سوشل میڈیا قوانین آج کل پھر زیر بحث ہیں۔ بہت شور شرابہ ہو رہا ہے۔ وجہ حکومت کا وہ بل بنا ہے جو وہ اسمبلی سے پاس کرا چکی ہے‘ جس میں کچھ سخت سزائیں منظور کی گئی ہیں۔ اس قانون کے تحت اب فیک نیوز پھیلانے والے کو تین سال قید یا 20لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ زیادہ تو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ شاید یہ نئی سزائیں ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو یہ پرانی سزائیں ہیں جو پیکا ایکٹ کے تحت تقریباً دس برس پہلے منظور ہو چکی ہیں۔ ہاں اس میں کچھ مزید کلاز ڈالی گئی ہیں جس پر احتجاج ہو رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں سب کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ جس کا جو دل کرے وہ سوشل میڈیا پر ڈال دے‘ چاہے اس جعلی خبر کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں لیکن ہمیں کوئی کچھ نہ کہے کیونکہ یہ ہماری آزادیٔ رائے کے خلاف ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہم نے دیکھا کہ ایک جعلی خبر کی وجہ سے لاہور کے ایک کالج میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا‘ استادوں اور گارڈز کو کو مارا پیٹا گیا۔ اس جعلی خبر کی وجہ سے ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہاں تک کہ ایک جعلی ماں بھی مارکیٹ میں آ گئی جس نے دعویٰ کیا کہ وہ متاثرہ بچی کی ماں ہے تاکہ اس آگ کو مزید بھڑکایا جا سکے۔ کچھ دیر پہلے جو خاتون متاثرہ بچی کی ماں بن کر بین ڈال رہی تھی چند لمحوں بعد وہی ٹک ٹاک پر میک اَپ تھوپ کر قہقہے لگاتی رِیل بنا رہی تھی۔ وجہ محض ویوز لینا تھی جس سے ڈالرز ملتے ہیں۔ اس واقعہ کو اب کئی ماہ گزر چکے‘ کیا کسی کو متاثرہ لڑکی یا اس کے والدین ملے؟ یقینا نہیں ملے ہوں گے لیکن اس جھوٹی خبر کی وجہ سے ایک تعلیمی ادارے کی ساکھ متاثر ہوئی۔
ایک اور واقعہ سن لیں۔ لاہور میں بیٹھے ایک' صحافی‘ نے برطانیہ میں قتل ہونے والی تین بچیوں کے قاتل کی شناخت بارے ایک جھوٹی خبر چلا دی جس پر برطانیہ میں فسادات پھوٹ پڑے اور اس وقت سینکڑوں افرادگرفتار اور جیل میں ہیں۔ یہ صرف دو جعلی خبروں کا احوال ہے۔ ابھی جس طرح ہمارے دوست ملک متحدہ عرب امارات کے سربراہ کی فیک وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ہیں اس کے بعد آپ کیسے سوشل میڈیا پر اس آزادی کا دفاع کر سکتے ہیں؟ کیا ان فیک وڈیوز کو بھی آپ آزادیٔ رائے کے کھاتے میں ڈالیں گے اور اسے بھی لوگوں کی ذاتی پسند ناپسند سمجھا جائے گا؟
بلاشبہ تیسری دنیا کے دیگر کئی ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی آزادی رائے پر کچھ پابندیاں ہیں۔ پیکا ایکٹ پہلی دفعہ 2016ء میں نواز شریف دور میں بنایا گیا تھا۔ عمران خان نے تب بڑا رولا ڈالا کہ اس سے ہماری آزادیٔ رائے کو خطرہ ہے لیکن جب وہ خود وزیراعظم بنے تو انہوں نے اپنے دور میں اس ایکٹ میں مزید ترامیم کا فیصلہ کیا کہ نواز شریف حکومت نے اس ایکٹ میں کم سزائیں رکھی تھیں۔ خان صاحب کے بقول سزائیں تو بہت زیادہ ہونی چاہئیں۔ عمران خان کے دور میں تو یہ تجویز بھی آئی تھی کہ فیک نیوز پر گرفتار بندے کی چھ ماہ تک ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ نیب کے قانون سے بھی زیادہ سخت قانون تھا۔ نیب کے ملزم کا تین ماہ کا ریمانڈ ملتا تھا اور اس دوران ضمانت نہیں ہو سکتی تھی۔ عمران خان دور میں اس مدت کو بھی چھ ماہ تک بڑھانے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس دور کے وزیر اطلاعات سے یہ بات جب ایک ٹی وی شو میں پوچھی گئی کہ اگر چھ ماہ بعد پتہ چلے کہ خبر فیک نہیں تھی تو اس بے چارے کا کیا ہوگا جسے چھ ماہ جیل میں رکھا تھا؟ تو وزیر صاحب نے کندھے اُچکائے اور کہا کہ پھر کیا کیا جا سکتا ہے‘ ایسا ہو جاتا ہے۔ وہ کلپ آج بھی یوٹیوب پر پڑا ہو گا اور وہی وزیر آج کل شور مچاتے ہیں کہ آزادیٔ صحافت خطرے میں ہے۔
