"RKC" (space) message & send to 7575

نریندرمودی سے راہول گاندھی تک

آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ جو لوگ جنگ کا فیصلہ کرتے ہیں ان کو جنگوں میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ میں بڑے عرصے سے کہتا آیا ہوں کہ جو لیڈر اپنے ملک میں‘ اپنے عوام میں بہت مقبول ہو جائیں وہ اپنے ملک کو ترقی کم اور تباہی کی طرف زیادہ لے جاتے ہیں۔ ابھی تازہ مثال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے قائم کی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جب لیڈروں کو جمہوریت کے نام پر دیوتا یا بھگوان مان کر ان کی پوجا شروع ہو جاتی ہے‘ اور ان کے پجاری انہیں مہاتما ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں‘ یہیں سے تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ غور کریں کہ ایک سیاسی لیڈر جمہوری طریقے سے جب اوپر آتا ہے تو اپنے سے پہلے موجود حکمرانوں پر سخت تنقید کر کے آتا ہے۔پاکستان اور بھارت میں تو بغیر گالی گلوچ نہ آپ مشہور ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کامیاب سیاستدان بن سکتے ہیں۔ مگر جب وہ بندہ خود وزیراعظم بنتا ہے تو پھر وہ خود کو تنقید یا احتساب سے ماورا سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اس مقام پر پہنچنے کیلئے لوگوں کو عظمت کے خواب دکھائے گا۔ اپنی قوم‘ مذہب اور ملک کو دنیا میں سب سے عظیم ثابت کرے گا۔ مذہب کارڈ کھیلے گا۔ قوم پرستی اجاگر کرے گا۔ دھیرے دھیرے وہ لوگوں کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ صرف ان کا مذہب ہی دنیا کا اعلیٰ ترین مذہب ہے‘ وہی اعلیٰ لوگ ہیں۔ بس انہیں صحیح لیڈر نہیں ملا۔ وہ لیڈر میں ہوں اور قوم کی خوش قسمتی ہے کہ میں انہیں مل گیا ہوں۔ اب میں تمہاری تقدیر بدل دوں گا۔ بس خیال رہے کہ میرے مخالفین مجھ پر کوئی اعتراض کریں نہ تنقید‘ ورنہ ترقی رک جائے گی۔ حالانکہ وہ شخص خود اپنے مخالفین کا مذاق اڑائے گا‘ انہیں چڑائے گا‘ اس کے حامی بھی اس کے مخالفین کا ٹھٹھا اڑائیں گے۔ وہ ان کی باتوں‘ شکلوں اور بولنے کے انداز پر ہنسی مذاق کرے گا۔ لوگوں کی آنکھوں میں مخالفین کو مسخرہ ثابت کرے گا اور خود کو اہم انسان اور دانشور‘ کہے گا کہ لوگ خود کو خوش قسمت سمجھیں کہ مجھے بھیج کر تقدیر نے ان پر مہربانی کی ہے۔
میں نے ماہم فضل صاحبہ کا ایک کمنٹ پڑھا کہ سیز فائر کے بعد راہول گاندھی کی اُس تقریر کے آج کل انڈیا میں بڑے چرچے ہیں جو اُس نے چند سال پہلے پارلیمنٹ میں کی تھی۔ اس تقریر میں راہول گاندھی نے نریندرمودی کو خبردار کیا تھا کہ اس کی پاکستان کی طرف سخت پالیسیوں کی وجہ سے چین اور پاکستان ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ہیں۔ کانگریس حکومت نے پاکستان کے ساتھ ایسے تعلقات رکھے کہ وہ بھارت سے خطرہ محسوس نہ کرے لیکن بی جے پی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی جس طرح کا رویہ اختیار کیا اس کے بعد پاکستان کا جھکاؤ چین کی طرف زیادہ ہوا۔ آج یہ حالت ہے کہ پاکستان امریکہ سے زیادہ چین کے قریب ہے اور اس کی وجہ بھارت ہے۔ ماہم فضل کا کہنا تھا کہ اب وہی کچھ ہوا ہے جو راہول گاندھی نے چند برس پہلے کہا تھا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان چین کے زیادہ قریب چلا جائے گا۔ تاہم انہوں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ راہول گاندھی کو تو بھارت میں کوئی سیریس نہیں لیتا‘ اس کا سب مذاق اڑاتے ہیں اور اس کے کئی نِک نیم رکھے ہوئے ہیں‘ لیکن اس نے یہ بات بہت اہم اور ٹھیک کی تھی۔ اب ذرا تصور کریں کہ ہم پاکستانی بھی بی جے پی اور مودی حکومت کے پروپیگنڈا سے کتنے متاثر ہیں کہ ہم بھی راہول کو ایک ''پپو مُنڈا‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ وہ کارنامہ ہے جو مودی اور ان کے حامیوں نے سرانجام دیا کہ بھارتی عوام کو چھوڑیں انہوں نے ہم پاکستانیوں کو بھی قائل کر لیا ہے کہ راہول گاندھی کبھی سمجھداری کی بات نہیں کر سکتا۔
مودی اور اس کے حامیوں کی راہول گاندھی پر حملے کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اکیلا ان کی تاحیات بھارت پر حکمرانی کی خواہش کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ ذرا مودی اور راہول گاندھی کا موازانہ کریں کہ دونوں کا بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ مودی کو چائے والا کہا جاتا ہے جس نے اپنا کیریئر ایک چائے کے ڈھابے سے شروع کیا۔ قسمت نے ساتھ دیا یا بھارتی عوام کی مسلمانوں سے نفرت نے کہ وہ وزیراعظم بن گیا۔ نہ مودی کبھی کسی یونیورسٹی گیا‘ نہ اسے انگریزی زبان پر مہارت تھی لیکن وہ وزیراعظم بن گیا جس کی بھارتی معاشرے نے بہت قیمت ادا کی ہے کیونکہ جب بھارت میں سیکولرازم کی موت ہوئی تبھی مودی وزیراعظم بن سکا۔
دوسری طرف آپ ذرا راہول گاندھی کا بیک گراؤنڈ دیکھیں۔ بیرونِ ملک کا پڑھا لکھا‘ باپ راجیو گاندھی وزیراعظم تھا‘ دادی اندرا گاندھی تین دفعہ وزیراعظم رہی‘ پھر پڑنانا جواہر لال نہرو چار دفعہ وزیراعظم‘ ماں سونیا گاندھی نے خود وزیراعظم بننے کے بجائے اپنی پارٹی کے منموہن سنگھ کو وزیراعظم بنایا۔ اب جب مودی اور ان کے فالوورز کو یہ سب کچھ نظر آتا ہے تو ان کے پاس اس بیک گراؤنڈ کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ہی چیز بچ جاتی ہے کہ نہرو خاندان کا جو اکیلا چشم و چراغ بچا ہے اسے ذلیل کرو‘ اس کا مذاق اڑاؤ‘ اسے غرق کر دو۔ لیکن وہ غرق کیسے ہوگا کیونکہ وہ ابھی وزیراعظم نہیں بنا لہٰذا اس پر براہِ راست کوئی الزام یا تنقید نہیں ہو سکتی۔ بچ بچا کر ایک ہی کام ہے کہ اسے پپو کا نِک نیم دے کر ہر روز سوشل میڈیا اور ٹی وی شوز اور پارلیمنٹ میں اس کا مذاق اڑاؤ۔ ثابت کرو کہ وہ بچگانہ حرکتیں کرتا ہے۔ اس کے پاس عقل ہے نہ سمجھ‘ صرف نہرو خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے خود کو مہان سمجھتا ہے۔
راہول گاندھی پر حملے کرنے کیلئے نہرو خاندان کی ساکھ خراب کرنا بھی ضروری تھا لہٰذا نہرو کو پاکستان کی تخلیق کا ذمہ دار قرار دیا جانے لگا کہ وہ محمد علی جناح کو متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بننے دیتا تو پاکستان نہ بنتا۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ بھارت کے سابق وزیر جسونت سنگھ نے محمد علی جناح کے نام سے کتاب لکھی تھی جس کا موضوع یہی تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار جناح نہیں نہرو تھا۔ اس پر ہندوستان میں شور شرابہ مچا اور جسونت سنگھ کی بی جے پی کی رکنیت بھی کچھ عرصہ معطل ہوئی کہ تم نے جناح کو کیوں کلین چٹ دی لیکن یہ سب ڈرامہ تھا کیونکہ بی جے پی کو نہرو کو بھارتیوں کی نظر میں وِلن ثابت کرنا تھا اور وہ جسونت سنگھ کی کتاب نے کیا۔ جسونت سنگھ واجپائی دور میں وزیرخارجہ تھے۔ یوں بڑی سمجھداری سے انہوں نے پہلے نہرو کو بطور وِلن اور سردار پٹیل کو ہیرو اور قوم پرست پروموٹ کیا جس نے ان کے بقول ہندوستان کی 565 آزاد ریاستوں کو بھارت میں شامل کرایا تھا۔ یوں سردار پٹیل کو نہرو سے بڑا لیڈر ثابت کیا گیا۔ نئی نسل نہرو کو چھوڑ کر‘ جس نے عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر انگریز کی جیلیں بھگتیں اور آزادی لی‘ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو ہیرو ماننے لگی۔ ابھی تو یہ کھیل شروع ہوا تھا۔ بی جے پی کی راہ میں اگلی رکاوٹ مہاتما گاندھی تھا جس کے دو جرم آر ایس ایس اور بی جے پی کبھی معاف نہیں کر سکتی تھی۔ گاندھی کا بڑا جرم تقسیم کے وقت فسادات میں مسلمانوں کی جانیں بچانا اور پاکستان کے اثاثوں کی ریلیز کیلئے احتجاج کرنا تھا جس پر انہیں آر ایس ایس کے ایک بھگت نے گولی مار دی تھی۔
اب مودی کا راستہ آسان ہوا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مودی ایسا پاپولر بھگوان بنا کہ اُس پر جو بھی انگلی اٹھی وہ کاٹ دی گئی۔ اس کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر ہر مخالف کا جینا حرام کر دیا۔ گالی گلوچ اور دھمکیاں۔ مودی نے بھی بھارت کو عظیم قوم بنانا تھا۔ آپ اندازہ کریں کہ راہول گاندھی‘ جس نے تین چار سال پہلے چین اور پاکستان سے متعلق یہ سمجھداری کی باتیں کی تھیں وہ بھارت کے عوام اور میڈیا کے نزدیک پپو اور بیوقوف ہے جبکہ مودی‘ جس نے بھارت کو خوفناک جنگ میں دھکیلا اور پاکستان کے ہاتھوں دھول چٹوائی‘ وہ بہت سمجھدار ہے اور اس کے بھگت اس کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں۔ یہ ہے وہ کرشمہ جو نالائق لیکن پاپولر لیڈر کرنا جانتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں