یہ طے ہے کہ دوسروں پر حکمرانی کے جنون میں مبتلا انسان کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ میرا انسانی تاریخ کا جو محدود علم ہے اس سے مجھے کوئی شک نہیں رہا کہ دوسروں پر راج کرنے کیلئے آپ اپنے جیسے ہزاروں لاکھوں انسانوں کا لہو بہانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اقتدار جاتا دیکھ کر مذہب سے لے کر قومیت‘ رنگ‘ نسل یا اپنی برتری کا نعرہ مار کر جنگیں شروع کرنا عام سی بات رہی ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ نپولین کیسے فرانس کے بادشاہ کی نگاہ میں آیا تھا اور پھر اس کا خود بادشاہ بننے کا سفر کیسے شروع ہوا تھا؟ دراصل انقلاب کے بعد جو فرانس میں تشدد آمیز کارروائیاں شروع ہو گئی تھیں ان کو قابو میں لانے کیلئے نپولین نے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ اس نے عام فرانسیسی لوگوں کے سامنے توپیں رکھ کر کہا تھا کہ اگر اس سے آگے کوئی بڑھا تو توپوں سے اُڑا دیا جائے گا۔ اور پھر یہی کچھ ہوا اور لوگوں کو توپوں سے اڑا یا گیا۔ نپولین صرف فرانس میں آزادی کے نعرے تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے اپنے تئیں پورے یورپ کو آزاد کرانے کا ٹھیکہ لے لیا اور پھر وہ اٹلی سے مصر اور روس اور پھر انگلینڈ جا نکلا جہاں واٹر لُو جنگ میں شکست ہوئی اور گرفتار ہو کر ایک جزیرے پر قید ہوا جہاں وہ اپنی عظمت کے دن یاد کرتا تھا اور فرمائش کرتا تھا کہ اس کے ساتھ شہنشاہ جیسا سلوک کیا جائے۔ وہ جو پورے یورپ کو آزادی دلوانے نکلا تھا وہ خود مرتے دم تک اُس جزیرے پر قید میں رہا۔ مزے کی بات ہے کہ اسے انگلینڈ سے یہ گلہ بھی تھا کہ اسے انگلینڈ میں ہی پناہ کیوں نہ دی گئی۔ جی ہاں وہ انگلینڈ جس پر وہ چڑھائی کرنے گیا تھا۔
نپولین کے اس جنون کی قیمت اُن لاکھوں یورپیوں نے ادا کی جنہیں وہ اپنے تئیں آزاد کرانے نکلا تھا لیکن وہ جنگوں میں مارے گئے۔ نپولین کے اس سارے قصے میں سب سے دلچسپ اور سبق آموز کہانی یہ ہے کہ جب وہ مصر میں جنگی محاذ گرم کیے ہوئے تھا تو اس کے مخبروں نے فرانس سے پیغام بھیجا کہ اس کی محبوبہ جوزفین کسی اور کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی ہے۔ نپولین کو لگا کہ مصر کے ساتھ جنگ تو ہوتی رہے گی لیکن اس وقت محبوبہ کے پاس واپس جانا ضروری ہے۔ یوں عظیم جرنیل واپس فرانس لوٹ آیا تھا اور وہ مخبری ٹھیک نکلی تھی۔ اندازہ کریں کہ ایک بادشاہ جنگ کرنے نکلا ہوا ہے اور ملکہ کی رنگ رلیوں کا سن کر واپس لوٹ آتا ہے۔ حسد بھی کیا چیز ہے کہ آپ کو جنگ سے واپس لا سکتی ہے کہ میری محبوبہ کو کوئی اور ہتھیا لے گا۔ تب نپولین ساری آزادی کی جنگ بھول گیا تھا۔ لہٰذا یہ ذہن میں رکھیں کہ بے رحم ہوئے بغیر آپ حکمران نہیں بن سکتے اور جو شخص رعایا پر جتنا زیادہ ظلم کرتا تھا یا جنگوں میں لاکھوں لوگوں کو قتل کرتا تھا وہی بڑا جنرل یا حکمران کہلاتا تھا اور اس کی عزتی کی جاتی تھی‘ چاہے لوگ ایسا خوف کے مارے ہی کیوں نہ کرتے تھے۔
ایسے لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ بہت بڑے مقصد کیلئے پیدا ہوئے ہیں اور پھر جن انسانوں کی بھلائی کا وہ جھنڈا اٹھاتے ہیں انہی انسانوں کو جنگوں کا ایندھن بنا کر ان سے اپنی عظمت کے نعرے بھی لگواتے ہیں اور مرنے کے بعد تاریخ میں عظیم جنگجو کا لقب بھی پاتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی بھی معمولی ذہنیت یا شخصیت کے مالک نہیں ہوتے۔ عام انسان کب دوسرے انسانوں کی لاشیں گرا کر تخت پر جا بیٹھا؟ اس کیلئے بے رحم ہونا ضروری ہے۔ یہی بے رحمی نریندر مودی کی حالیہ تقریر میں نظر آتی ہے جس میں انہوں نے پاکستانی نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملکی حالات کی بہتری کیلئے آگے آئیں اور سکون سے روٹی کھائیں ورنہ میری گولی تو ہے ہی۔
