"RKC" (space) message & send to 7575

نہرو‘ بھٹو اور ششی تھرور

ذہین لوگ ہمیشہ مجھے متاثر کرتے ہیں لیکن کچھ کتابیں پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ذیادہ ذہانت بھی آپ کی جان لے سکتی ہے۔ زیادہ کتابیں پڑھنا یا لکھنا بھی آپ کے خلاف چارج شیٹ بن سکتا ہے اور ان کتابوں کو لکھنے والے اپنی فطرت کے ہاتھوں محبور ہو کر وہی کام کر جاتے ہیں جو عام لوگ بغیر کتابیں پڑھے یا لکھے کرتے ہیں۔ جنرل اسد درانی نے بھی چند اہم کتابیں لکھیں تو ان کا کورٹ مارشل ہوگیا۔
ویسے تو پاکستان اور ہندوستان میں بہت سے ذہین لوگ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے کتابیں پڑھیں اور لکھیں اور میں ان میں چند ایک سے متاثر ہوں۔ بھارتی وزیراعظم نہرو صاحب نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں‘ بلکہ ان کی کتابوں کی اتنی سیل ہوتی تھی کہ نہرو اکثر اپنی بیٹی اندرا کو لندن میں قیام کے دوران پیسے ختم ہونے پر اپنے پبلشرز کو میسج کرکے پیسے دلواتے تھے۔ نہرو کی کتابوں کی کافی رائلٹی انہیں ملتی تھی۔ نہرو ایک بہت امیر باپ کا اکلوتا بیٹا تھا‘ بے پناہ دولت تھی لیکن اسے کتابوں کی رائلٹی سے پیار تھا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کنجوس تھا یا اسے پیسوں کی ضرورت تھی‘ لیکن جو نشہ اپنی لکھی کتاب کے پیسوں کا ہے وہ اور کسی چیز میں نہیں۔ خیر نہرو کے بعد اگر کسی نے زیادہ کتابیں لکھی ہیں تو وہ بھارتی سیاستدان ششی تھرور ہیں‘ جن کی کتابیں بہت بکتی ہیں۔ یقینا انہیں بھی رائلٹی کی مد میں خاصے پیسے ملتے ہوں گے۔
اگر پاکستان میں آپ نے کسی سیاستدان کو دیکھنا ہو‘ جو پڑھا لکھا ہو اور جس نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں تو وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ بھٹو صاحب نے بہت اہم موضوعات پر لکھا اور ان کی کتابوں کی آج بھی مانگ ہے۔ ان کے علاوہ مجھے کوئی قابلِ ذکر سیاستدان نظر نہیں آتا جس نے کوئی کتاب لکھی ہو۔ کسی نے خوب کہا تھا کہ ہر بندہ زندگی میں ایک کتاب تو لکھ سکتا ہے‘ وہ ہے اس کی خود نوشت۔ اصل تخلیق کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب آپ پہلی کتاب کے بعد دو تین کتابیں لکھتے ہیں اور لکھتے رہتے ہیں۔ اس لیے پاکستانی سیاستدانوں نے زیادہ تر اپنی خودنوشت لکھی یا لکھوائی یا چند بیوروکریٹس نے بھی اپنی یادداشتیں لکھیں۔ اس کے علاوہ میں نے شاید ہی کسی سیاستدان کی ایک کے بعد دوسری کتاب پڑھی ہو۔ بھارتی سفارت کار اب اپنی یادداشتوں کے علاوہ بھی دیگر اہم موضوعات پر لکھتے ہیں خصوصاً وہ چین اور پاکستان کے بارے لکھتے رہتے ہیں لیکن ہمارے سفارت کار یہ کام نہیں کرتے کہ چلیں آپ بھی چین‘ بھارت‘ مڈل ایسٹ‘ یورپ اور امریکہ بارے لکھیں تاکہ ہمارے مستقبل کے ڈپلومیٹس کو کچھ رہنمائی مل سکے۔
خیر بات ہو رہی تھی کہ کتابیں پڑھنے والے کیوں بڑا بلنڈر مارتے ہیں جو انکی جان تک لے سکتا ہے۔ کتابیں پڑھنے سے یاد آیا کہ ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب میرے بہت اچھے دوست ہیں۔ وہ اکثر مجھے مذاق میں کہتے ہیں کہ آپ کتابیں کم پڑھا کریں۔ کتابیں پڑھ کر پھر آپ کالم لکھ دیتے ہیں اور مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ وہ یہ بات کسی اور تناظر میں کہتے ہیں‘ جب میں نے سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پینٹا کی کتاب پڑھ کر اس پر چند کالمز لکھے تھے جن میں اسامہ بن لادن آپریشن کی تفصیلات دی گئی تھیں بلکہ اس میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا ایشو بھی تھا۔ جس طرح لیون پینٹا نے اُسوقت کے ایک اہم جنرل کو دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ ریمنڈ کی سیفٹی آپ کی ذمہ داری ہے اور اس کو کچھ ہوا تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔ چند دنوں بعد ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرا کے جہاز پر بٹھا کر اُن جنرل صاحب نے رپورٹ کیا تھا۔ میرے ان کالمز پر وہ جنرل صاحب خاصے اَپ سیٹ تھے اور میرے خلاف کارروائی کرنا چاہتے تھے۔ میری اور میرے بچوں کی سکول آتے جاتے نگرانی بھی شروع کرائی گئی تھی۔ برسوں بعد مجھے ان ریٹائرڈ کرنل صاحب نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ آپ کتابیں کم پڑھا کریں‘ کتابیں مشکلات بھی لا سکتی ہیں۔ خیر وہ کرنل صاحب خوبصورت انسان ہیں اور ہمارے دوست ہیں۔
