اگلے روز لندن کے صحافی دوست مرتضیٰ علی شاہ سے بات ہو رہی تھی‘ جنہوں نے چند روز قبل ایک ارب پتی پاکستانی بزنس مین تنویر احمد کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے عمران خان کے ساتھ اڈیالا جیل میں ہونے والی نو خفیہ ملاقاتوں کی بات کی ہے۔ ان ملاقاتوں کا مقصد عمران خان اور مقتدرہ کے درمیان کسی ڈیل کی کوشش کرکے اسے انجام تک پہنچانا تھا۔ اگرچہ یہ خبر تو سامنے آ چکی تھی کہ امریکی بزنس مین اس معاملے میں دونوں طرف ملاقاتیں کر رہے اور معاملات بڑی حد تک آگے بڑھ چکے تھے لیکن آخری مرحلے پر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ اب تنویر احمد کے انٹرویو سے پتا چلتا ہے کہ نو ملاقاتوں کے باوجود بات آگے کیوں نہ بڑھ سکی۔
تنویر احمد کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور وہ سترہ‘ اٹھارہ سال کی عمر میں صرف بیس ڈالرز جیب میں ڈال کر امریکہ گئے اور پھر جس طرح کی جدوجہد کر کے وہاں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے وہ اپنی جگہ ایک بڑی کہانی ہے۔ لاکھوں پاکستانی بیرونِ ملک اچھا خاصا کما رہے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کا حوصلہ ہوتا ہے کہ اپنے وطن پر کچھ خرچ کریں۔ کچھ پاکستانی انفرادی طور پر اپنے اپنے علاقوں میں فلاحی کام کرتے رہتے ہیں‘ تاہم تنویر احمد نے ایک پاکستانی یونیورسٹی کو نو ملین ڈالر کا عطیہ دیا جو آج کے حساب سے ڈھائی ارب روپے بنتے ہیں۔ خیر تنویر احمد نے کوشش کی کہ کسی طرح پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش کو ختم کیا جائے۔ عمران خان کسی طرح جیل سے باہر آ جائیں اور یوں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اگرچہ یہ کہا گیا کہ یہ ملاقاتیں علیمہ خان نے کرائی تھیں‘ انہوں نے ہی عدالت سے حکم لیا تھا کہ تنویر احمد کی عمران خان سے ملاقات کرائی جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تنویر احمد کی عدالت کے حکم پر عمران خان سے ملاقات کرائی گئی تو پھر وہ مقتدرہ کیلئے کتنے اہم تھے؟ اگر مقتدرہ نے اُنہیں خود عمران خان سے نہیں ملوایا تو پھر تنویر احمد کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن لگتا ہے اس سارے معاملے کو لیگل دکھانے کیلئے عدالت کی اجازت لی گئی تاکہ کل کلاں کوئی خبر سامنے آئے تو یہ نہ سمجھا جائے کہ مقتدرہ خود اپنا بندہ سامنے لائی تھی جو عمران خان سے ملاقاتیں کر رہا تھا۔ تاہم عمران خان سے اس بزنس مین کی نو ملاقاتوں‘ جو بتایا جاتا ہے دو دو گھنٹے تک چلتی تھیں‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات چیت کافی آگے بڑھ چکی تھی۔ عمران خان اور مقتدرہ نے کچھ اقدامات کرنے تھے۔ اگرچہ عمران خان پر بھروسا کم تھا لہٰذا انہیں کہا گیا کہ وہ پہلے اپنی سوشل میڈیا پر جاری گالی گلوچ اور دیگر مہموں کو روکیں اور خان صاحب اس پر بھی راضی تھے‘ لیکن اس دوران کسی نے عمران خان کو کہا کہ آپ کو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بشریٰ بیگم اور علی امین گنڈاپور اپنے اپنے سروں پر کفن باندھ کر پورا پانچ لاکھ بندہ خیبرپختونخوا سے اپنے ساتھ لا رہے ہیں۔ وہ اسلام آباد پہنچ کر بنگلہ دیش کی طرح انقلاب لائیں گے۔ پختون نوجوان وزیراعظم ہاؤس اور دیگر سرکاری اداروں میں گھس جائیں گے اور یوں حسینہ واجد کی طرح موجودہ حکمران فرار ہو جائیں گے۔ آپ بس دو دن انتظار کریں‘ پھر آپ جیل سے باہر ہوں گے۔ یوں عمران خان نے نو ملاقاتوں کے بعد پانچ لاکھ انقلابیوں پر بھروسا کر لیا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ ہم سب جانتے ہیں۔ آٹھ دس ہزار بندے لائے گئے اور ان میں سے دو تین ہزار گرفتار ہوگئے اور ابھی تک ضمانتوں پر ہیں یا جیلیں بھگت رہے ہیں۔ بشریٰ صاحبہ‘ جو عمران خان کو جیل سے رہا کرانے آئی تھیں‘ خود جیل پہنچ چکی ہیں۔ پتا چلا ہے کہ عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو جیل میں ملاقات میں سخت ڈانٹا ہے اور کہا ہے کہ بشریٰ بی بی کو دوبارہ اڈیالا جیل بھجوانے میں تمہارا ہاتھ ہے۔ اس بات کی تصدیق شیر افضل مروت نے کی ہے اور علی امین گنڈاپور اس بات پر بہت نالاں تھے کہ عمران خان نے ان پر یہ الزام لگایا۔
