دسمبر 2004ء کے دن تھے۔ پاکستانی صحافیوں کا ایک دس بارہ رکنی وفد بھارتی حکومت کی دعوت پر نیو دہلی میں موجود تھا۔ جنرل مشرف اور واجپائی صاحب کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والے کامیاب مذاکرات کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں اچانک بہت بہتری آئی تھی۔ ان مذاکرات کے بعد جو اگلے تین چار سال گزرے اس سے بہتر وقت شاید ہی دونوں ملکوں میں کبھی آیا ہو۔ واجپائی صاحب کے بعد منموہن سنگھ صاحب کی حکومت کے ساتھ بھی جنرل مشرف صاحب کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ بھارتیوں اور پاکستانیوں کے درمیان تب ایسے مناظر دیکھنے میں آتے تھے کہ حیرانی ہوتی تھی کہ یہ وہی ملک ہیں جنہوں نے تین جنگیں لڑی ہیں۔ نواز شریف اور واجپائی کے بعد جنرل مشرف اور منموہن سنگھ کے درمیان مسئلہ کشمیر پر مذاکرات بہت تیزی سے چل رہے تھے بلکہ کہا گیا تھا کہ منموہن سنگھ نے تو پاکستان آنا تھا اور دونوں ملکوں نے کشمیر پر اہم اعلان کرنے تھے لیکن پھر پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو برطرف کردیا تو اُن کے خلاف تحریک چل پڑی اور یوں کشمیر کا مسئلہ پیچھے رہ گیا۔
اس طرح کا معاملہ پھر عمران خان اور جنرل باجوہ کے دور میں بھی ہوا جب بیک چینلز کی وجہ سے بھارتی وزیراعظم مودی دس دن کیلئے اسلام آباد آنے پر تیار ہو گئے تھے۔ آٹھ دن انہوں نے بلوچستان میں ہندوئوں کے مقدس مقامات پر گزارنے تھے اور پھر اسلام آباد آکر عمران خان کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر اتفاقِ رائے کا اظہار کرنا تھا۔ تجارت کھولنی تھی اور دونوں ملکوں کے شہریوں کیلئے ویزے کی آسانیاں اور باقی اقدامات کرنے تھے‘ لیکن عمران خان اور شاہ محمود قریشی پیچھے ہٹ گئے۔انہیں خوف تھا کہ کشمیر پر تصفیے سے وہ الیکشن ہار جائیں گے ورنہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا بہترین موقع تھا جب فوج اور آرمی چیف بھارت کے ساتھ معاملات حل کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ دبئی میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کا وہ حل نکل آیا تھا جس پر دونوں ملک راضی تھے۔ اگر یہ مسئلہ سات آٹھ سال پہلے حل ہوچکا ہوتا تو دونوں ملک آج چوتھی جنگ نہ لڑ رہے ہوتے اور نہ یہ خطہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوتا۔
جنرل باجوہ کو اس بات کا کریڈٹ دینا ہوگا کہ وہ شاید پاکستان کے واحد آرمی چیف تھے جو بھارت کیساتھ کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں پوری کوشش بھی کی لیکن اسے سیاسی سپورٹ نہ ملی۔ خیر بات ہو رہی تھی‘ پاکستانی صحافیوں کے وفد کی جو بھارت میں موجود تھا۔ اس وفد میں میں بھی شریک تھا۔ ایک دن ہمیں بھارت کے ایک بڑے اخبار کے دفتر لے جایا گیا تاکہ بھارت کی صحافت کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔ وہاں ہماری ملاقات ایڈیٹر سے کرائی گئی۔ انہوں نے آئوبھگت کی۔بات پاکستان اور انڈیا کی صحافت پر ہونے لگی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کا میڈیا بھارتی میڈیا سے بہت بہتر ہے۔ ہم سب سن کر حیران ہوئے۔اُنکا کہنا تھا پاکستانی میڈیا نے چار مارشل لا بھگتے ہیں‘ برسوں تک فوج نے براہِ راست حکمرانی کی ہے‘ آمریت میں میڈیا کا مزاحمت کرنا اور زندہ رہنا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ پاکستانی میڈیا نے ہار نہیں مانی۔ جنرل ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان‘جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کے مارشل لا میں بھی پاکستانی میڈیا کھڑا رہا ہے۔ آمریت کے اس دبائو کے باوجودپاکستانی میڈیا کی مزاحمت قابلِ تعریف ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا اس طرح کے ماحول میں وہ کردار نہیں دکھا سکا‘ جب اندراگاندھی نے 1975ء میں دو سال کیلئے ایمرجنسی لگا کربنیادی انسانی حقوق معطل کیے بلکہ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کی گئیں تو میڈیا خاموش رہا۔اپوزیشن کے سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہیں لیکن میڈیا اندراگاندھی اور سنجے گاندھی کے ساتھ کھڑا تھا۔ بھارتی میڈیا تو دو سال اندراگاندھی کو نہیں جھیل سکا جبکہ آپ لوگ چار مارشل لا بھگت کر بھی لڑ رہے ہیں۔ اُنکا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا کو تو زیادہ طاقتور ہوناچاہیے تھا کیونکہ یہاں تو کوئی مارشل لا نہیں لگا اور نہ ہی سیاسی ادارے توڑے گئے۔ ہمارے ہاں جمہوریت مسلسل چلتی رہی تھی لیکن ہم مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوئے۔