بھٹو صاحب کی کتابوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ ان جیسی تقریریں اور کتابیں کم کی یا لکھی گئی ہوں گی۔ لیکن ان کی سارا علم اور کتابیں بھی انہیں غلط فیصلے کرنے سے باز نہیں رکھ سکیں۔ اتنا پڑھا لکھا بندہ بھی اپنا صحیح جنرل نہ چن سکا۔ اتنا علم بھی انہیں وہ مردم شناسی نہ دے سکا۔ اتنا پڑھا لکھا بندہ بھلا کیسے خوشامد پسند ہو سکتا ہے کہ بھٹو کو لگا یہ مسکین آدمی ہمیشہ ان کا تابعدار رہے گا۔ ویسے ہر وزیراعظم کو تابعدار آرمی چیف کی تلاش رہی ہے اور ان کا چوائس ہمیشہ غلط نکلا ہے اور اس کی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ (اگرچہ موجودہ آرمی چیف کو اچھا وزیراعظم ملا ہے اور لگتا ہے شکایت دور ہو گئی کہ سیاسی وزیراعظم پھڈے کرتے ہیں) بھٹو کے اندر شاید ایک فیوڈل ہمیشہ سے تھا لہٰذا ان مواقع پر بھٹو پر جاگیردار غالب آ جاتا تھا اور بھٹو نے اپنے اس فیصلے کی بھاری قیمت ادا کی۔ بھٹو کو بہت پڑھا لکھا ہونے کے ناتے سمجھنا چاہیے تھا کہ جمہوریت کیلئے اپوزیشن اور فری میڈیا یا عدالتیں کتنی ضروری ہیں‘ لیکن ان کا دور اپوزیشن اور میڈیا کے ساتھ سختی سے پیش آنے والا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ بھٹو کے چند سالوں میں بڑے بڑے کام ہوئے۔ میں ذاتی طور پر ان کے بہت سے کاموں کا معترف ہوں لیکن وہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے بجائے اتنا کمزور کر گئے کہ جب پھانسی لگ رہے تھے تو انہیں بچانے کیلئے کوئی جمہوری ادارہ نہیں بچا تھا۔ اس طرح ششی تھرور بھی بہت پڑھے لکھے ہیں۔ انہیں بھی میں نہرو اور بھٹو کی کلاس میں رکھتا ہوں۔ وہ جس طرح انگریزی بولتے ہیں اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اچھی انگریزی ہو سکتا ہے بہت سے لوگ بولتے ہوں لیکن اس انگریزی کے ساتھ پڑھی لکھی اور ذہانت بھری گفتگو کتنے لوگ کر سکتے ہیں؟ یہ صفت مجھے نہرو‘ بھٹو اور ششی تھرور میں نظر آتی ہے۔ ہو سکتا ہے بہت سے لوگ اتفاق نہ کریں لیکن اپنی اپنی پسند کی بات ہے۔ اگرچہ بھارت نے اپنے تئیں ایک ذہین بندے کا انتخاب کیا ہے جو بھارت کا مقدمہ دنیا بھر میں پیش کرے۔ ششی کے جوڑ کا اس وقت بھارت میں کوئی نہیں ہے۔ ان کا عالمی قد کاٹھ بھی بڑا ہے۔ لیکن ششی تھرور سے مجھے جو گلہ ہے وہ اور ہے۔ اگر ایک بندہ پورے تین سو صفحات کی کتاب وزیراعظم مودی اور بھارتی جنتا پارٹی کے خلاف لکھ کر ثابت کرے کہ یہ دونوں بھارت کے مستقبل کیلئے خطرناک ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے بھارت محفوظ نہیں‘ پھر بھی ان کے ساتھ کھڑا نظر آئے تو بات نہیں بنتی۔ ششی نے بی جے پی کی سیاست کی دھجیاں اڑائی ہیں کہ وہ کیسے بھارت کے سیکولر ازم کو کھا گئی اور آج بھارت کا مستقبل خطرے میں ہے۔ یقینی طور پر ششی تھرور نے اپنی اس کتاب پر بہت محنت کی ہے کہ بھارت کی روح بی جے پی کی وجہ سے زخمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ اس حد تک نتائج نکال لیتے ہیں تو پھر آپ کیسے اس وزیراعظم کے ایلچی بن کر دنیا بھر میں جاتے ہیں؟ آپ سب کہیں گے کہ بھارت اور بھارتی وزیراعظم میں بڑا فرق ہے۔ درست بات ہے کہ بھارت کے مفادات ششی تھرور کیلئے اہم ہونے چاہئیں کیونکہ وہ ان کا ملک ہے لیکن کیا ششی نے خود اپنی کتابوں میں نہیں لکھا کہ اس وزیراعظم کی وجہ سے ہی سب مسائل ہو رہے ہیں۔ تو کیا پاکستان انڈیا کے درمیان جو دس سال سے تعلقات خراب چلے آرہے ہیں‘ جو آخرکار جنگ تک لے گئے‘ کا ذمہ دار وہ مودی کو نہیں سمجھتے؟ جب پاکستان کشمیر میں سیاحوں کے قتل کے بعد تحقیقات کا کہہ رہا تھا تو ششی تھرور جیسی آوازوں کو جنگ کی مخالفت اور امن کی بات کرنی چاہیے تھی۔ ان جیسا پڑھا لکھا بندہ بھی اگر جنگی جنون کا شکار ہو چکا ہے تو پھر اس خطے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اگر اتنا پڑھا لکھا بندہ بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان بھارت کے درمیان مسائل کا حل جنگوں سے ہی نکلے گا تو پھر وہی بلھے شاہ یاد آتے ہیں کہ علموں بس کریں او یار۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں