جن سے دعا سلام بڑی ضروری ہوتی ہے۔ یہ وجوہات یقینا دلچسپ ہیں کیونکہ میں بہت سی ایسی کمیٹیوں میں بھی جاتا رہتا ہوں جہاں کورم پورا ہونا مشکل ہوتا ہے۔ سینیٹرز اور ایم ایم ایز ان کمیٹیوں میں آتے تک نہیں کیونکہ ان میں انہیں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ کئی دفعہ تو یہ بھی دیکھا کہ چیئرمین کمیٹی اکیلے بیٹھے انتظار کر رہے ہیں کہ کم از کم دو‘ تین ارکان آ جائیں تاکہ کورم پورا ہو اور اجلاس کی کارروائی شروع ہو سکے۔ اس دوران متعلقہ وزارت اور اس سے جڑے محکموں کے افسران اپنے کام چھوڑ کر موجود ہوتے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی اپنے سٹاف کے ذریعے ارکان کو پیغامات بھجوا رہے ہوتے ہیں کہ آ جائیں تاکہ اجلاس شروع ہو سکے۔ چیئرمین خود بھی ارکان کو فون کرتے ہیں اور آگے سے انہیں وہی جواب ملتا ہے جو بقول امتیابھ بچن‘ ان کے سپر سٹار دوست شترو گھن سہنا اپنے عروج کے دنوں میں دیا کرتے تھے۔ جب شترو فلم سیٹ پر یا کسی فلائٹ کے لیے لیٹ ہو جاتے تھے اور وہاں پہنچنے کے بجائے شترو صاحب کہیں کیفے پر پرستاروں میں گھرے بیٹھے گپیں لگا رہے ہوتے۔ جب جہاز کا عملہ ان سے کہتا کہ صاحب چلیں جہاز روانگی کیلئے تیار ہے تو وہ فلمی انداز میں جواب دیتے: آتے ہیں صاحب! آتے ہیں۔ اتنی جلدی کاہے کو رے۔
کچھ ایسا ہی جواب چیئرمین کمیٹی کو ارکان کی جانب سے ملتا ہے۔ لیکن اگر متعلقہ وزیر یا سیکرٹری یا کوئی اہم افسر لیٹ ہو جائے یا کسی وجہ سے نہ آ سکے تو ان ارکان کو میں نے غصے سے چھت سے جا کر لگتے دیکھا ہے۔ پورا گھنٹہ اس بات پر لگا دیں گے کہ وزیر یا افسران نے کمیٹی کی بے عزتی کر دی یا ہائوس کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ ان کے خلاف تحریکِ استحقاق پیش کرنے کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔ وہ ایجنڈا آئٹم تک ڈراپ کر دیے جاتے ہیں چاہے اس افسر یا وزیر کی جگہ کوئی اور سینئر افسر بریفنگ دینے کو موجود ہو۔ کوئی پروا نہیں کی جاتی کہ اس اجلاس پر کتنا خرچ ہوا ہے۔
اگر مقصد کسی ایشو پر بریفنگ لینا ہو اور سینئر افسر کسی وجہ سے نہ آ سکے تو اس کی جگہ موجود افسر سے بریفنگ لی جا سکتی ہے۔ اس سے سوال وجواب بھی کیے جا سکتے ہیں تاکہ کچھ تو اجلاس کو کارآمد بنایا جا سکے۔ مگر ایسا میں نے کم ہی دیکھا ہے کہ ارکان نے کسی بڑے افسر کی عدم موجودگی پر وہاں موجود افسر سے بریفنگ لی ہو‘ جو مکمل تیاری کے ساتھ وہاں آیا تھا۔ ایک ایک وزارت کے دس دس افسر؍ اہلکار آتے ہیں مگر اجلاس کا ایجنڈا تک ملتوی کر دیا جاتا ہے کہ بڑے صاحب آئیں گے تو ہی بات ہو گی۔ کئی دفعہ تو کراچی اور لاہور سے آئے مختلف اہم محکموں کے افسران کو بھی اس سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آپ کا ڈی جی یا چیئرمین کیوں نہیں آ سکا؟ ہم آپ کو کیوں سنیں؟ اس چیئرمین کو اگلے اجلاس میں ضرور طلب کریں لیکن جو افسران موجود ہیں‘ ان کو تو سن لیں تاکہ کچھ معلومات مل سکیں۔ مگر شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو اور ان افسران کو سنا گیا ہو جو کراچی‘ لاہور سے محض اجلاس کے لیے آئے تھے۔
سینیٹ کے حالیہ داخلہ اجلاس کو ہی دیکھ لیں۔ اس میں آئی جی بلوچستان اور چیف سیکرٹری نے بلوچستان پر بریفنگ دینا تھی۔ وہ دونوں کوئٹہ سے اسلام آباد کمیٹی کے اجلاس میں نہیں آ سکے اور استدعا کی کہ انہیں وڈیو لنک پر براہِ راست لے لیں اور وہ کمیٹی کو دو اہم ایجنڈوں پر بریف کر دیں گے۔ سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کے ارکان ناراض ہو گئے اور وڈیو لنک پر بریفنگ لینے سے انکاری ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نئی ٹیکنالوجی سے کیوں فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے؟ اگر وہ لوگ نہیں آ سکے کہ بلوچستان میں کسی ایشو کی وجہ سے تمام راستے بلاک ہیں اور وہ اس مسئلے میں پھنسے ہوئے ہیں تو آپ انہیں وڈیو لنک پر لے کر بات سن لیں‘ لیکن افسوس کہ سینیٹرز نہیں مانے۔ نہیں‘ انہیں یہاں خود موجود ہونا چاہیے۔ بالکل ہونا چاہیے لیکن اگر بلوچستان میں کوئی ایشو چل رہا ہے تو ان کو وڈیو لنک پر سننے میں کیا حرج ہے؟ اگر سپریم کورٹ اہم مقدمات میں وکیلوں اور پٹیشنرز کو یہ سہولت دے چکی ہے کہ وڈیو لنک پر عدالت میں اپنے دلائل اور گواہی دے سکتے ہیں تو پارلیمانی کمیٹی یہ کام کیوں نہیں کر سکتی؟ یوں بلوچستان کا جو سب سے اہم ایشو تھا‘ اس پر بات نہ ہوسکی اور وہ اہم ایشو تھا کہ ایک دس بارہ سال کا بچہ جسے دو ماہ ہوئے اغوا کر لیا گیا ہے اور اس کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ اب علم ہوا ہے کہ اس بچے کی فیملی نے اغوا سے کچھ دن پہلے دو ارب روپے کی جائیداد بیچی تھی۔ اس جائیداد کی فروخت کا کچھ اہم لوگوں کو پتا چل گیا اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے انہوں نے بچہ اغوا کر لیا۔ اس اغوا کی کہانی بڑی خوفناک ہے۔ بچہ جس سکول وین میں تھا‘ اسے روک کر‘ صرف اس بچے کو پہچان کر وین سے اتارا گیا۔ اس وجہ سے بہت شکوک پیدا ہو رہے ہیں کہ اس اغوا کے پیچھے کون ہے۔ اس کیس کے حوالے سے جو باتیں سامنے آ رہی ہیں وہ بہت پریشان کن ہیں۔
اب اگر بلوچستان پولیس افسران وڈیو لنک پر اس ایشو پر بریف کر تے تو کمیٹی ارکان کا افسران پر دبائو بچہ جلدی ریکور کرانے میں مددگار ثابت ہوتا اور پتا بھی چلتا کہ اب تک اس کیس میں کیا پیشرفت ہوئی ہے۔ لیکن تمام سینیٹرز انکاری ہو گئے اور وڈیو لنک پر ان افسران کو نہیں سنا۔ اس عمل سے اس اغوا شدہ بچے کے والدین کا کوئی فائدہ ہوا ؟ وہاں موجود سینیٹرز اگرچہ بچے کے والدین سے ہمدردی دکھا رہے تھے‘ جن کا دکھ یقینا بہت بڑا ہے کہ ان کا سکول جاتا بچہ بلوچستان جیسے صوبے سے‘ جہاں اتنے حساس ادارے اور ایجنسیاں کام کر رہی ہیں‘ دو ماہ قبل اغوا کر لیا گیا اور اب تک اس کا سراغ لگانے میں ناکامی ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آئی جی بلوچستان اور چیف سیکرٹری بلوچستان کو وڈیو لنک پر نہ لے کر کس کی خدمت کی گئی؟ کیا اس سے والدین کا بھلا ہوا یا پھر وہی بات کہ ہمارے قابلِ احترام پارلیمنٹیرینز کی انا کا مساج ہوا اور ان کے رعب دبدبہ میں اضافہ ہوا؟ ہم کیوں اتنے بے حس ہوتے جا رہے ہیں کہ ایسے ایشوز پر بھی ایجنڈا کو ڈراپ کر دیتے ہیں۔ ہمارے اندر اتنی مروت بھی نہیں رہی کہ ہم ان افسران کو وڈیو لنک پر لے کر انہیں رگڑا لگاتے کہ بھلا دو ماہ سے وہ کیا کر رہے ہیں‘ سب کی ناک کے نیچے بچہ اغوا ہو گیا‘ اب تک کسی کو کچھ پتا نہیں اور کوئی پروا بھی نہیں!
ہم انسانوں کی انا بعض اوقات دوسرے لوگوں کی اذیت اور تکلیف سے بھی بڑی ہو جاتی ہے۔ چاہے وہ انا پہلے آئی جی بلوچستان یا چیف سیکرٹری نے اجلاس میں شریک نہ ہو کر دکھائی اور پھر قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے ارکان نے افسران کو وڈیو لنک پر نہ سن کر ۔ اس بچے کے والدین ہی یہ دکھ جانتے ہیں‘ جن کا بچہ دو ماہ سے اغوا ہے‘ کہ ان پر کیا گزر رہی ہے۔ نہ بلوچستان کے افسران وہ درد محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارے سینیٹرز۔ شاید اسی لیے افسران کے نہ آنے پر اس ایشو کو اجلاس کے ایجنڈے سے ڈراپ کر دیا گیا۔ وہی بات کہ جس تن لاگے سو تن جانے!