بھارتی میڈیا کے بارے کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ کسی صحافی نے ایک اہم اپوزیشن سیاستدان کو طعنہ دیا کہ آپ لوگ حکومت کے سامنے مزاحمت نہیں کر پارہے۔ انہوں نے بھی جوابا ًطنز کر تے ہوئے کہاکہ ہم نے میڈیا کی بہادری بھی دیکھ لی تھی جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگائی تو اس نے میڈیا سے کہا تھا کہ ذرا جھک جائیں‘اور آپ جھکنے کی بجائے لیٹ گئے ۔یہ سب باتیں مجھے اسلئے یاد آرہی ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی ایک حالیہ پریس بریفنگ میں پاکستانی صحافیوں سے پوچھا ہے کہ اب بتائیں آزادی کہاں زیادہ ہے‘ بھارتی چینلز پر یا پھر پاکستانی چینلز پر؟ ان کا اشارہ بھارتی ٹی وی چینلز کی طرف تھا جہاں حیرت انگیز طور پر جنگ کے ماحول میں ایسے ایسے جھوٹ گھڑے گئے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہا گیا کہ بھارتی فوج پاکستان کے اندر گھس گئی‘ کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد پر قبضہ ہوگیا۔ میڈیا کا اس سے بدترین زوال نہیں ہوسکتا جو بھارتی میڈیا کا ہوا ہے۔
لیکن پاکستانی میڈیا نے بھی ریاست اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں بہت کچھ بھگتا ہے۔ ہماری تاریخ بھی اتنی تابناک نہیں کہ فخر کریں۔ ہم نے میڈیا کو آزادی دی ہوئی ہے۔ آزادی اس وقت تک ہے جب میڈیا آپ کی زبان بولے۔ ٹی وی چینلز مالکان کو جیل میں ڈالا گیا‘اینکرز کو ٹی وی شوز سے نکلوایا گیا‘ورکرز کو بیروزگار کیا گیا‘کئی غائب بھی ہوئے‘ مقدمات بھی بھگتے۔ آج بھی ٹی وی چینلز پر مشکلات ہیں اور اکثر اینکرز کو اوپر سے آنیوالی کالز پر ٹی وی شو دیے جاتے ہیں یا وہ ان شوز سے نکال دیے جاتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے کچھ اینکرز نے بھی صحافت کے بجائے سیاسی پارٹیوں کا ترجمان بننا پسند کیا‘ہمارے ہاں بھی صحافت اور سیاسی ورکر میں فرق کم ہی رہ گیا ہے بلکہ جو صحافی یا اینکر سیاسی پارٹی کا ورکر نہیں بنتا وہ سوشل میڈیا پرگالیاں کھاتا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ اب سیاسی ورکرز اور سیاستدان بھی آزاد میڈیا نہیں چاہتے ‘وہ بھی پارٹی کا ترجمان چاہتے ہیں جو اُنکے لیڈر کو مہاتما اور اس کے مخالفوں کو چور بنا کر پیش کرے۔ یہی اپروچ بھارت میں ہمیں نظر آئی جہاں کارپوریٹ ورلڈ نے بھارت کے ٹی وی چینلز خرید کر اُن اینکرز کو نکال دیا جو آزادنہ صحافت کرتے تھے۔ کسی کو بھی سکرین پر نہ رہنے دیا گیا۔ بھارت میں اسوقت قومی اور علاقائی زبانوں اورکلچر کے کل نو سو چینلز ہیں جن میں سے چار سو نیوز چینلز ہیں۔ ان نیوز چینلز کو دھیرے دھیرے امبانی ‘ایڈانی اور دیگر بڑے کاروباریوں نے خرید کر مودی کو مہاتما بنانے کے کام پر لگا دیا۔ مودی کو ایک نئے بھگوان کا درجہ دیا گیا اور وہ سب آوازیں خاموش کرا دی گئیں جو مودی کے خلاف بلند ہوتی تھیں۔ اب وہ سارے اینکرز جو مودی کے خلاف کھڑے ہوتے تھے‘ یوٹیوب چلا رہے ہیں جبکہ سکرین پر وہی لوگ چھائے ہوئے ہیں جنہوں نے اُس رات پاکستان پر بھارتی فوج کا قبضہ کرا دیا تھا۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہے کہ جمہوریت میں آپ کو ریاستی پالیسیوں اور حکمرانوں پر تنقید اور سوال کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ اگر جمہوری لیڈر بھی بھگوان بن جائیں تو پھر آمریت میں کیا برائی ہے؟
اندرا گاندھی نے جو کام میڈیا سے ایمرجنسی لگا کر لیا وہ مودی نے امبانی اور ایڈانی کے ذریعے کرا لیا ہے۔ سرائیکی کی مثال ہے مار نہ کٹ‘ اَندر چا گھٹ( مار پیٹ کی ضرورت نہیں‘ ایک رگ دبا دو بندہ خود ہی بیہوش ہو جائے گا)۔ یہی کچھ مودی نے بھارت میں کیا ہے۔ ایمرجنسی لگانے کے بجائے امبانی اور ایڈانی کے ذریعے بھارتی میڈیا کی رگ دبا دی ہے۔