عمران خان نے جب اپنے ناقدین کو جیل میں ڈالنا تھا تو ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے سوشل میڈیا لاز کا دفاع کیا اور ان کا وزیر چھ ماہ کے ریمانڈ کا دفاع کر رہا تھا۔ آج شہباز شریف حکومت نئے قوانین لا رہی ہے تو خان صاحب کی پارٹی کو لگتا ہے کہ اس کا مقصد (ن) لیگ کی قیادت اور مقتدرہ پر ہونے والی تنقید کو روکنا ہے۔ وزارتِ داخلہ کی قائمہ کمیٹی‘ جہاں یہ بل اسمبلی سے منظوری سے پہلے لایا گیا‘ وہاں پی ٹی آئی کی ایم این اے زرتاج گل نے خود کہا کہ سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزتیں اچھالی جاتی ہیں۔ وہ اس قانون کے خلاف نہیں ہیں لیکن ایک تو اسے جلدی میں پاس نہ کریں اور مزید مشاورت کر لیں اور دوسرے سزائیں بہت سخت ہیں‘ وہ کم کریں۔ زرتاج گل صاحبہ کی دونوں باتوں میں وزن تھا اور حکومت اس معاملے پر لچک دکھا سکتی تھی لیکن نہیں دکھائی گئی اور بل کو قائمہ کمیٹی اور اسمبلی سے محض اکثریت کی بنیاد پر بلڈوز کرکے پاس کرا لیا گیا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اس وقت سوشل میڈیا پرپی ٹی آئی اور نواز لیگ دونوں کی قیادت victim ہے۔ ایک طرف عمران خان کے حامی سوشل میڈیا پر (ن) لیگ کی قیادت ‘ مقتدرہ اور دیگر اہم عہدوں پر فائز لیڈر شپ کو روزانہ ٹرولنگ کا نشانہ بناتے ہیں‘ ان کی فیک وڈیوز پر نازیبا زبان کے ساتھ نامناسب ٹریند چلاتے ہیں تو دوسری طرف یہی کام عمران خان اور بشریٰ صاحبہ کے خلاف ان کے سیاسی مخالفین سوشل میڈیا پر کرتے ہیں۔ کیا کوئی اس ملک میں ایسا بندہ ہے جو جانا پہنچانا چہرہ ہو یا کسی عہدے پر ہو اور اس پر گند نہ اچھالا گیا ہو؟ مزے کی بات ہے کہ یہ گند انہی جماعتوں کے حامی ایک دوسرے کی قیادت اور خواتین کے خلاف اچھال رہے ہیں۔ ان سب نے سوشل میڈیا کا حشر نشر کر دیا ہے۔ جیسے میں نے کہا کہ دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ‘ خصوصاً خواتین اس کا شکار ہیں لہٰذا انہیں مشترکہ طور پر سوشل میڈیا ریگولیشنز پر بیٹھ کر کام کرنا چاہیے تھا۔ ایک مشترکہ بل لایا جاتا اور اس گندے ٹرینڈ کو روکا جاتا۔
میری اپنے اینکرز اور صحافی دوستوں سے بات ہو رہی تھی کہ آپ میں سے کتنے لوگ فیک نیوز اپنے ٹی وی شوز یا سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں جو آپ کو اس بل سے خطرہ ہے؟ بقول وزیر اطلاعات عطا تارڑ صاحب سوشل میڈیا پر سارا گند سیاسی جماعتیں ڈالتی ہیں اور ان کا دفاع اینکرز اور صحافی کرتے ہیں۔ سب اینکرز سمجھدار ہیں‘ سب پروفیشنل ہیں‘ میں سب کو جانتا ہوں‘ نہ کوئی فیک نیوز دیتا ہے‘ نہ سوشل میڈیا پر گالیاں دیتا ہے‘ نہ فیک یا فوٹو شاپ تصاویر بناتا ہے‘ نہ مصنوعی ذہانت سے بنی گندی وڈیوز اپنے پروگرام میں چلاتا ہے‘ نہ ہم ان لوگوں کا دفاع کررہے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا کو گٹر بنا رکھا ہے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کا گند ہے‘ اینکرز یا صحافیوں کا پھیلایا ہوا نہیں ہے۔ ہر اینکر یا صحافی نے سوشل میڈیا پر گالیاں کھائی ہیں اور جن سے کھائی ہیں ان کو بچانے کے لیے اب اینکرز ہی میدان میں نکلے ہوئے ہیں۔ کتنے اینکرز پر اب تک مقدمے ہوئے ہیں کیونکہ پیکا ایکٹ تو 2016ء سے چل رہا ہے؟ سب تربیت یافتہ اور سمجھدار ہیں اور انہیں علم ہے کہ سوشل میڈیا کا کیسے استعمال کرنا ہے۔ بہتر ہے ہم سوشل میڈیا کا گند اپنے گلے میں نہ ڈالیں۔ میں نے تو کسی مین سٹریم میڈیا کے اینکر کو سوشل میڈیا پر فیک نیوز یا گندی پوسٹ یا فیک وڈیو لگاتے نہیں دیکھا۔ پھر ہمیں یہ پریشانی کیوں؟ ویسے کیا ہم سب کو سوشل میڈیا پر احتیاط کی ضرورت نہیں کہ جو بات کہیں ذمہ داری سے کہیں یا لکھیں؟ یا جو ہمارے دل میں آئے لکھ دیں‘ بول دیں‘ فیک نیوز پھیلا دیں اور جعلی ویڈوز یا تصاویر چھاپ دیں؟ اور کوئی پوچھ لے تو ہم آزادیٔ رائے کا شور مچا دیں۔ اسلام آباد میں ہم تین سو بندے مارے جانے کی فیک خبر چلا دیں تو بھی کوئی کچھ نہ کہے۔ سب جھوٹ مان لیں کہ واقعی تین سو بندہ مارا گیا۔ کیا ہم ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں بقول زرتاج گل سب کی عزتیں اچھالی جاتی ہیں اور سب چسکے لیتے ہیں اور اسے آزادیٔ صحافت یا آزادیٔ رائے سمجھتے ہیں؟