اسی طرح کے ایک اور انقلاب کا میں بھی عینی شاہد ہوں۔ جب دس ستمبر 2007ء کو نواز شریف لندن سے جلاوطنی ختم کرکے اسلام آباد کیلئے روانہ ہو رہے تھے تو میں نے خود کانوں سے سنا کہ ایک صاحب نواز شریف کو ہیتھرو ایئر پورٹ پر کہہ رہے تھے کہ میاں صاحب آپ کا استقبال ایسے ہوگا جیسے ایران میں خمینی کا ہوا تھا۔ لاکھوں کا مجمع اسلام آباد ایئر پورٹ میں داخل ہو کر آپ کو جہاز کے اندر سے اٹھا کر باہر لے جائے گا اور آپ جی ٹی روڈ سے بڑے جلوس کے ساتھ لاہور پہنچیں گے۔ مزے کی بات ہے کہ میاں صاحب بھی اس پر یقین کیے بیٹھے تھے کہ انہیں لینے کیلئے لاکھوں لوگ ایئرپورٹ پر موجود ہوں گے۔ ایئر پورٹ پر اُترے تو نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ نواز شریف کو پکڑ کر وہاں پہلے سے موجود جہاز میں بٹھا کر جدہ بھیج دیا گیا۔
اب آصف زرداری کے انقلاب کی کہانی سن لیں۔ 2004ء میں وہ بھی دبئی سے وطن واپس لوٹ کر انقلاب لا نا چاہ رہے تھے۔ پورے سندھ اور پنجاب سے پی پی پی کے قافلے اور جیالے منگوائے گئے۔ آصف زرداری کی پرویز مشرف اور کچھ دیگر جرنیلوں سے خفیہ بات چیت چل رہی تھی۔ زرداری صاحب نے بینظیر بھٹو کو قائل کر لیا تھا کہ وہ ان سے بہتر ڈیل میکر ہیں۔ وہ پاکستان جا کر لاہور میں اتنا بڑا مجمع اکٹھا کر لیں گے کہ پرویز مشرف پرویز الٰہی کو برطرف کر کے نئے الیکشن کرائیں گے اور پی پی پی کو اقتدار مل جائے گا۔ بی بی نے بھی یقین کر لیا۔ میں اُس جہاز میں تھا جو آصف زرداری کو لے کر لاہور اترا اور پورا راستہ انقلاب کے نعرے لگتے رہے۔ جہاز اترا تو مرحوم ایس پی مبین جہاز کے اندر آئے۔ زرداری صاحب کو سیلوٹ مارا اور کہا: سر چلیں۔ بڑے مودبانہ انداز میں زرداری صاحب اٹھے اور باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر لاہور میں واقع اپنے گھر چلے گئے۔ سڑکوں پر جیالوں کو پولیس مار رہی تھی اور ایئر پورٹ پر پولیس نے صحافیوں کو بھی پھینٹی لگائی اور اگلے دن زرداری صاحب دبئی کی ٹکٹ لے کر واپس لوٹ گئے۔
ایک اور انقلاب پرویز مشرف بھی پاکستان میں لا رہے تھے۔ استعفیٰ دینے کے بعد وہ پاکستان چھوڑ کر دبئی شفٹ ہو گئے لیکن سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں۔ وہ کیا کہتے ہیں: چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ وہی سیاست کا حال ہے کہ ایک دفعہ چسکا پڑ گیا تو پھر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہی پرویز مشرف کا حال تھا۔ ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر دس لاکھ فالورز تھے۔ پاکستان سے بھی کچھ پرانے سیاستدان ان سے دبئی میں ملنے جاتے تھے اور سب یہی کہانیاں سناتے تھے کہ صاحب پاکستان کے لوگ آپ کو مِس کرتے ہیں‘ وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں کہ آپ واپس آئیں اور انہیں لیڈ کریں۔ اپنی مقبولیت کا اندازہ لگائیں کہ دس لاکھ بندہ آپ کو فالو کرتا ہے۔ آپ کے اشارے کی دیر ہے پھر آپ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ یوں جنرل مشرف بھی اس چکر میں آگئے اور انہوں نے فیس بک فالورز کو اپنی مقبولیت کا ثبوت سمجھ لیا اور ایک دن اعلان کر دیا کہ وہ کراچی لینڈ کریں گے۔ اچھا خاصا پیسہ خرچ کیا گیا۔ اُس وقت کی مقتدرہ نے منت ترلہ کیا کہ آپ واپس نہ آئیں لیکن جنرل مشرف بھی مقبولیت کے گھوڑے پر سوار تھے اور انہیں فیس بک کے دس لاکھ فالورز نظر آرہے تھے۔ یوں دبئی میں اچھی خاصی زندگی چھوڑ کر کراچی آ گئے۔ وہ ابھی ایئر پورٹ کے اندر ہی تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ باہر دس لاکھ کا مجمع اور ان کا فین کلب نعرے مار رہا ہوگا۔ پھر پتا چلا کہ باہر دو تین سو بندے بھی نہیں ہیں اور وہ بھی زیادہ تر وہ ہیں جنہیں کچھ دے دلا کر لایا گیا تھا۔ افسردہ اور دل برداشتہ مشرف اگلی فلائٹ سے دبئی لوٹ گئے۔ یہ تھا فیس بک انقلاب کا افسوسناک انجام۔