"RKC" (space) message & send to 7575

گانٹھیں اب دانتوں سے بھی نہیں کھل رہیں

کبھی کبھار حیرانی ہوتی ہے کہ اس خطے کے ڈی این اے میں ایسا کیا ہے کہ دنیا کو ہر دفعہ ہمیں ایک دوسرے سے چھڑانا پڑتا ہے۔ ہم کچھ دن آرام سے گزارتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی اپنی اپنی شکایات ہیں‘ ایک دوسرے سے گلے شکوے ہیں۔ متعدد مواقع آئے جب ہم باہمی مسائل حل کر سکتے تھے لیکن ہر دفعہ 'ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘ والا معاملہ درپیش رہا۔
مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ کی یادداشتیں پڑھی تھیں‘ جس میں ایک بات لکھی تھی جو بڑی عجیب تھی۔ کشمیر کا مسئلہ 1950ء کی دہائی میں بھارت کیلئے ''اٹوٹ انگ‘‘ نہیں بنا تھا۔ اس وقت بھارتی قیادت 'کچھ لو اور کچھ دو‘ فارمولے پر بات کرنے کی خواہشمند تھی۔ بھارت کی ایک اہم شخصیت نے پاکستانی وفد کے ارکان کو کہا کہ اگر پاکستان حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ پر سے اپنا دعویٰ واپس لے لے تو بھارت کی جانب سے کشمیر پر بہت رعایت دی جا سکتی ہے۔
آج کی نئی نسل کو یہ یاددہانی ضروری ہے کہ پاکستان کے قیام کے وقت ہندوستان کی 562 ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کو چن لیں۔ جونا گڑھ اور حیدرآباد (دکن) نے پاکستان کا انتخاب کیا تھا۔ اگرچہ حیدرآباد کے نظام نے پہلے یہ کوشش کی تھی کہ کسی طرح اپنا الگ ریاستی تشخص قائم رکھیں۔ جونا گڑھ کے نواب اور دیوان نے قائداعظم سے ملاقات کر کے اپنی ریاست کو پاکستان میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ ان دونوں ریاستوں کا یہ فیصلہ تسلیم نہ کیا گیا اور بھارتی وزیرداخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے فوج کی مدد سے ان پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ آج کی نئی نسل میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ جونا گڑھ ریاست کا آخری دیوان؍ وزیراعظم سر شاہنوار بھٹو تھے جو پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے والد تھے۔
پاکستان نے بڑے عرصے تک حیدرآباد اور جونا گڑھ پر اپنا دعویٰ کیا اور کچھ برس پہلے تک ان دونوں ریاستوں پر پاکستان اپنا حق جتاتا رہااور یہ دستاویزات میں نے اسمبلی کے وقفہ سوالات میں پیش کیے گئے تحریری جوابات میں خود پڑھ رکھی ہیں۔ لیکن پھر دھیرے دھیرے ہمارے ہاں دکن اور جونا گڑھ کا ذکر کم ہوتا گیا اور بات صرف کشمیر تک محدود ہو کر رہ گئی۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ جیسے ہم آج کشمیر پر اپنا دعویٰ رکھتے ہیں‘ کبھی ہم حیدر آباد اور جونا گڑھ پر بھی رکھتے تھے۔ کشمیر پر ہم نے خاموشی اسلئے اختیار نہیں کی کیونکہ وہاں سے ہمارے دریائوں کا پانی آتا ہے اور وہاں کی اکثریتی آبادی بھی مسلم ہے جبکہ یہ جغرافیائی طور پر بھی پاکستان سے ملحق ہے۔ اگرچہ ہندوستان کی آزاد ریاستوں کا الحاق اس بنیاد پر ہونا تھا کہ کس ریاست میں ہندوئوں یا مسلمانوں کی اکثریت ہے‘ اسی کے مطابق وہ بھارت یا پاکستان میں شامل ہو سکتی تھیں۔ مذکورہ ریاستوں کو بھی یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔ کشمیر کے راجہ نے مسلم اکثریتی آبادی کے باوجود بھارت کا انتخاب کیا تو ہمارے ہاں شدید ردِعمل آیا کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے لہٰذا وہی اصول لاگو کیا جائے کہ اکثریتی آبادی کس کی ہے۔ یوں پاکستان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح جونا گڑھ میں اکثریت ہندو تھے مگر وہاں کے نواب نے پاکستان کا انتخاب کیا تھا۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ نہیں مل سکتے تھے لہٰذا بھارت نے فوج کشی کر کے ان پر قبضہ کر لیا لیکن پاکستان عالمی سطح پر یہ مسئلہ اٹھاتا رہا لیکن جیسے میں نے کہا‘ دھیرے دھیرے یہ مسئلہ ہماری ترجیحات اور بیانات سے غائب ہوتا چلا گیا۔
