جوبائیڈن کی بطور امریکی صدر آخری تقریر کئی حوالوں سے اہم ہے۔ اس تقریر کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی انسان کی اپنے جیسے انسانوں کو کنٹرول کرنے اور انہیں اپنا غلام بنانے کی جبلت وقت کے ساتھ کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی ہے۔ اس جبلت کی شکلیں وقت کے ساتھ ضرور بدلتی رہی ہیں لیکن دوسروں کو کنٹرول کرنے کی خواہش کبھی کم نہیں ہوئی۔
انسان میں ہمیشہ سے یہ شعور بھی رہا ہے کہ وہ دوسروں سے ممتاز نظر آئے‘ اُن سے زیادہ ذہین‘ خوبصورت اور اچھا لگے‘ اس کا رعب دبدبہ سب تسلیم کریں‘ اس کے پاس دوسروں سے زیادہ عقل‘ سمجھ اور دولت ہو جو اسے دنیا کا ایسا انوکھا انسان بنائے جسے سب دیکھیں۔ انسانوں نے اس مقصد کیلئے کئی قسم کی ٹیکنالوجیز پر کام کیا۔ لوگوں کو مارا‘ بستیاں اجاڑیں‘ ملک فتح کیے‘ قوموں کو اپنے سامنے جھکایا اور اس کام کیلئے انہوں نے جدید ہتھیاروں یا گولہ بارود کی مدد لی یا پھر کوئی ایسی نئی ایجاد جس کا کنٹرول صرف مخصوص لوگوں کے پاس تھا۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب کسی نئی ایجاد کی بنا پر انسانوں نے دوسروں پر غلبہ پا کر راج کیا۔
زیادہ دور نہیں جاتے‘ آپ ذرا پرنٹنگ پریس کی ایجاد کو ہی دیکھ لیں۔ اس ایجاد سے پہلے کتاب اسی طرح کی عیاشی سمجھی جاتی تھی جیسے آج کسی کے گھر میں لینڈ کروزر ہو۔ کتاب کی تیاری ایک بڑا طویل اور مہنگا عمل تھا‘ اسے بہت امیر لوگ ہی افورڈ کر سکتے تھے اور یہ ان کے گھر کی لائبریری کی شان میں اضافہ کرتی تھی۔ پرنٹنگ پریس سے پہلے کتاب سوشل سٹیٹس کا حصہ تھی کیونکہ وہی بات کہ ہر کوئی اسے افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ پرنٹنگ پریس نے لیکن اس ساری مِتھ کو توڑا اور وہی کتاب جو کبھی سٹیٹس سمبل سمجھی جاتی تھی وہ بڑے لوگوں کے ڈرائنگ رومز اور لائبریریوں سے نکل کر عام انسان کے گھر تک پہنچی اور پورے یورپ میں شعور اور ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ذہین لوگوں نے عام آدمی کے ذہن کو کتاب کے ذریعے کنٹرول کرنا شروع کیا اور عام آدمی نے بھی جاگیرداروں اور بادشاہوں کے خلاف بغاوتیں شروع کر دیں۔ فریڈم اور لبرٹی کا نعرہ تبھی ایجاد ہوا۔
اگر مجھ سے پوچھیں تو پرنٹنگ پریس کا بڑا نتیجہ اس کی ایجاد کے برسوں بعد انقلابِ فرانس کی شکل میں سامنے آیا تھا جب عام لوگوں نے بادشاہ اور ملکہ کو قتل کر دیا اور پورے فرانس کو آگ میں جھونک دیا۔ نپولین بھی اسی انقلاب سے اُبھرا تھا جس نے چند برسوں میں پورے یورپ کو آگ لگا کر لاکھوں لوگ مروا دیے۔ یوں ایک طرف ٹیکنالوجی علمی انقلاب لا رہی تھی‘ تو دوسری طرف تباہی مچانے والی ٹیکنالوجی بھی اپنا کام دکھا رہی تھی۔ انسانوں نے اسی علم کو دوسری قوموں کو غلام بنانے کیلئے استعمال کیا گیا جیسے سٹیم انجن کی ایجاد کی وجہ سے یورپین اپنے علاقوں سے نکلے اور سمندر کا راستہ استعمال کر کے دنیا پر قابض ہو گئے۔ گورے اس ٹیکنالوجی کی مدد سے افریقہ کے جنگلوں تک پہنچے اور وہاں سے انسانوں کو غلام بنا کر لندن اور امریکہ کی منڈیوں تک لے گئے جہاں ان کو سرعام بولی کے ذریعے بیچا جاتا تھا۔ اسی طرح مغل حکمران بابر اپنے ساتھ بارہ ہزار فوجی لایا اور سلطنتِ دلی کے آخری بادشاہ ابراہیم شاہ لودھی کی سوا لاکھ فوج کو چند گھنٹوں میں باردو سے اڑا کر ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح کی وجہ چند بارودی توپیں تھیں جبکہ لودھی تب بھی اپنے ہاتھیوں کو شراب پلا کر جنگ لڑانے لایا تھا۔ یہ طے ہے کہ وہی ملک اور لوگ دوسروں پر حکمرانی کرتے آئے ہیں جن کے پاس جدید دماغ اور ٹیکنالوجی تھی۔
اس تناظر میں اب آپ امریکی صدر جوبائیڈن کی اوول آفس میں اپنی الوداعی تقریر کو سنیں یا پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ کن خطرات کا اظہار کررہے ہیں کہ آنے والے برسوں میں دنیا کیا سے کیا ہونے والی ہے اور چند زیادہ ذہین لوگ اب دوسروں کی زندگیوں کو نہ صرف کنٹرول کریں گے بلکہ اپنی مرضی کی نئی دنیا بنائیں گے جو ان کی خواہشات پر چلے گی۔ اس تقریر میں جو بائیڈن نے آنے والی دنیا کا نقشہ کھینچا اور دنیا بالخصوص امریکہ کو مستقبل کے ممکنہ خطرات بارے خبردار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والے وقت میں امیر لوگوں کے علاوہ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی بھی آزاد صحافت اور جمہوریت کیلئے بڑے خطرات بن کر اُبھر رہے ہیں۔ جوبائیڈن نے اپنی تقریر میں دراصل ٹویٹر؍ ایکس کے مالک ایلون مسک اور فیس بک کے مالک مارک زکر برگ پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ سوشل میڈیا سے اب دنیا بھر میں آزادیٔ صحافت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے سب سے اہم بات یہ کہی کہ اب ایڈیٹرز کا کردار ختم ہورہا ہے جو کسی بھی اخبار یا میڈیا کے ادارے کیلئے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ ایڈیٹر ایک ایسا ادارہ ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ مستند ہو اور جھوٹ نہ چھپے۔ لیکن اب سوشل میڈیا نے اس اہم ادارے کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں آپ کو کچھ چیک کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ بس جو آپ کی خواہش ہے اسے خبر بنا کر چھاپ دیں۔ اب آپ خود ہی رپورٹر ہیں‘ خود سب ایڈیٹر اور خود ہی ایڈیٹر ہیں بلکہ چینل کے مالک بھی خود ہیں۔ اب آپ پر کوئی ایسا بڑا نہیں بیٹھا جو ان سب معاملات کو چیک کرے گا۔
بقول جو بائیڈن سوشل میڈیا فیکٹ چیک کی ضرورت کو ختم کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر طاقت اور پیسے کیلئے بولے جانے والے جھوٹ سے سچ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ چھ دہائیاں قبل اُس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے اپنے آخری خطاب میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو خطرہ قرار دیا تھا‘ جو سچ ثابت ہوا۔ اب میں ٹیکنالوجی انڈسٹریل کمپلیکس کے خطرات سے خبردار کررہا ہوں کہ یہ امریکا کیلئے بھی خطرہ ثابت ہو گا۔ بائیڈن نے مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات سے خبردار کرتے ہوئے اسے اپنے وقت کی سب سے زیادہ نتیجہ خیز ٹیکنالوجی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت‘ سلامتی اور معاشرے کو اس سے زیادہ خطرہ کسی اور چیز سے نہیں ہے۔ بائیڈن کا کہنا تھا کہ حفاظتی اقدامات کے بغیر مصنوعی ذہانت ہمارے حقوق‘ ہمارے طرز ِزندگی‘ ہماری رازداری کیلئے خطرات پیدا کر سکتی ہے۔ ہم کیسے کام کرتے ہیں اور کیسے اپنی قوم کی حفاظت کرتے ہیں‘ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے یہ کوئی راز نہیں رہے گا۔
ان حالات میں دنیا کی جو شکل بننے جا رہی ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ دنیا کا کنٹرول پھر چند لوگوں کے قبضے میں آرہا ہے۔ AIنے ابھی سے اپنے کارنامے دکھانا شروع کر دیے ہیں۔ ایسی ایسی ایپس سامنے آرہی ہیں جن سے ایسی وڈیوز بنائی جا سکتی ہیں کہ بندہ حیران رہ جائے اور آپ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آئے۔ اب تو ایسی ٹیکنالوجی بھی آرہی ہے کہ کوئی بھی شخص آپ کی آواز میں آپ کے پیاروں یا دوستوں اور گھر والوں کووائس نوٹ بھیج سکتا ہے اور کسی کو علم بھی نہ ہوگا کہ یہ ٹیکنالوجی کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر اب آپ کو کوئی ڈسٹربنگ میسج آئے تو ہمیشہ اس بندے سے ذاتی طور پر پہلے کنفرم کریں کہ آیا اس نے ایسا کوئی میسج یا وائس نوٹ بھیجا ہے یا نہیں۔
دنیا ہمیشہ سے ہی خطرناک رہی ہے۔ انسان ایک دوسرے کو کنٹرول کرنے کی جنگ لڑتے آئے ہیں۔ ہر دور کی اپنی اپنی ٹیکنالوجی تھی جس سے دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کیا جاتا تھا۔ انکے وسائل لوٹے جاتے تھے‘ انہیں غلام بنایا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں یہ کام سوشل میڈیا اورAI کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے جو خوف جو بائیڈن کی آواز میں تھا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ دنیا میں نئے بھگوان اب وہی ہوں گے جن کے پاس سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کا کنٹرول ہو گا۔ انسان ہر دور میں بھگوان بننے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ موجودہ دور کے بھگوان ایلون مسک اور مارک زکر برگ ہیں۔