حیرت ہوتی ہے کہ کبھی بھارت کے وزیراعظم نہرو‘ واجپائی‘ منموہن سنگھ جیسے لوگ تھے جنہیں پاکستان میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا‘ بھلے وہ بھارت کے لیڈرز تھے جس سے ہماری تین جنگیں ہو چکی تھیں۔ میری اپنے بھارتی دوستوں سے اکثر بحث ہو جاتی تھی جب وہ پاک بھارت تعلقات کی ناکامی کا الزام ہمارے سر پر ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔ میں یہ بات لکھ بھی چکا ہوں اور کئی دفعہ ٹی وی چینلز پر بول بھی چکا ہوں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ جہاں بھارت کا قصور تھا وہیں ہمارا حصہ بھی تھا جو شاید اُس سے زیادہ تھا‘ ہم نے کم از کم چار اچھے مواقع ضائع کیے جب دونوں ملک مسئلہ کشمیر حل کرنے کے قریب تھے۔ کبھی ہم پیچھے ہٹ گئے تو کبھی بھارت ہٹ گیا لیکن زیادہ ہم ہٹے۔
ہمارے بھارتی دوست بہت سی مثالیں دیتے تھے کہ انہوں نے کوشش کی۔ جب واجپائی صاحب لاہور تشریف لائے۔ بعد ازاں مودی صاحب نواز شریف دور میں جاتی امرا آئے تھے۔ منموہن سنگھ بھی مشرف کے ساتھ کشمیر معاہدے پر راضی تھے۔ لیکن پھر کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا تھا جس کے بعد انہوں نے ہاتھ اٹھا لیے۔ مشرف دور کے بعد دوبارہ پراکسی جنگوں کا دور شروع ہوا۔ بمبئی میں حملے ہوئے تو اسلام آباد میں ہوٹل کو اُڑادیا گیا جس میں ساٹھ ستر لوگ مارے گئے تھے اور پھر تعلقات نارمل نہ رہ سکے۔ میرا اُن بھارتی دوستوں سے یہی گلہ رہا کہ اگر دونوں ملکوں نے نان سٹیٹ ایکٹرز کا محتاج ہی رہنا ہے تو پھر کبھی اس خطے میں امن نہیں ہو سکتا۔ اگر دو بڑے ممالک کے مابین تعلقات کسی طرح ٹھیک نہیں ہو پا رہے تھے تو یہ ان قوتوں کی کامیابی تھی جو دونوں ملکوں میں دوستی نہیں چاہتی تھیں‘ چاہے وہ پاکستان میں تھیں یا بھارت میں۔ بھارت کو بڑا ملک ہونے کے ناتے پاکستان کو سپیس دینی چاہیے تھی اور تعلقات یا سفارتی معاملات کو اتنا خراب نہیں ہونے دینے چاہیے تھا کہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے سے بھی جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف ایس کے دلت ہوں یا سابق ہائی کمشنر ٹو پاکستان شیو شنکر مینن‘ ان دونوں نے مودی صاحب کے سخت اقدامات کی مخالفت کی اور کہا کہ پاکستان کو انگیج رکھیں‘ پاکستان کو دیوار کے ساتھ نہ لگائیں۔ یہی بات راہول گاندھی نے بھی اپنی ایک پارلیمانی تقریر میں کی تھی کہ مودی صاحب پاکستان کے ساتھ تعلقات اس نہج پر لے گئے ہیں کہ اسے اپنی سکیورٹی کیلئے چین کی طرف زیادہ جھکاؤ کرنا پڑا اور کانگریس کی ہمیشہ کوشش رہی کہ وہ پاکستان کو بات چیت میں انگیج رکھے تاکہ پاکستان اور چین ایک دوسرے پر مکمل انحصار نہ کرنے لگ جائیں۔ دونوں کے بھارت کے ساتھ سرحدی؍ کشمیر کے مسائل ہیں اور ان کے مفادات بھارت کے خلاف اکٹھے ہو گئے تو مشکلات ہوں گی۔ لیکن راہول گاندھی کی اس گہری بات کو بھی جگت بازی کی نذر کر دیا گیا اور آج وہی کچھ ہوا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے بھارتی دوست مجھے کہتے تھے کہ آپ چین پر زیادہ بھروسا کر رہے ہیں‘ آپ کو مسائل ہوں گے۔ میرا ان کو جواب ہوتا تھا کہ پاکستان کے پاس آپ نے کیا آپشن چھوڑا ہے؟ مودی صاحب کے بعد تو دونوں ملکوں کے تعلقات کی بحالی ایک خواب لگتی ہے بلکہ پاکستان کو شدید سکیورٹی خطرات لاحق ہیں‘ لہٰذا پاکستان اگر چین کے زیادہ قریب ہو رہا ہے تو یہ بھارتی کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
اب مودی صاحب کھلے عام گولی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان دھمکیوں کے پیچھے وہ پشیمانی چھپی ہوئی ہے جس کا سامنا بھارتی وزیراعظم کو حالیہ جنگ میں کرنا پڑا کیونکہ وہ اپنے عوام کو یہ تاثر دے چکے تھے کہ پاکستان کو تو رافیل جہازوں کے بعد بس چیونٹی کی طرح ہاتھوں میں مسل دیں گے اور یہ امریکہ کی کیا جرأت کہ وہ بھارت کو ڈکٹیٹ کرائے۔ اب اس خطے کے بادشاہ ہم ہیں اور ہمارے بعد قیامت ہے۔ لیکن ہر عروج کو زوال ہے اور مجھے لگتا ہے کہ مودی صاحب کا زوال شروع ہو چکا ہے۔ جو سوشل میڈیا پر بھارت میں ان کا حشر ہو رہا ہے اور ان کی مقبولیت کا جنازہ نکل رہا ہے اس کے بعد گبر سنگھ کا یہ فلمی ڈائیلاگ ہی بچ گیا تھا کہ سردار تیرا نمک کھایا ہے... اچھا... تو اب گولی کھا۔