اس تناظر میں مذکورہ کتاب میں لکھا تھا کہ بھارت کشمیر کے مسئلے کو حیدر آباد اور جونا گڑھ کے تنازع کے پس منظر میں حل کرنے کو تیار تھا اور جب وہ افسر یہ پیغام لے کر پاکستان واپس آیا تو یہاں زیادہ حوصلہ افزا جواب نہیں ملا اور یوں یہ معاملہ ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ آج تک حیدر آباد ملا نہ جونا گڑھ جبکہ کشمیر پر ہم چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت کی پاکستانی قیادت نے سوچا ہو کہ اگر ہم نے حیدر آباد اور جونا گڑھ کے بدلے کشمیر لے لیا تو پھر ہم پر یہی الزام لگے گا کہ ہم نے قیام پاکستان کے بنیادی تصورات کا سودا کر لیا ہے۔ یہی خوف آج بھی ہے‘ جس نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ اہم مسائل پر مشکل فیصلے لینے سے روک رکھا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بھارت سے زیادہ اُس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کیلئے اہم تھا جو خود ایک کشمیری تھے۔ وہ کسی صورت اپنا آبائی وطن پاکستان کو نہیں دینا چاہتے تھے‘ جہاں انہیں ویزہ لے کر جانا پڑتا۔ بھارت میں اکثر کہا جاتا ہے کہ اگر تقسیم کے وقت بھارت کا وزیراعظم نہرو کی جگہ سردار پٹیل ہوتا تو پاکستان اور بھارت میں کبھی کشمیر کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ اُس دور کی اکثریت یہی سمجھتی تھی کہ کشمیر قدرتی طور پر پاکستان کیساتھ ملحق ہے اور اسکا بھارت کیساتھ الحاق ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ان قوتوں کا خیال تھا کہ کشمیر کے بجائے انہیں باقی ریاستوں پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان اور بھارت میں کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا اور کشمیری راجا نے وزیراعظم نہرو سے فوج بھیجنے کے درخواست کی تو اس پر بھارتی کابینہ کے اجلاس میں کافی بحث ہوئی۔ نہرو کسی صورت اتنی جلدی پاکستان کیساتھ جنگ نہیں لڑنا چاہتے تھے لہٰذا وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے تاہم اپنا آبائی وطن بھی وہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ جب کابینہ اجلاس میں بحث طول پکڑ گئی تو اس پر سردار پٹیل‘ جو وزیر داخلہ تھے‘ نے زور سے کہا: وزیراعظم صاحب! آپ کشمیر چاہتے ہیں یا نہیں‘ فوراً فیصلہ کریں۔ اس پر نہرو نے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس سے پہلے کشمیر کے راجا نے بھارت کیساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا تاکہ بھارت کے پاس اپنی فوج کشمیر میں داخل کرنے کا قانونی جواز موجود ہو۔
اُس وقت پاکستانی لشکر‘ جو زیادہ تر قبائلیوں پر مشتمل تھا‘ وہ بارہ مولہ تک پہنچ چکا تھا لیکن وہ سرینگر پہنچنے کے بجائے وہیں مقامی لوگوں کے گھروں میں گھس کر سامان ٹرکوں پر لادنے میں مصروف ہو گئے اور ادھر بھارت نے سرینگر ایئرپورٹ پر اپنے فوجی دستے اتارنا شروع کر دیے۔ یوں قبائلی لشکر کی لوٹ مار کی وجہ سے کشمیر فتح نہ ہو سکا اور دونوں ملکوں کے مابین ایک ایسی کشمکش شروع ہو گئی کہ آج 78 برس کے بعد بھی یہ آتش فشاں دہک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1965ء میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب خان کو قائل کیا کہ اس وقت لوہا گرم ہے اور کشمیر کے لوگ پاکستان کا ساتھ دیں گے اور کشمیر آزاد کرانے کا یہ بہترین وقت ہے تو اس وقت کمانڈوز کی مخبری کرنے والے مقامی لوگ ہی تھے جن کے ذہنوں میں 1948ء کی لوٹ مار تازہ تھی۔ وہ ڈر گئے تھے کہ وہی سلوک دوبارہ ہو گا۔ یوں وہ کمانڈو آپریشن ناکام ہو گیا اور بڑی تعداد میں ہمارے جوانوں نے قربانی دی۔ اُس وقت کی قیادت کا خیال تھا کہ ادھر سے ہم بھارت کو دبوچ لیں گے۔ اگر جنگ ہوئی تو بھی لائن آف کنٹرول پر ہوگی اور بھارت انٹرنیشنل بارڈر پر جنگ شروع نہیں کرے گا۔ یہی کچھ برسوں بعد جنرل پرویز مشرف نے کارگل پر کیا تھا۔ لیکن 65ء میں بھارت نے عالمی سرحد پر محاذ کھول لیا اور لاہور کے باہر تک پہنچ گیا۔
بہرحال دونوں ملکوں کے پاس کشمیر اور دیرینہ دشمنی کو حل کرنے کے کئی شاندار مواقع ابھرے (جن پر پھر بات کریں گے) لیکن کچھ ہم نے ضائع کر دیے تو کچھ بھارت نے۔ زیادہ مواقع ہم نے ہی گنوائے۔ آج حالت یہ ہے کہ جو معاملہ دہائیوں پہلے حل ہو سکتا تھا وہ آج دونوں ملکوں کو خطرناک جنگ کے موڑ پر لے آیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی 78 برسوں میں ہاتھوں سے دی ہوئی گانٹھیں اب دانتوں سے بھی نہیں کھل پا رہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں