حیران کن طور پر 2025ء میں پاکستان اور بھارت ایک اور جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمارے جیسے لوگوں کی کئی باتیں‘ جو ہم نے 1990ء کے بعد یار دوستوں کو محفلوں میں بڑے یقین کے ساتھ کی تھیں تاکہ خود کو دانشور ثابت کر سکیں‘غلط ثابت ہوئی ہیں ۔
سب سے زیادہ یقین تو اس بات کا تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے سے اب پاکستان جیسے ملکوں میں مارشل لاء نہیں لگے گا۔ اب دنیا بدل جائے گی۔ ہمیں سیاسی اور جمہوری حکومتیں نصیب ہوں گی۔ اب دنیا میں ایک ہی سپر پاور ہوگی‘ یوں دنیا بھر میں ہر وقت جو جنگی ماحول بنا رہتا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن یہ سوچ کچھ برس بعد ختم ہو گئی جب جنرل مشرف نے مارشل لاء لگایا۔ کچھ عرصہ بعد روس نے پَرپُرزے نکالے اور دوبارہ امریکہ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اب یوکرین کے ساتھ تین سال سے جنگ چل رہی ہے جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں۔ ایک اور یقین یہ تھا کہ اب پاکستان اور بھارت میں جنگیں نہیں ہوں گی۔ وہ دور گئے جب دل چاہا جنگ لڑ لی۔ ہمارا خیال تھا کہ اس خطے میں اب جنگیں نہیں ہوں گی‘دشمنی کم ہوگی اور ایک دوسرے کے ساتھ تمام ایشوز کو بخوبی حل کیا جائے گا۔ اس خیال کو تقویت پہنچانے میں 1998ء میں ہونیوالے ایٹمی دھماکوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ ہم سب کا خیال تھا کہ بھارت اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اب دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا نام بھی کوئی نہیں لے گا کیونکہ فوری طور پر ایٹمی جنگ تک بات چلی جائے گی اور یہ کوئی افورڈ نہیں کرسکتا۔
دانشور لکھاری مبشر زیدی کو میں پڑھ رہا تھا جنہوں نے ایک دلچسپ بات لکھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2025ء میں ایٹمی جنگ کا امکان کئی سال پہلے ظاہر کیا جاچکا تھا۔ مبشر کے مطابق امریکی جریدے سائنس ایڈوانسز میں اکتوبر 2019ء میں ایک تحقیق شائع ہوئی تھی جس کا عنوان تھا:Rapidly expanding nuclear arsenals in Pakistan and India portend regional and global catastrophe‘یعنی پاکستان اور بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں میں تیزی سے ہوتی توسیع سے علاقائی اور عالمی سطح پر تباہی کا خدشہ۔ کولوراڈو یونیورسٹی‘ رٹگرز یونیورسٹی‘ کیلیفورنیا یونیورسٹی لاس اینجلس اور ٹیکساس یونیورسٹی کے ماہرین نے اس امکان کا جائزہ لیا تھا کہ 2025ء میں اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوجائے تو دنیا پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ اس ریسرچ آرٹیکل کے مطابق پاک بھارت ایٹمی جنگ کے نتیجے میں دس کروڑ افراد فوری طور پر لقمہ اجل بن جائیں گے۔ ایٹمی حملوں سے لاکھوں ٹن کاربن خارج ہوگا اور دھویں کے بادل چند ہفتوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اس سے سورج کی روشنی 20 سے 35 فیصد اور عالمی درجہ حرارت دو سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک کم ہوجائے گا۔ فصلوں اور سبزیوں کی کاشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور عالمی سطح پر قحط کا سامنا ہوگا۔ اس تحقیق کے مطابق ایٹمی جنگ کے اثرات ختم ہونے میں دس سال سے زیادہ لگ جائیں گے۔
یوں ہر دفعہ دنیا بھاگ کر پاکستان اور بھارت کو جنگ کے دہانے سے واپس لائی کہ کہیں ایٹم بم نہ چل جائیں۔ کئی دفعہ پاکستان اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے آئیں۔ محدود پیمانے پر لڑائی بھی ہوئی لیکن پھر دنیا خصوصاً امریکہ نے اس جنگ کو روکا۔ یوں سمجھا گیا کہ ایٹم بم دونوں ملکوں میں روایتی جنگ کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ ہوگا لیکن اس اعتماد کا بڑا نقصان ہوا کہ خطے میں پراکسی جنگوں نے زور پکڑا۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے کہ وہ انکے ہاں جنگ کو ہوا دے رہے ہیں یا علیحدگی پسندوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب چونکہ براہِ راست جنگ کے امکانات نہ تھے لہٰذا دونوں ملک پراکسی کے ذریعے یہ شوق پورا کررہے تھے۔ اگر حالیہ پاک بھارت جنگ کا بیک گراونڈ دیکھیں تو جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ میں پاکستان نے الزام لگایا کہ اسکے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے اور انکے پاس اسکے ثبوت ہیں۔کچھ دن بعد پہلگام میں سیاح مارے گئے تو بھارت نے پاکستان پر الزام لگادیا جس کا شدت سے انکار کیا گیا بلکہ پاکستان نے غیرجانبدارنہ تحقیقات کی پیشکش بھی کی‘ لیکن اس دفعہ بھارت نے مختلف انداز اختیار کیا۔ پاکستان میں ہر روز دہشت گردی ہورہی ہے جس میں ہمارے فوجی جوان اور سویلین جانیں دے رہے ہیں اور بھارتی پارلیمنٹ اور وزراکھل کر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو لہولہان کررہے ہیں لیکن پاکستان نے کبھی دہشت گردی کو جواز بنا کر بھارت پر حملہ نہیں کیا۔ بھارت نے اس دفعہ وہ رویہ اختیار کیا جو ماضی میں امریکہ اور یورپ نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اختیار کیا تھا ‘ یہی وجہ تھی کہ جب یورپ نے بھارت کو کہا کہ وہ جنگ کے بجائے تحقیقات کی طرف جائے جس پر پاکستان بھی تیار ہے تو بھارتی وزیرخارجہ نے تکبرسے جواب دیا کہ یورپ ہمیں واعظ نہ کرے‘ جو کام وہ خود نہیں کرتے‘ ہمیں بھی وہ کرنے کانہ کہیں۔ جے شنکر کا مطلب تھا کہ یورپ اور امریکہ نے بھی افغانستان اور عراق پر حملے کیے تھے تو اب وہ بھارت کو کیسے روک سکتے ہیں۔
پاپولر لیڈرشپ کسی بھی ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہوتی ہے۔اگر پاپولر لیڈر سمجھدار ہو تو قوم کو بہت آگے لے جاتا ہے لیکن اگر اسکے ذہن میں مہاتما بننے یا بلے بلے‘ واہ واہ کا جنون ہو تو قوم کوکسی بڑی جنگ میں پھنسا دیتا ہے تاکہ اپنی مقبولیت قائم رکھ سکے۔ وزیراعظم نریندر مودی بھی بھارت میں بہت مقبول ہوئے اور انہوں نے بھارتی عوام پر اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے اور خود کو نہرو‘ واجپائی‘ من موہن سنگھ سے مختلف اور بڑا ثابت کرنے کیلئے اس دفعہ وہ فیصلہ کیا جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ بات چیت کے بجائے سیدھے میزائل پاکستان میں مارے جس میں خواتین اور لقمۂ اجل بنے۔ پاکستانی شہروں پر ڈرون اور فوجی اڈوں پر میزائل حملے کیے۔ مودی کا خیال تھا کہ پاکستان واپسی حملے کی جرأت نہیں کرے گا لیکن جس طرح پاکستان نے جواب دیا اس نے بھارت کیساتھ ساتھ دنیا کو بھی حیران کر دیا ہے۔ بھارت کے اندر دور تک میزائل‘ ڈرون اور جنگی طیاروں سے کامیاب حملے کیے گئے ہیں۔
میں اُن لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے ہر حال میں جنگ کی مخالفت کی ہے‘ دونوں ملکوں میں دوستی کی بات کی ہے۔ جنگیں بربادی لاتی ہیں‘ جنگوں میں مائوں کے بچے مارے جاتے ہیں۔ ابھی یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ لیکن جب مقبولیت اور واہ واہ سر پر چڑھ جائے تو پھر وہ بربادی لاتی ہے۔ میرا ایک دوست مذاق میں کہتا ہے کہ مودی یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ ہم نے تو دنیا بھر کا قرض واپس کرنا ہے جبکہ بھارت میں تو دنیا کا پیسہ لگا ہوا ہے‘ لہٰذا ہم سے زیادہ مودی کو عقلمندی کی ضرورت ہے۔ لیکن جس وقت عقل کی ضرورت تھی اس وقت تکبر اور غرور سے کام لیا گیا۔ مجھے مودی کا دنیا بھر سے فون کالز اور سعودی عرب اور ایران سے بات چیت اور تحقیقات پر زور دینے کے باوجود انکار اور اب جنگ شروع کرنے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خدا سے کیا گیا ایک سوال یاد آیا کہ فرعون کو سب سمجھا رہے ہیں کہ وہ ضد نہ کرے اور میری قوم کو میرے ساتھ جانے دے۔ یہ بات فرعون کی بہن‘ فوجی جنرل‘ درباریوں اور مصری عوام تک کو سمجھ آرہی ہے کہ اس کی ضد اور اَنا اسے نقصان دے گی لیکن یہ عام سی بات خود فرعون کو کیوں سمجھ نہیں آرہی؟ خدا نے جواب دیا ‘ وہ اب کسی کی بات نہیں سنے گا‘ اُس پر ہدایت کے تمام راستے بند ہیں۔ میں جسے برباد کرنا چاہتا ہوں اُس پر ہدایت کا دروازہ بند کردیتا ہوں۔ جب سے موسیٰ علیہ السلام کو ملنے والا خدا کا یہ جواب پڑھا ہے میں ڈر گیا ہوں۔ روز توبہ اور اپنی کونسلنگ کرتا ہوں۔ واقعی تکبر‘اَنا اور ضد ہی انسان کے بڑے دشمن ہیں جو تباہی لاتے ہیں۔